ارتقائی نفسیات (11)۔۔وہاراامباکر

ارتقائی نفسیات کی موجودہ صورت کا آغاز سوشیوبائیولوجی سے ہوا۔ یہ ارتقا کی تھیوری کی شاخ ہے جو جانداروں (اور خاص طور پر انسانوں) کے رویوں کی وضاحت کی کوشش ہے۔ یہ وضاحت کرتی ہے کہ ارتقا کے عمل نے ان کی کیسے تشکیل دیا۔ اس کا اہم سنگِ میل ایڈورڈ ولسن کی لکھی کتاب “سوشیوبائیولوجی” تھی۔ ولسن معاشرتی حشرات کے بہترین محقق تھے۔ ان کی کتاب کا آخری باب انسانوں پر تھا جس نے سب کی توجہ حاصل کی۔ اور اس نے ایک تلخ بحث چھیڑ دی۔
اس بحث کے دونوں اطراف میں سیاسی اور نظریاتی تعصبات تھے اور یہ خوشگوار نہیں تھی۔ مشہور ایولوشنری بائیولوجیسٹ سٹیفن جے گولڈ نے شدید تنقید کی۔ ولسن پر آوازے کسے گئے۔ ایکٹیوسٹ طلبا نے لیکچر بند کرنے کی کوشش کی۔ ان پر سائنسی میٹنگ میں سرد پانی اور برف کی بالٹی الٹائی گئی۔ دوسری طرف، اس شعبے کی شہرت خراب کرنے میں کچھ قابلِ اعتراض کتابوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس میں “بیل کرو” اور “نیچرل ہسٹری آف ریپ” جیسی کتابیں تھیں جس میں بڑے دعوے تھے لیکن شواہد نہ ہونے کے برابر۔
ہم چونکہ اس بارے میں کوئی نظریاتی وابستگی نہیں رکھتے تو سوال اور بات چیت جذباتیت کے بغیر کر سکتے ہیں۔ “کیا ارتقائی نفسیات ارتقائی بائیولوجی کی شاخ ہے؟ (جو اس کے حامی دعویٰ کرتے ہیں) یا سوڈوسائنس کے قریب تر ہے؟ (جو دعوٰی اس کے مخالفین کا ہے)”۔
ہم سب اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ارتقائی بائیولوجی بہت مضبوط بنیادوں پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خیال کہ نفسیات اور کوگنیٹو خاصیتوں کا تعلق اس سے ہے، ایک اچھا خیال ہے۔ ان کا نیچرل سلیکشن سے تعلق ہے۔ اس بارے میں سائنسدانوں میں نہ ہی کوئی تنازعہ ہے اور نہ اس کے متنازعہ ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ اب اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس کسی ایک خاصیت کی وضاحت کرنے کے لئے دستیاب شواہد کافی ہیں جس کی بنا پر ایک خاص دعویٰ کیا جا سکے؟ مسئلہ اس تفصیل کا ہے۔
رچرڈ لیونٹن کا اس بارے میں کہنا ہے، “ہمیں یہ بچگانہ مفروضہ چھوڑ دینا چاہیے کہ ہمیں ہر دلچسپ سوال کا جواب مل ہی جائے گا۔ کوگنیشن کب پیدا ہوئی؟ کیسے پھیلی؟ کیسے بدلی؟ یہ بہت دلچسپ سوالات ہیں۔ ہمیں اس کے جواب نہیں ملیں گے۔ بڑی بدقسمتی ہے۔ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے”۔ کیا لیونٹن کی بات میں وزن ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوڈوسائنس کی چیدہ چیدہ خاصیتیں کیا ہیں؟ حقائق کی شواہد کے بجائے منظرنامے (scenario) سے وضاحت؟ ایسا مفروضہ جس کو جھٹلایا نہ جا سکے؟ شواہد سے زیادہ اخذ کر لینا جو کیا جا سکتا ہے؟ اپنی پوزیشن بدلنے پر شدید مزاحمت؟ بارِ ثبوت خود نہ لینا؟ تھیوری سے لگاوٗ؟ بے ربط سوچ؟ (یہ فہرست جان کاسٹی کی ہے)۔
اگر اس بنیاد پر اس کو پرکھا جائے تو ارتقائی نفسیات کے بارے میں ملا جلا جواب آئے گا۔ اس کی مثال: تھورن ہِل اور پالمر نے کہا کہ ریپ کمزور نر کی حکمتِ عملی تھی کہ وہ “چپکے” سے اپنے جین آگے بڑھا دے۔ کیونکہ اسے مادہ تک رسائی نہیں تھی۔ اگر یہ خیال اخلاقی طور پر بدمزہ کرتا ہے تو یہ اس کے غلط یا صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ لیکن ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی دینی چاہیے (کیونکہ یہ سائنس کا موضوع نہیں)۔ بائیولوجیکل نکتہ نظر سے یہ خیال بالکل باربط ہے۔ مسئلہ اس وقت آتا ہے جب ہم یہ سوال کریں کہ اس کے شواہد کیا ہوں گے۔
اس کے لئے ہم آج کی سوسائٹی سے آغاز کر لیتے ہیں۔ آج کا اکٹھا کیا گیا ڈیٹا یہ دکھاتا ہے کہ ریپ افزائشِ نسل کی اچھی حکمتِ عملی نہیں۔ کرنے والے کے لئے یہ پرخطر ہے۔ اکثر اس کے بعد وہ اپنے جین آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہتا۔ (اسقاطِ حمل کا معاملہ اس کے علاوہ ہے)۔ ارتقائی نفسیات کے ماہر بتائیں گے کہ جدید رویے کا ارتقا آج کے ماحولیاتی حالات میں نہیں ہوا۔ اس میں اہم دور پلسٹوسین کا تھا۔ یہ وضاحت معقول بھی ہے اور ایسی بھی جس کو ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معقول خیال ہے کہ جدید انسانوں سے قبل کا طویل دور شخصیت اور بناوٹ تراشنے میں اہم رہا ہو گا۔ (اگرچہ عام طور پر اشارہ کئے گئے پلسٹوسین کے دور میں کوئی ایسی جادوئی چیز نظر نہیں آتی)۔ بدقسمتی سے رویوں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ یہ اپنا فوسل ریکارڈ نہیں چھوڑتے۔ سوشل اور کلچرل ماحول میں سلیکشن پریشر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ اور یہ پلسٹوسین کے دور سے لے کر کی گئی وضاحتوں کو صرف ایک کہانی تک محدود کر دیتا ہے ہے جس کے پیچھے کوئی سائنسی شواہد نہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لازمی طور پر غلط ہے، صرف یہ کہ اس کو سائنسی طریقے سے پرکھا نہیں جا سکتا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارتقائی نفسیات کا ایک اور بڑا راستہ تقابلی طریقہ ہے۔ اس میں کسی ایک نوع کا موازنہ اس کی قریبی نوع سے کیا جاتا ہے۔ ارتقائی بائیولوجی میں یہ تکنیک بہت استعمال کی جاتی ہے لیکن انسان کے معاملے میں یہ بہت اچھا کام نہیں کرتی۔ اس کی وجہ تاریخ کا ایک اور بدقسمت حادثہ ہے۔ تقابلی طریقے کو اچھا کام کرنے کے لئے ہمیں کئی قریبی رشتہ دار انواع درکار ہیں تا کہ شماریاتی تجزیہ ممکن ہو۔ لیکن انسان کے قریبی رشتہ داروں کی قلت ہے۔ چمپنیزی اور گوریلا کی ایک دو انواع سے زیادہ قریب کچھ اور نہں اور ان سے بھی الگ ہوئی کئی ملین سال گزر گئے جو آزادانہ ارتقا کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اتنے زیادہ قریبی رشتہ دار نہیں ہیں۔ اچھا ہوتا کہ بہتر ڈیٹا میسر ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخی سراغ اتنے نہیں کہ اچھے جواب دئے جا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر ایک طرف ارتقائی بائیولوجی سائنس کا مضبوط ترین شعبہ ہے، وہیں پر یہ مسائل دوسری طرف ارتقائی نفسیات کو سائنس اور غیرسائنس کی درمیانی سرحد پر دھکیل دیتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ شعبہ آسٹرولوجی کی طرح کی سوڈوسائنس نہیں ہے لیکن مین سٹریم ارتقائی بائیولوجی جتنی مضبوط بنیاد پر نہیں۔ اس کا طریقہ کار خالص ہسٹوریکل ریسرچ کے قریب تر ہے۔ جس میں بہترین امکان یہ ہوتا ہے کہ ہارڈ ڈیٹا کی عدم موجودگی میں کئی اچھی ممکنات بتا دی جائیں۔
کیا نپولین کو واٹرلو میں شکست پیچیدہ ملٹری یا سیاسی وجوہات سے ہوئی تھی یا اس لئے کہ انہیں اس وقت پیچش لگ گئی تھی اور توجہ نہیں دے پائے؟ دوسرا امکان مزاحیہ لگتا ہے لیکن کیا ممکن نہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کوئی امکان نہیں کہ ہم یہ جان پائیں کہ ایسا بھی کوئی فیکٹر بھی موجود تھا یا نہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیچیدہ فیکٹرز کو جاننے کی اپنی اہمیت نہیں)۔ اور تاریخ کے کئی حصے ارتقائی نفسیات کے مقابلے میں زیادہ بہتر ایمپریکل ٹیسٹ سے گزر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کی نیچر کے وسیع تناظر میں کواسی سائنسز وہ جگہ لیتی ہیں جن میں سائنسی ڈسپلن کی کئی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ارتقائی نفسیات میں ارتقائی بائیولوجی کی۔ خلائی مخلوق ڈھونڈنے کے پروگرام میں آسٹرونومی اور بائیولوجی کی۔ سٹرنگ تھیوری میں تھیوریٹیکل فزکس کی۔ یہ سب مکمل سائنس ہوں یا نہیں۔ انسانی علم کا حصہ ہیں۔
لیکن اس سے اگلا پڑاوٗ وہ شعبے ہیں جنکا سائنس سے واسطہ نہیں۔ یہ سوڈوسائنس کا علاقہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply