کشمیر کا مستقبل ۔۔۔ مہر ساجد شاد

ستر سال سے متنازعہ خطہ کشمیر برصغیر کے امن اور معیشت پر اثر انداز رہا ہے۔ دنیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں اور مسلسل کشیدہ حالات نے پورے خطے کے امن کو مشکل بنائے رکھا۔ بھارت میں حالیہ انتخابات کے بعد ہندو شدت پسند سوچ والے گروہ کی حکومت بھاری اکثریت حاصل کر کے دوبارہ آئی ہے، اب یہ متشدد گروہ پہلے سے زیادہ اعتماد اور عزم کیساتھ موجود ہے۔
گذشتہ چند سال میں پاکستان نے اپنے ہمسایہ چین کیساتھ غیر معمولی تعلقات استوار کئے اور کثیر جہتی اقتصادی راہداری منصوبے پر تیزی سے عملدرامد شروع کیا، ساتھ ہی اپنے قریب ترین واقع عالمی طاقت روس سے سرد مُہری ختم کر کے تعلقات میں بہتری لائی۔ ان اقدامات سے امریکہ پر پاکستان کا انحصار کم ہوا اور ہمارے اندرونی معاملات میں امریکہ کےاثر و رسوخ میں کمی آئی، لیکن امریکہ کو چین کا اقتصادی ترقی کا سفر منظور نہیں اسے چین کا گوادر پورٹ کے زریعے دنیا سے تیز ترین رابطہ کسی صورت قبول نہیں۔
امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں تو نکالنا چاہتا ہے لیکن اس خطے میں امن اس کے مفادات کے خلاف ہے اس مقصد کیلئے وہ پاکستان کو اب افغانستان میں امن مشن کے نام پر پھنسائے گا، تو دوسری طرف بھارت نے کشمیر کو اپنا آئینی حصہ بنانے کے اپنے دیرینہ منصوبے پر امریکہ کی آشیرباد سے کام شروع کر دیا ہے، جموں اور لداخ کو الگ کر کے وادی میں مسلمان آبادی پر بدترین قتل عام کا آغاز کردیا گیا ہے اس کے لازم نتیجے میں یہ مسلمان کشمیری آزاد کشمیر میں دھکیل دیئے جائیں گے اور ان کی دیکھ بھال اور امن کے قیام کیلئے اقوام متحدہ آزاد کشمیر میں ڈیرے لگائے گا جسے مدد مہیا کرنے کیلئے امریکہ یہاں اپنے اڈے قائم کر لے گا۔ یہاں آزاد کشمیر سے ایک طرف چین کو قابو رکھا جاسکے گا تو دوسری طرف پاکستان مکمل طور پر انکی گرفت میں ہوگا۔ یہ بظاہر ایک مفروضہ لگتا ہے اور ہر پاکستانی کی طرح میری بھی خواہش اور دعا ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن خواہش اور دعا ہمیشہ پوری ہو ضروری نہیں، شائد اب بہت دیر ہو چکی ہے شائد اب اس منصوبے کو روکنا ممکن نہیں۔
پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے ؟
پاکستان اقتصادی بحرانی کیفیت میں عملی طور پر بہت کچھ نہیں کرسکتا، کوشش یہ ہونا چاہیئے کہ افغانستان میں کسی سرگرمی کا حصہ نہ بنا جائے۔ اپنے ملک کے اندر امن کو قائم رکھنے کیلئے توجہ مرکوز کی جائے۔ عالمی سطح پر سفارتی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور دنیا بھر میں مسلۂ کشمیر اور اسکی موجودہ صورتحال کو اجاگر کرنے کیلئے پارلیمانی، سفارتی، ادبی شخصیات پر مشتمل وفود بھیجے جائیں، وہاں سیمینار اور تقریبات منعقد کی جائیں جہاں بھارتی اقدامات اور ظلم کے دستاویزی ثبوت دیکھائے جائیں۔ آزاد کشمیر میں کسی بھی بیرونی طاقت کے اثر رسوخ کو روکا جائے۔ اپنے اصولی موقف کو اجاگر کیا جائے کہ ستر سال سے کشمیری اپنے حق خود ارادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے۔
سب سے آخر میں اپنے اسکورٹی اداروں سے صرف ایک گذارش ہے کہ خدارا پاکستان کو جیسے چاہیں چلائیں لیکن خود چلائیں کسی بیرونی طاقت کے رحم و کرم پر نہ ڈالیں ارد گرد کوئی علاقہ بھلے فتح نہ کریں صرف پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کیجئے،
پاکستان زندہ باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply