آزادی اور ہندو مسلم اتحاد۔۔۔۔ابھے کمار

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ۱۹۴۰ کی دہائی میں ہندو مسلم تعلقات کشیدہ ہونے لگے۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک کے بعد ایک گہری چوٹ کی گئی۔ فرقہ پرستوں نے خوب پروپیگنڈا پھیلایا کہ ہندو اور مسلمان کے آپسی مفادات ایک نہیں ہیں۔ دو قوم نظریہ کے ٹھیکہ داروں نے ایک قوم  کو دوسری   قو م  کا دشمن بنا کر پیش کیا اور مشترکہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد کو مسترد کر دیا۔ رفتہ رفتہ اُن کی ناپاک سازش بہت حد تک کامیاب ہوئی اور ہندوستان کی تقسیمِ مذہبی خطوط پر کی گئی۔نتیجتاً لاکھوں ہندو، مسلمان اور سکھ فرقہ وارانہ جنون کے شکار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بر صغیر کی سر زمین معصوموں کے خون سے لال ہو گئی۔کل تک فرقہ پرست طاقتوں کو سیاست سے دور رکھنے والی عوام ان کی باتوں پر یقین کرنے لگی۔پھرصورحال غیر یقینی اور تشویشناک ہوتی چلی گئی۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں اس کے لیے قصوروار تھیں۔

اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی خاطر اپنے اصول کے ساتھ سودا کیا۔ دونوں پارٹیوں کے سر کرده لیڈر کرسی کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ سیکولرازم کی سیاست کرنے والے یہ لیڈران فرقہ پرستوں سے کمپرومائز کرنے کے لئے آگے آ چکے تھے۔انا کی خاطر انسانیت کا خون کیا گیا۔ کرسی کی خاطر انسان انسان کا دشمن بن بیٹھا۔آزادی، مساوات،انصاف، ہم آہنگی، رواداری اور تحمل کے  اصول کو فراموش کر دیا گیا۔

ایک طرف کانگریس اقلیتوں کے واجب مطالبات کو ماننے سے انکار کرنے لگی اور مضبوط مرکز کے نام پر اکثریت ہندو کو سیاست میں حاکم بنانے کی ٹھان بیٹھی۔ یہی نہیں، کانگریس کے اندر موجود ہندوشدت پسند لابی کے سامنے اعلیٰ قیادت جھکنے لگی۔دوسری جانب، مسلم لیگ مسلمانوں کے مطالبات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگی اور اُن کو ہندؤں کا خوف دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بات اس لیے بھی بگڑی کہ لیگ اپنے موقف پر بضد ہو گئی۔

یہی وجہ ہے کہ کریسپ میشن کا منصوبہ ناکام ثابت ہوا۔ بد قسمتی دیکھیے کہ کانگریس اور لیگ، جو لمبے عرصہ تک انگریزوں کے خلاف ایک ساتھ مزاحمت کرتی  رہیں ، اچانک ایک دوسرے کے دشمن بن گئیں۔ کانگریس اور لیگ کے لیڈر آپس میں بچوں کی طرح لڑنے لگے اور ہر بات پر اپنے جھگڑے کو لے کر انگریزوں کے دربار میں پہنچ جاتے اور ان سے اپنے تنازعات کو حل کرنے کے لیے اپیل کرتے۔

آخری لمحات میں ہر طرف سے غلطی شروع ہونے لگی۔ را توں  رات لیڈروں کے چہرے بدلنے لگے۔ مولانا آزاد نے ان حالات کا ذکر اپنی کتاب “انڈیا وینز فریڈم” میں بخوبی کیا ہے۔ اُنہوں  نے کہا کہ جناح خود کو ہندوستان کے سارے مسلمانوں کا ترجمان سمجھ بیٹھنے کی غلطی کر بیٹھے تھے، تو نہرو، پٹیل اور بعد میں گاندھی جی نے  بھی تقسیمِ ملک کو ٹالنے کے لیے اپنی پوری طاقت نہیں لگائی۔ آزادی ملنے سے ایک سال قبل کانگریس کی صدارت سے آزاد کو ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ لینے کے لیے پنڈت نہرو آ گئے۔ دوسری جانب، وائسرائے واویل، جو ہندو مسلم تنازعہ کا حل متحدہ ہندوستان میں چاہتے تھے، کی جگہ ماؤنٹ بریٹن کو بھیج دیا گیا۔ آزاد کے مطابق، ماؤنٹ بریٹن نے ملک کی تقسیم کو روکنے میں واویل کی طرح دلچسپی نہیں دکھائی۔

تقسیمِ ملک بر صغیر کی تاریخ کا شاید سب سے سیاہ دن تھا۔ آزادی کی خوبصورت صبح   خون سے شرابور ہوکر ڈرانے لگی۔ جب قتل و غارت کی آگ ٹھنڈی ہوئی تو دونوں ملکوں کے لیڈروں کو یہ احساس ہونے لگا کہ ان سے بڑی غلطی ہوئی ہے۔ تبھی تو تمام دباؤ کے باوجود اس وقت کے لیڈروں نے بھارت کے آئین کو سیکولر ازم کے قطب پر نصب کیا۔ اس کے علاوہ اقلیتی حقوق اور سماجی انصاف ہندوستانی جمہوریت کا اہم ستون  قرار دیا گیا۔شاید اس وقت کے لیڈران چاہتے تو بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنا دیتے مگر انہوں نے ریاست سے مذہب کو الگ رکھا۔ ریاست کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی مذہب کو فروغ دے اوردیگر مذاہب کو دبائے۔ہندوستانی سیکولر ازم کا تقاضا ہے کہ ریاست تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مساوی رویہ اختیار کرے اور اس بات کی ضمانت دے کہ کسی کو مذہب ماننے یا  نہ ماننے کی پوری آزادی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ریاست کی نظروں میں سارے شہری اور سارے مذاہب برابر ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے قیام کے فوراً بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی ہندو مسلم تنازعہ کو بھلا کر کہا کہ پاکستان میں سب برابر ہیں۔ ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کو آئین ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صاف طور پر کہہ ڈالا کہ کسی شہری کے مذہبی عقائد سے ریاست کے بزنس کا کُچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ جو لوگ آج پاکستان کو ایک مخصوص مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور اپنے ملک کی  اقلیتوں کو پریشان کرتے ہیں، وہ ذرا قائد اعظم کی مذکورہ تقریر کو یاد کر لیں۔ پاکستانی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے جناح نے صاف کہا کہ آپ آزاد ہیں اپنے مذہب کو ماننے کے لیے۔ آپ کا تعلق جس بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، پاکستانی ریاست کو اس بات سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔

ہندوستان میں بھی آئین ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے سیاسی رہنماؤں نے سیکولر ازم، ہندو مسلم اتحاد اور اقلیتی حقوق پر زور دیا، مگر ان باتوں کو بھلا دیا گیاہے۔ کانگریس جو خود کو تحریک آزادی کا سب سے بڑا دل کہتی ہے اور خود کو سیکولر ازم، سوشلزم، جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن بتاتے نہیں تھکتی، آگے کے سالوں میں ایک کے بعد ایک کمپرومائز کرتی رہی اور پارٹی کے اندر شدت پسند لابی مضبوط ہونے گئی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں کے چھپے رشتے ان شدت پسندوں سے تھے اور دھیرے دھیرے ہندوتوا کا ایجنڈا ہندوستانی سیاست میں ابھرنے لگا۔ اسی ایجنڈے کے تحت بھارت کو ہندو قوم سے جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور غیر ہندوؤں کو دوئم درجہ کا شہری تصور کیا جا رہا ہے۔ آج ہندو شدت پسند ہندوستانی سیاست کے مرکز میں ہے اور اقتدار اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ ہر کوشش کر رہے ہیں کہ ہندو مسلم تنازعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور اسے ایک ملک گیر مسئلے  کے طور پر کھڑا کیا جائے۔ مگر ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ ملک کی آزادی میں سب نے قربانیاں دی ہیں۔ ہندوؤں نے بھی لہو بہایا ہے اور مسلمان نے بھی خون بہایا ہے۔

مثال کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان، جن کو ناحق ہی تحریک پاکستان کا سرخیل رہنما تصور کیا جاتا ہے, سالوں پہلے ہندوستان کا تصور ایک ایسی نئی نویلی دلہن سے کیا تھا جس کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں ہندو اور مسلمان۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۰ میں دادر میں منعقد خواتین کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، گاندھی جی نے بھی اسی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اُنہیں نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان ملک کی دو آنکھیں ہیں، جن کے مابین دشمنی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ۱۹۴۰ میں کانگریس کے ۴۳ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا آزاد نے مشترکہ تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں جو کچھ بھی ہے اس میں ہندو اور مسلمان دونوں کا ایک سا اثر ہے۔ہماری زبان الگ الگ تھی، مگر ہم نے ایک زبان بولناشروع کی۔ ہمارے طور طریقے اور رسومات الگ تھے، مگر ان کے سنگم سے ایک مشترکہ تہذیب نکلی۔ تبھی تو کوئی بھی خیال ہندو اور مسلمان کو بانٹ نہیں سکتا۔ بھارت کے اوپر جتنا دعوی ہندو دھرم کا ہے، اتنا ہی اسلام کا بھی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر آج جو اپنے آپ کو سب سے بڑا دیش بھگت بتا رہے ہیں، اُن کو کون بتائے کہ ہندوستان کا تعلق صرف ہندو سےنہیں ہے۔ اصل میں ہندو فرقہ پرستوں کو ہندو مت سے بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے، اُن کا تمام  دھیان اور ان کی ساری توانائی اقتدار حاصل کر کے   چند بڑے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا ہے اور غریبوں کا خون چوسنا ہے۔ اپنی ناکامی اور کمی کی چھپانے کے لیے وہ خود کو اکثریتی ہندو سماج کا نمائندہ کہہ رہے ہیں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا یا جا رہا ہے۔آئیے یوم آزادی کے موقع پر فرقہ پرستوں کوشکست دینے کا عزم کریں۔ہندوستان ہی کیا بر صغیر کی آزادی ہندو مسلم اتحاد کے بغیر پوری    نہیں   ہو سکتی ہے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply