برٹش امیگریشن۔۔ سٹوڈنٹ ویزہ

( انعام رانا برطانیہ میں مقیم ماہر قانون ہیں۔ آپ برطانوی امیگریشن، سول، فیملی اور اسلامک لا سے متعلق کیسز پر کام کرتے ہیں۔ قارئین اپنے مسائل کیلیے اس ای۔میل پر رابطہ کر سکتے ہیں:
info@juliaranasolicitors.co.uk )

دوسری قسط:

اس سلسلے کی پہلی قسط کی پسندیدگی پر میں آپکا بے حد ممنون ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سیریز کے آخر تک برطانوی امیگریشن کے بارے میں آپ کی معلومات اسقدر وسیع ہوں گی کہ آپ کسی ایجنٹ کے ہاتھ چڑھ کر اور سراب کے تعاقب میں فراڈ کا شکار نہ ہوں گے۔ انشاللہ۔

سٹوڈنٹ ویزہ؛
برطانیہ ہمیشہ سے اپنے تعلیمی اداروں کے اعلی معیار کی وجہ سے طلبا کے لیے ایک پرکشش ملک رہا۔ ایک تو ہم جس نظام تعلیم کا حصہ ہیں وہ اب بھی بہت حد تک انگریزوں ہی کا بنایا ہوا ہے۔ پھر بچپن سے ہم اقبال اور قائد کو اعلی تعلیم کیلیے لندن تشریف لے جاتے ہوے پڑھتے ہیں اور اس “اعلی تعلیم” سے ایک رومانس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب آپ تب تک ایک کامیاب پروفیشنل نہیں بن سکتے جب تک آپ کے پاس کوئی “فارن کوالیفیکیشن” نہ ہو۔ سو برطانیہ سٹوڈنٹس کا تعلیمی قبلہ ہے۔

پچھلے پندرہ سال میں سب سے زیادہ لوگ اسی کیٹیگری میں برطانیہ آئے۔ آنکھوں میں ایک بہتر مستقبل کا سپنا سجائے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے سٹوڈنٹس کس المیے سے گزرتے ہیں، یہ ایک علہدہ اور افسوسناک کہانی ہے۔ جب لیبر حکومت نے برطانوی امیگریشن کو بہت آسان کر دیا تو برطانیہ آنے کا سب سے آسان طریقہ سٹوڈنٹ ویزہ ہی تھا۔ اس دور میں برطانیہ کی گلی گلی میں کالج کھلے اور طلبا کا استحصال ہوا۔ میں کئی ایسے ٹیکسی ڈرائیوروں، ریسٹوران مالکوں اور دیگر لوگوں کو جانتا ہوں جو خود تو شاید سکول سے آگے نہ پڑھے، مگر سرمایہ کے زور پر کالج بنا لیا۔ انکے نزدیک یہ ایک بزنس تھا۔ “ایک کمرے کے کالج” نے سینکڑوں طلبا رجسٹر کر کے “اعلی تعلیم” کا وہ حال کیا کہ آج اچھی خاصی ڈگری کاغذ کے ایک چیتھڑے سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔

تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ سودا وہی بکتا ہے جسکا خریدار ہو۔ طلبا کی اکثریت بھی وہی تھی جو سٹوڈنٹ بن کر دراصل کمائی کرنے یا خاندان کے حالات بدلنے برطانیہ آئی تھی۔ سو کالج کوئی نہیں جاتا تھا، بس سال بعد کچھ پیسے دے کر ایک جعلی ڈپلومہ لیتے تھے اور ویزہ ایکسٹنڈ کروا لیتے تھے۔ برطانوی قانون کے مطابق اگر آپ دس سال قانونی طور پر برطانیہ رہیں تو آپ شہریت کے حقدار بن جاتے ہیں۔ میں اپنی وکالت کے دوران بہت سے ایسے سٹوڈنٹس سے ملا جو دس سال سٹوڈنٹ رہ کر ہی نیشنل بن گئے اور ایک بھی ڈگری حاصل نہیں کی۔ لیبر گورنمنٹ نے اپنے آخری دور میں اس مسلئے سے نپٹنے کی کوشش کی تاکہ ووٹر کو مطمئن کیا جا سکے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ سسٹم اس قدر جھول رکھتا تھا کہ جس کو موقع ملا اس نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

موجودہ حکومت نے، جیسا کہ پہلے بیان کر چکا، امیگریشن کو ایک باقاعدہ ایشو بنا کر الیکشن لڑا۔ لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ انکو ملازمت نہ ملنے، سہولتوں کے فقدان اور دیگر پریشانیوں کی وجہ امیگرنٹس کا اتنی تعداد میں آ جانا ہے۔ سو جب کنزرویٹو حکومت میں آئے تو پہلا بڑا حملہ ہی امیگریشن سکیم پر کیا جو لوگوں کو آسانی سے برطانیہ لا سکتی تھی اور سٹوڈنٹ ویزہ اس میں سرفہرست تھا۔ فوری طور پر “ڈپلومہ فیکٹریز” کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور اب تک ہزار سے زیادہ کالج بند ہو چکے ہیں۔ انگریزی زبان کے مطلوبہ معیار کو بڑھایا گیا، مطلوبہ فنڈز اور سپانسر کالج کے نظام کے حوالہ سے تبدیلی کی گئی اور “کورس پروگریشن” کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ “کیپ” لگا کر سٹوڈنٹ رہتے ہوے دس سال پورا کرنے کا راستہ بند کیا گیا۔ ملازمتوں کے مواقع محدود کیے گئے اور کام کی جگہوں پر چھاپے مارے گئے تاکہ سٹوڈنٹ اجازت یافتہ دس یا بیس گھنٹوں سے زیادہ کام نہ کر سکیں۔ اس سلسلے کے شروع ہوتے ہی برطانیہ جو اب تک خوابوں کی جنت تھا، سٹوڈنٹس کیلئے جہنم میں بدل گیا۔ یقین کیجیے میں نے سٹوڈنٹس کو ان حالات میں دیکھا کہ پاکستان میں گھر والوں کو بھی خاطر میں نہ لانے والے، کھانا کھانے کیلئے بھی عزت نفس کو مجروح کرنے پر مجبور ہوے۔ افسوسناک حقیقت ہے کہ بہت سی پاکستانی اور انڈین لڑکیاں صرف مفت رہائش اور کھانے کی عیوض غیر مردوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوئیں اور بہت سے لوگوں نے احمدی، ہم جنس پرست ہونے یا تبدیلی مذہب کی بنیاد پر اسائلم اپلائی کیے۔ اس سب کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی قدم اٹھانے سے قبل بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ ایجنٹ جو سہانا سپنا دکھاتا ہے یا برطانیہ سے آنے والے رشتہ دار کو سال بھر کی بچت کے پیسے خرچتے دیکھ کر جو منظر بنتا ہے، وہ فقط تصویر کا ایک رخ ہے۔ فیصلہ ہمیشہ سکے کے دونوں رخ دیکھ کر ہی کرنا چاہئے۔

برطانیہ اب بھی اپنے بہترین تعلیمی اداروں کی وجہ سے طلبا کیلیے ایک منزل ہے۔ اب سٹوڈنٹ ویزہ کو Tier 4 ویزہ کہا جاتا ہے۔اس نظام میں آپکو مطلوبہ پوائنٹس حاصل کرنے ہیں، جسکو پوائنٹ بیسڈ سسٹم ( PBS)کہا جاتا ہے۔

کاس(CAS) لیٹر
ایک طالب علم کو سب سے پہلے برطانیہ کے تعلیمی ادارے سے CAS letter حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے نمبر تیس ہیں۔ آپکو یہ کاس لیٹر دینے والا ادارہ کم از کم “A” ریٹد ہونا چاہیے۔ ہمیشہ کوشش کریں کہ داخلہ کسی یونیورسٹی میں لیں۔ کیونکہ یہ کالج کسی بھی وقت بند ہو جاتے ہیں اور آپکی ادا شدہ فیس ڈوب جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے کی ریٹنگ آپ خود سپانسر رجسٹر پر دیکھ سکتے ہیں۔ آپکے کورس کو کم از کم لیول 7 کا کورس ہونا چاہیے تاکہ آپکو کچھ کام کی اجازت بھی مل سکے۔ کوشش کیجیے کہ آپکی سابقہ تعلیم اور موجودہ کورس میں زیادہ وقفہ نہ ہو یا پھر اس وقفے کے دوران آپ نے اسی سے متعلقہ کوئی ملازمت کی ہو۔ آپکا سپانسر ادارہ مختلف پہلو جانچ کر آپکو کاس لیٹر اشو کرتا ہے۔

انگریزی:
اب برطانیہ میں تعلیم کے لیے آپکو انگریزی زبان میں کم از کم تعلیمی استعداد دکھانی ہو گی۔ زیادہ تر کورسز کیلیے یہ کم از کم استعداد B1 یا B2 ہے۔

مطلوبہ فنڈز/مینٹیننس:

آپکو یہ دکھانا ہو گا کہ آپ کے پاس تعلیم کیلیے مطلوبہ رقم موجود ہے۔ آپکا “کاس لیٹر” یہ بتائے گا کہ آپکے کورس کی فیس کیا ہے اور اس میں سے کتنی آپ ادا کر چکے۔ اب مطلوبہ فنڈز میں سب سے پہلے تو وہ بقایا رقم موجود ہو۔ اسکے بعد آپ کو نو ماہ کا خرچہ دکھانا ہو گا۔ یہ خرچہ لندن کیلیے زیادہ اور دوسرے شہروں کیلیے کم رکھا گیا ہے۔ یہ کیش رقم یا تو آپکے ذاتی بینک اکائونٹ میں ہونی چاہیے یا پھر آپکے والدین کے۔ والدین کے علاوہ کوئی اور رشتہ آپکو سپانسر نہیں کر سکتا۔ یہ رقم اٹھائیس دن تک آپکے اکاونٹ میں رہنی چاہیے۔

سو اگر آپکےلندن کے تعلیمی ادارے کے کورس کی فیس دس ہزار ہے اور آپ پانچ ہزار ادا کر چکے۔ تو اب بقیہ پانچ ہزار پاوئنڈ فیس اور قریب بارہ ہزار پاؤنڈ مینٹیننس اٹھایس دن تک آپکے اکاونٹ میں رہنی چاہیے۔

انٹرویو؛
اب سٹوڈنٹس کا انٹرویو کیا جاتا ہے جس میں ویزہ آفیسر یہ اطمینان کرتا ہے کہ آپ جینوئن طالب علم ہیں۔ سو آپکو اپنے کورس اور تعلیمی ادارہ کے حوالے سے تمام معلومات ہونی چاہیے۔ اگر ویزہ آفیسر مطمئن نہ ہو تو تمام پوائنٹس پورے ہونے کے باوجود آپکا ویزہ “balance of probability” کی وجہ سے ریفیوز کر سکتا ہے۔ ویزہ ریفیوز ہونے کی صورت میں آپ عدالتی اپیل نہیں کر سکتے، البتہ سینیر امیگریشن آفیسر/ مینیجر سے ایڈمن ریویو کی درخواست کر سکتے ہیں۔

کام کی اجازت؛
بہت سے کورسز میں اب کام کی اجازت نہیں۔ اگر آپ لیول سات کا کورس کر رہے ہیں تو آپکو دس گھنٹے کام کی اجازت ہے۔ البتہ اگر آپ یونیورسٹی سے ڈگری کر رہے ہیں تو بیس گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ فیملی لانے کی بھی اجازت ہے۔ اگرچہ سٹوڈنٹ اجازت شدہ گھنٹوں سے زیادہ کام کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر امیگریشن اہلکار روز چھاپے مار کر سٹوڈنٹ پکڑتے ہیں۔ اگر آپ زیادہ کام کرتے پکڑے جائیں تو ویزہ کینسل کر کے آپکو فوری ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔

ویزہ ایکسٹینشن:
نئے قوانین کے تحت اگر آپ یونیورسٹی سٹوڈنٹ نہیں ہیں تو آپ برطانیہ میں رہ کر اگلا ویزہ نہیں لے سکتے۔ آپ کو کورس ختم کر کے وطن لوٹنا ہو گا اور دوبارہ ویزہ اپلائی کرنا ہو گا۔ البتہ اگر آپ یونیورسٹی سٹوڈنٹ ہیں تو برطانیہ میں رہتے ہوے ہی ویزہ ایکسٹنڈ کر سکتے ہیں۔ آپ کو دکھانا ہو گا کہ آپ نے پچھلا کورس مکمل کیا ہے اور باقی قوانین پر پورا اترتے ہیں۔ اسکے علاوہ اب کسی بھی صورت کوئی طالب علم آٹھ سال سے زیادہ سٹوڈنٹ نہیں رہ سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے امید ہے کہ وہ طلبا جو قائد کے نقش قدم پر اعلی تعلیم حاصل کرنے آنا چاہتے ہیں، اس تحریر سے انھیں فائدہ ہو گا۔ اور انکو بھی جنکو خواب بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ سراب خریدتے ہیں۔ برطانیہ اب بھی اعلی تعلیم کیلیے ایک اچھا ملک ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ آپ مطلوبہ سرمایہ، اور تعلیم ہی کی نیت رکھتے ہوں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply