اخلاقیات ، ادب اور منافقت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

  اخلاقیات ، ادب اور منافقت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید/اِس قلم کار کے اکثر کالم اپنے قارئین کی کسی فکری اُلجھن کو سلجھانے کی غرض سے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے سوالات سے بھی واسطہ پڑتا ہے ٗجن کا تعلق ہمارے معاشرتی روابط کے ساتھ ہوتا ہے،لامحالہ اِن سوالات کے جوابات بھی اس فقیر پر واجب ٹھہرتے ہیں۔ خیال وارد ہوا کہ گزشتہ دنوں پوچھے گئے چند سوالات اور ان کے مختصر جوابات سے اپنے قارئین کو شامل ِ خیال کیا جائے۔

امریکہ سے ڈاکٹر جمشید ہاشمی پوچھتے ہیں:
سوال : حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک بیان ہے کہ اس دنیا میں آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں  ہونی چاہیے ٗ چاہے آپ ڈسپلن ہی قائم کر رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو سزا نہ دی جائے تو پھر ڈسپلن کیسے قائم ہو گا، مثلاً آپ کسی ادارے کی ایڈمنسٹڑیشن میں ہیں،اب اس کی پالیسی کے مطابق چلنا آپ کی ڈیوٹی میں شامل ہے ، اگر معافی دیتے گئے تو گویا آپ اس ادارے کی پالیسی کے خلاف چل رہے ہیں۔ کیا یہ معافی پھر پرسنل کپیسٹی میں ہوگی؟

جواب: دراصل ایڈمنسٹڑییشن میں یہ کام مشکل ہو جاتا ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اگر نیت معاف کرنے کی ہوٗ کسی کو نقصان سے بچانے کا ارادہ ہوٗ تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی راستہ نکل آتا ہے۔ ہم کسی کو فایدہ پہنچانا چاہتے ہوںٗ یا کسی کو نقصان سے بچانا چاہتے ہوںٗ تو یقین مانیے کہ قانون کو ا ِس کے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر سزا دینا چاہیں تو دنیا کے ہر قانون اور کمپنی مینوئل میں سزا پہلے سے درج ہے۔ ملازمت کے دوران میں ہم اپنے ادارے کے بہت سے کام اپنی ذاتی کیسپیٹی اور صلاحیت ہی میں کر رہے ہوتے ہیں، یہ معافی والا کام بھی ہم ذاتی سطح پر کر سکتے ہیں۔ ایک دانا شخص وہی ہے ٗ جو نظام میں بگاڑ پیدا کیے بغیرٗ لوگوں کے حالات درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر بھی ایک دوسرے کے حق میں ظالم ہو سکتے اور قانون کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا کام ایک عاجز اور فقیر منش انسان کے لیے آسان ہےٗ لیکن ایک مغرور اور اَنا پرست کیے لیے مشکل بلکہ ناممکن!! ہر معاملے میں قانون کی شق دیکھنے والا شقاوت کا شکار ہو جاتا ہے۔ قانون سے پہلے انسان کو دیکھیں، اُس کی مجبوری دیکھیں، اُس کا عذر دیکھیں اور اپنے اندر اُس عذر کو قبول کرنے والا ظرف پیدا کریں، پھر یہی قانون معافی تلافی والا کلیہ بھی آپ کے سامنے کھول کر رکھ دے گا، بصورتِ دیگر قانون محض تعزیرات کا تازیانہ دکھائی دے گا۔قران میں عدل اور انصاف کے ساتھ ساتھ احسان کرنے کا حکم بھی وارد ہے۔

سوال: بظاہر لگتا ہے کہ اخلاق ایک قسم کی منافقت ہی ہے،مثال کے طور پر کوئی شخص ہمیں بُرا لگ رہا ہےٗ لیکن ہم اسے بُرا نہیں کہہ رہے۔ کیا یہ منافقت نہیں ؟ یہی حال ادب کا ہے ، ہم اپنے بڑوں کے ادب کے نام پر اُن سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔یہ منافقت، اخلاق اور ادب ایک دوسرے سے کہاں پر مختلف ہوتے ہیں؟؟

جواب: منافقت اور اخلاق کے درمیان حدِ فاصل اخلاص ہے۔ فرض کریں آپ کے ایک دوست رات گئے آپ سے ملنے آ گئے ، آپ اپنے دل پر جبر کرتے ہوئے اُس کی میزبانی کرتے ہیں، اور ظاہر کرتے ہیں کہ اُس کی آمد پر آپ کو بہت خوشی ہوئی ہے ، دراں حالیکہ وہ آپ کے آرام میں مخل ہوا ہے۔ اب یہ اخلاق ہے یا منافقت؟ اگر آپ یہ کام فی سبیل اللہ کر رہے ہیں اور اُس میں آپ کی کوئی غرض شامل نہیں ٗتو یہ سو فیصد اخلاق ہے ، لیکن اگر اِس وضعداری کے پیچھے غرض یہ ہے کہ کل مجھے اس سے کوئی کام بھی لینا ہے ٗتو یہ منافقت کی ذیل میں آئے گا۔

سچ تو یہ ہے کہ اَدب سب سچائیوں کا سرچشمہ ہے۔ ایک سچا انسان ہی کسی بے ادبی اور بدتہذیبی سے بچنے کیلئے “جھوٹ” بولے گا۔ اس کے برعکس ایک جھوٹا آدمی اپنے سچ کے بے ہنگم اظہار کو ترجیح دے گا خواہ اِس سے کتنے ہی انسانوں کی کردار کشی ہو جائے ٗ خواہ کتنی ہی عزتیں پامال ہو جائے۔ عیب پوشی بھی تکنیکی اعتبار سے ایک “جھوٹ” ہے ٗ یعنی اس میں ایک “سچ” کو چھپا یا جاتا ہے ، یعنی یہ وہ “جھوٹ” ہے ٗجو اَدب کی خاطر بولا جاتا ہے ٗ لیکن اِس کا مدعا تکریم ِ انسانیت ہے۔ اس کے برعکس نکتہ چینی ، شکایت ، شکوہ ، رنجش کا اظہار سب ایسے “سچ” ہیں جو انسان کو اخلاق اور معاشرتی آداب سے دُور لے جاتے ہیں ۔ مدعا یہ کہ ایک مخلص انسان ادب کی خاطر جھوٹ بولنے کو رَوا سمجھے گا ، اِس کے برعکس ایک منافق شخص بظاہر سچ بولتا ہوا بنیادی اخلاقیات اور ادب کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے، اس لئے وہ سچائی کی دنیا میں جھوٹا قرار پاتا ہے۔

سچ اور جھوٹ سائینس اور ریاضی کے کلیات کی طرح کوئی سادہ” دو جمع دو چار” کا فارمولہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کائنات کا سب سے بڑا سچ انسان ہے، حق تعالیٰ نے تکریم ِ آدم بتلانے اور سکھلانے کے لیے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا۔ اب جس نے احترامِ بنی آدم کی خاطر سائینس کی طرح نظر آنے والا سچ نظر انداز کر دیا ٗ اُس نے حقیقت کی دنیا میں اپنی سچائی ثابت کر دی۔ جس نے اپنی سمجھ میں آنے والے” سچ” کو حتمی جانا اور اپنے سے بڑے مرتبے والے انسان کے منہ پر اپنا “سچ” دے مارا ،وہ سچائی کے دائرے سے باہر ہو گیا۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے ” سچ وہ ہےٗ جو سچے کی زبان سے نکلے”

ہر انسان کا ایک اپنا سچ ہوتا ہے، اور دوسرے کے سچ کے احترام میں “جھوٹ” بول دینا ادب ہے۔ اپنا سچ ثابت کرنے کیلئے دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنا ایک صریح معاشرتی بے ادبی ہے۔ سچا انسان ادب کی خاطر جو بھی رویہ اختیار کرے گا اسے سچ ہی کہا جائے گا۔

سوال : واصف علی واصفؒ کا ایک فقرہ اس مفہوم کا پڑھا کہ اپنی مشکلات کا ذکر لوگوں سے نہ کرو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم اپنی مشکلات لوگوں سے بیان کرتے ہیں تو ہمارا کتھارسس ہو جاتا ہے۔

جواب: سائیکولوجیکل کتھارسس تو اور بھی بہت سی باتوں سے ہو جاتا ہے، آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ لوگ دوسروں کی غیبت کرنے سے ، شکوہ شکایت کر نے سے بھی اپنا کتھارسس کر لیتے ہیں۔۔۔ لوگ اپنا کتھارسس کرنے کے لیے غصہ کرتے ہیں ، شاؤٹ کرتے ہیں، دوسروں کو کھری کھری سنا تے ہیں ،سائیکولوجسٹ کے کہنے پر بے جان پتلوں پر ڈنڈے برساتے ہیں، اور یوں اپنے دل کی بھڑاس نکال کر خود کو “ہلکا پھلکا” محسوس کرتے ہیں ، لیکن شخصیت کی تعمیر اور عظمتِ کردار کے حوالے سے یہ کتھارسس وغیرہ ایک نہایت ہلکا کام ہے، یہ کردار کے ہلکا ہونے کی نشانی ہے۔ یوں کتھارسس کرنے والا عام طور پر خیر اور شر کی تمیز سے محروم ہوتا ہے۔

یاد رکھیں کہ یہ کسی سائیکالوجسٹ کا جملہ نہیں ہےٗ جس کا مدعا محض کتھارسس ہو، بلکہ یہ ایک ولی اللہ، درویش اور عارف بااللہ کا فقرہ ہے ٗ جو کسی کو فقیر بنا سکتا ہے۔ یہاں جو لوگ مخاطب ہیں ٗوہ سالکینِ طریقت ہیں، اُن کا مدعا تعلق بااللہ کی حفاظت ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ “مخلوق کا گلہ خالق سے نہ کرو اور خالق کا گلہ مخلوق سے نہ کرو” مخلوق کا گلہ خالق سے نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق سے ملنے والی تکلیف کی شکایت بدعا کی شکل میں رب سے نہ کی جائے ۔ خالق کا گلہ مخلوق سے نہ کرنے مراد یہ ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والی مشکلات جو درحقیقت اُس کے رب کی مرضی اور اِذن سے آئی ہیںٗ وہ اُن مشکلات کی شکایت لوگوں سے نہ کرتا پھرے ۔ غم کس نے دیا؟ غم کس کی طرف سے آیا؟ آپ کہیں گے ٗ اللہ کی طرف سے۔ پھر اِس کی شکایت مخلوق کے سامنے آخر کیوں کی جائے؟؟ زندگی میں آنے والی مشکلات پر صبر کرنے سے جو ممکنہ اجرو ثواب ہمیں ملنا ہے اور امکانی طور پر جو بھی روحانی ترقی و ترفیع ہمیں میسر آنی ہے ٗ آخر مخلوق کے سامنے بیان بازی سے ہم اس اَجر اور منزل کو ضائع کیوں کریں!!

Advertisements
julia rana solicitors

اخلاقیات کی بنیاد برداشت ہے، جب ہم برداشت نہیں کرتے تو گویا اخلاق کے پیڈسٹل سے نیچے اتر جاتے ہیں۔ اپنی مشکلات کا ذکر اگر لوگوں سے کیا جائے تو یاد رکھیں لوگ عام طور پر تماش بین کا کردار اَدا کرتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے جس طرح ہم اپنی کمزوریاں بیان نہیں کرتے ٗ اِس طرح ہمیں ان کے سامنے اپنی مشکلات بھی بیان نہ کرنی چاہییں۔ ہمیں اپنے مخلص دوستوں کے سامنے مشکلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ ہمارے مسائل و مشکلات ہم سے بھی بہتر جانتے ہیں اور اِن کا حل ہماری توقع اور استعداد سے زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ لوگ تماشائی ہوتے ہیں، وہ آپ کی مشکل کا فائدہ اُٹھائیں گے ، اور آپ کو مزید مشکل میں مبتلا کر دیں گے۔ یہ قول درحقیقت باب العلم ؑ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اِس قول کی وضاحت میں ہے کہ مشکلات کا بیان ٗ مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔اس قول کی وضاحت مزید درکار ہو تو حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ بیان دیکھ لیں”اگر آپ تکلیف میں ہیں تو لوگوں سے اپنے حالات پوشیدہ رکھیں۔ اگر آپ آسانی میں سے گزر رہے ہیں تو لوگوں کو اس میں شریک کریں۔ آپ اپنے غم میں لوگوں کو involve نہ کرنا، شریک نہ کرنا کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی غم بڑے ہیں۔ یہ شکر کی تعریف ہے۔آپ دوسرے لوگوں کو اپنے اعمال سے ، اپنے مال سے اور اپنے خیال سے آسانی عطا کریں، لوگوں کو آسانیاں دیں، یہ زندگی کا شکر ہے کہ زندگی کسی اور زندگی کے کام آئے”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply