• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہارٹ آف ایشیا کانفرنس، بھارت کا متعصبانہ رویہ اور سرتاج عزیز کی واپسی

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس، بھارت کا متعصبانہ رویہ اور سرتاج عزیز کی واپسی

امرتسر میں ہونے والی دو روزہ ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد خطے کے مما لک کا آپس میں تعلقات کو مستحکم کرنا اور پائیدار امن کے لیے اپنے تجربات کا تبادلہ خیال کرنا شامل ہے۔ بھارتی ریاست پنجاب کے اہم شہر امرتسر میں یہ کانفرنس اس وقت سجائی گئی جب خالصتان تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ خالصتان تحریک کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک باغی راہنما اپنے ساتھیوں سمیت جیل سے فرار ہوجاتا ہے۔ اور سکھ لبریشن آرمی کو دوباره منظم کررہا ہے۔ بھارت کی اندرونی بوکھلاہٹ سفارتی آداب کو پامال کررہی ہے۔
اس دو روزہ کانفرنس میں مختلف ممالک کے مندوبین نے شرکت کی اور اپنے عزائم سے آگاہ کیا۔ اس کانفرنس کی اہم بات بھارت اور افغانستان کا باہمی گٹھ جوڑ ہے۔ بھارت اور افغانستان نے اس کانفرنس میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی اور دہشت گردوں کا معاون قرار دیا۔ اس ساری صورت حال میں روسی نمائندے ضمیر کابلوف نے پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوۓ سرتاج عزیز کے خطاب کو تعمیری قرار دیا۔ پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے دی جانے والی امدا کے انکار نے افغان دشمنی عیاں کردی ہے۔دوسری طرف سکھ باغی سڑکوں پر ہیں اور آزاد خالصتان کے لیے آوازیں بلند کررہے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں پوری دنیا نے بھارت کا اندرونی امن اور سفارتی تعصب دیکھ لیا۔
مان لیا کہ دہلی، کابل الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر مشیر خارجہ اور پاکستانی ہائی کمیشن سے متعصبانہ رویہ اپناتے ہوۓ پریس کانفرنس کر نے سے روک دیا۔ اس سارے معاملے کی وجہ سکیورٹی صورت حال کو قرار دیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر بھارت اتنا غیر محفوظ ہے تو اتنا بڑا ”ایونٹ” کیوں منعقد کروایا؟ یہ سوال اب مہذب مغرب سے بھی ہے کہ آپ نے بھارت کو بغل گیر بچہ بنایا ہوا ہے یہ آپکے ہی بناۓ ہوۓ سفارتی آداب کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ کہاں ہیں آپکی تنظمیں، کہاں ہیں اقدار اور آپ کے منصوبہ ساز جو اقوام عالم کو اپنی انگلیوں پر نچوا رہے ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی نمائندے کو میزبان سر زمین پر اپنا موقف دینے کی مکمل اجازت ہوتی ہے لیکن یہاں سواۓ الزام تراشی اور بے عزتی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
اس ساری صورت حال میں ایک طرف سرتاج عزیز کو سکیورٹی رسک کا بهانه بنا کر ہوٹل کے کمرے تک محدود کردیا تو دوسری طرف پاکستانی صحافیوں کو میڈیا گیلری میں جانے سے روک دیا گیا۔سرتاج نے آج ”گولڈن ٹیمپل” جانا تھا۔ جس کی وجہ سے بھارت سرکار کے ہاتھ پاؤں پھول گیے۔ یہ گولڈن ٹیمپل وہی ہے، جہاں اندرا گاندھی نے آپریشن”بلیو سٹار” کروایا تھا۔ جس کی پاداش میں ہزاروں سکھ لقمہ اجل بن گیے تھے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو کوئی بھی سکھ نہیں بھلا سکتا۔ رات کی تاریکی میں نہتے سکھوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ بلیو سٹار کے جواب میں اندرا گاندھی کے محافظ بے انت سنگھ نے اندرا گاندهی کو قتل کردیا تھا۔ اس ساری صورت حال میں سرتاج عزیز نے اچانک وطن واپسی کا اعلان کیا اور بھارت سرکار نے چالیس منٹ تک سرتاج عزیز کو سکیورٹی کا بہانہ بنا کر ائیر پورٹ پر روکے رکھا۔ جو کہ سراسر تذلیل کے زمرے میں آتی ہے۔
سرتاج عزیز نے اسلام آباد پریس کانفرنس کرتے ہوۓ کہا کہ افغان مفاہمتی عمل میں ترکی اور روس نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور سراہا ہے۔ افغان صدرکے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ انہوں نے کہا ہم افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا تمام ممالک کے نمائندگان نے پاکستان کے کردار اور سفارتی رویے کو قابل تحسین قرار دیا۔ انہوں نے ارون جیٹلی اور اجیت دوول سے ملاقات کا بھی ذکر کیا اور کسی بریک تھرو کی امید نہ رکھنے کو کہا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت میں سکیورٹی صورت حال عجیب وغریب ہے ” میں جس ہوٹل میں ٹھہرا مجھے کمرے تک محدود کردیا گیا تھا”۔ بھارت کا صحافیوں سے رویہ غیر جانبدار نہ تھا۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply