سبین علی کی تانیثی فکر۔۔۔ارشد علی

بیسویں صدی کے اوائل میں عالمی منظر نامے پر مزدور اور پسماندہ طبقات جہاں اپنے حقوق کے حصول  کی خاطر نبرد آزما نظر آتے ہیں تووہیں خواتین بھی اپنے حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب تانیثیت کے اس نئے فکری رجحان نے ادب میں بھی جگہ بنائی۔ تانیثیت عورتوں کو مردوں کے برابر سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق دلوانا ہے یا یہ سماج میں woman domination کو جگہ دینے کی کوشش ہے یہ وہ سوال ہے جس پر رائے عامہ منقسم دکھائی دیتی ہے۔ اوریوں اکثریت تانیثیت کے الٹ معنی یعنی woman domination کو درست قیاس کرتے ہوئے اس تحریک کی نفی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس تحریک کے ساتھ شاید یہ معاملہ بھی رہا   کہ تانیثیت کے نام پر اٹھنے والی آوازیں ضابطہ اخلاق اور سماجی آداب و اقدار سے بغاوت کی آواز میں ڈھلنے کے باعث عورتوں کے حقیقی مسائل جن میں معاشی، مذہبی و جنسی استحصال، تعلیم اور روزگار کے غیر مساوی مواقع سے صرفِ نظر کرتی دکھائی دیں۔

ہمارے سماج میں جہاں عورت کو مرد کے مقابلے میں نصف اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تعلیم گاہوں سے لیکر کھیتوں، بھٹوں، انڈسٹری اور حتی کہ  ہسپتالوں تک میں جنسی استحصال کی اَن گِنت داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جہاں عورت گھریلو سطح پر بھی بدترین جبر کا شکار ہے اور کہیں اسے وراثت سے محرومی کا سامنا ہے تو کہیں جہیز کی صورت میں اس کی مکروہ خرید و فروخت کا عمل بھی جاری ہے۔ جہاں اسے شادی جیسے بنیادی معاملے میں حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا ہے وہیں غیرت کے نام پر قتل و غارت گری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اب ایسے میں نسائیت کے مارکسی نقطہ نظر جس کے تحت عورت کی محکومی کی تمام تر وجوہات اقتصادی نوعیت کی ہیں اور غیر طبقاتی نظام میں ہی ان امتیازات کے دم توڑنے کی امید ہے کو بیانیہ کا حصہ بنانے کی بجائے انارکسٹ ایلمنٹس کو پروموٹ کیا گیا۔ جس نے نسائیت کی تحریک کو ہی شکوک کا نشانہ بنا دیا۔ اور عورت کا استحصال اور اس کے مساوی سیاسی و سماجی حقوق کی جدوجہد کہیں پس منظر میں کھو گئی۔

سبین علی کے افسانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کے موضوعات میں روایت اور جدت یا صارفی کلچر کی باہمی چپقلش، سمندر پار پاکستانیوں کو درپیش مسائل اور اپنی جڑ سے کٹ کر بے شناخت اور تنہا زندگی کا المیہ، اور سماج میں عورت کے ساتھ روا رکھا جانے والے غیر انسانی سلوک کی فراوانی ہے۔ اول الذکر دونوں موضوعات کو بھی وہ اکثر عورت کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہیں اور ان سے جنم لینے والے ان المیوں کو اظہار میں لاتی ہیں جس کا سامنا خصوصیت کے ساتھ عورت کو کرنا پڑ رہا ہے۔

سبین علی کے افسانوں کی عورت اپنی نسائیت کو کوئی عیب نہیں گردانتی بلکہ وہ نسائیت کے مروجہ تصورات کو توڑتی ہوئی بھی دکھائی نہیں دیتی وہ ان تصورات کے عین مطابق زندگی سے نبرد آزما اور اپنی ڈگر متعین کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ نزاکت اور نفاست کے ساتھ ساتھ مہر و وفا کانمونہ اور مثالی صبر کی پیکر بھی ہے۔
”دور دیس سے ہوا کے رتھ پر ایک سوار آیا تھا جس کا لباس سفید اور بے شکن تھا۔ اس کی قوم نے ہماری بستیاں تاراج کیں اور محلوں پر قبضے جمالیے۔ راجاؤں کے بنائے زندان کھولے گئے، قیدی آزاد ہوئے، کئی امراء پابند سلاسل کیے گئے اور کچھ مارے گئے۔ داسیوں کی کیا زندگی ہوتی ہے اور ہماری بستی میں عورت داسی ہی رہتی ہے۔ خواہ راج محل کی ہو یا کھیت کھلیان میں کام کرنے والی، لیکن اس اجنبی نے مجھے من کے سنگھاسن پر بٹھایا تھا۔ محبت کی ریشمی ڈور ایسی بندھی کہ سانسوں کا بندھن تو ٹوٹے مگر ڈور نہ ٹوٹ پائے۔ اس کا دیس، قبیلہ، زبان اور دھرم سب اجنبی تھے۔ اور میں سفید کپاس کا پھول تھی جس کے ریشوں پر کوئی بھی رنگ ہو چوکھا چڑھ جاتا ہے۔ اس دور دیس سے آئے اجنبی نے اپنی ذات کو پریم کا ایسا رنگ چڑھا دیا کہ چاہ کر بھی کورا رنگ واپس نہ لا سکی۔ وہ واپس جانے لگا تو سمجھ نہ آئی کہ یہاں اس کے رنگ میں رنگی جوگ لوں یا اس کے ساتھ ہو لوں۔ ساتھ ہو لوں تو اپنی مٹی سے کیسے کٹوں۔ کیا پودا زمین سے جدا ہو کر جی سکتا ہے؟۔۔۔ (افسانہ:سرنگ کے راستے)

مذکورہ افسانہ میں بھی مصنفہ اپنی مخصوص فکر کے تحت کسی کیمرے کی مانند چاروں جانب نظر ضرور دوڑاتی ہیں لیکن اس کیمرے کو زوم اِن کر کے فوکس عورت پر ہی کرتی ہیں۔ یہ عورت انجینئر فریال بھی ہو سکتی ہے یا کسی ہوٹل کی ویٹرس یا اوپر ذکر کیے گئے اقتباس میں عشق کا جوگ لینے والی بے نامی کردار بھی۔ اسی دوران مصنفہ صارفیت کے جس کلچر نے عورت کو بھی ایک جنس کی شکل میں ڈھال دیا ہے اور آج ہم شیونگ کریم اور ریزر کے اشتہار میں عورت کو ہی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں پر بھی سوال اٹھاتی ہیں۔

”ایک طویل قامت اور سبک رفتار لڑکی میرے قریب پہنچ چکی تھی اس نے چست مغربی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ مومی مشعلوں میں اس کا حسن دہک رہا تھا لیکن وجود پر سخت محنت اور مسکان تلے تھکان واضح تھی۔
روپ رون تے کرم کھان۔ میں نے بڑی حسین لڑکیوں کو شاپنگ مالز میں صابن، شیمپو، نوڈلز اور واش روم کلینرز کی پروموشن کرتے دیکھا ہے۔ پارکنگ کے ٹکٹ کاٹتے، بسوں میں دھکے کھاتے۔ ریسپشنسٹ کے کاؤنٹر پر گھنٹوں کھڑی لڑکیاں۔ کیا حسن اتنا ارزاں ہوتا ہے یا چند سکے اتنے گراں مایہ؟“ (افسانہ: سرنگ کے راستے)

افسانہ ایتھنے اور سموں بھی اسی صارفی  کلچر  پر تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے جس میں سموں روایت کا استعارہ اور اپنی صدیوں پرانی ہنر مندی پر بجا طور نازاں ہیں۔ لیکن ایتھنے جدیدیت کی نمائندہ اس صدیوں پرانی روایت کا سرمائے کے  بَل پر دم گھوٹ دیتی ہے۔
”ایتھنے نے ان کی سب پرانی کھڈیاں خرید کر انھیں اپنی مل میں کام دلا دیا تھاجہاں ان کو بہتر معاوضے کا لالچ دیا گیا تھا۔ اور مزید یہ کہ وہ کاروبار اور تجارت کے داؤ پیچ اور نفع نقصان کی فکر سے آزاد رہیں گے۔ بستی والوں کو کہا گیا تھا کہ اب ان کے مالی حالات سدھر جائیں گے، قرض اتریں گے اور خوش حالی کا دور دورہ ہو گا۔“ (افسانہ: ایتھنے اور سموں)

لیکن یہاں افسانہ یہ سچ بھی ہم پر آشکار کرتا ہے کہ بھلے اس لڑائی میں وقتی طور پر جدید معاشرتی نظام نے روایت کو پچھاڑ ڈالا ہے لیکن جدیدیت بھی اس لڑائی میں فتح یاب نہیں ہوئی بلکہ اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں بھسم ہونا اس کا طے شدہ مقدر ہے۔

”بستی سے دور پرے دریا کنارے اپنی بستی کے سب چرخے جلتے دیکھ کر سموں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دھوئیں کے مرغولوں کے ساتھ پرانے وقتوں کی سوت کاتنے والی بڑھیا کے ماہیے نوحوں کی مانند فضا کو مغموم کیے ہوئے تھے۔ کتنی دیر تک وہ فضا میں بلند ہوتے شعلوں کو دیکھتی رہی پھر اچانک وہ تلخ مسکراہٹ سے ایتھنے کو دیکھنے لگی۔ چرخوں کی آگ بجھ نہیں رہی تھی اور ان سے بلند ہوتے شعلوں نے ایتھنے کے ریشمی لباس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا“ (افسانہ: ایتھنے اور سموں)

سبین علی اپنے  افسانوں میں کئی نفسیاتی گھتیاں بھی سلجھانے  کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔  افسانہ لالہ اور آنکھوں کے راز اور خول کی صورت گورے اورکالے رنگ کی تفریق اور رنگت کے باعث پیدا ہونے والا احساس کمتری اور اس کے نتیجے میں جنم لینی والی بے بسی اور بے حسی کا نوحہ ہیں۔یا گل مصلوب کی صورت نیلی کی شکست و ریخت اور اس کی ماں کے پاگل پن تک کے سفر کا بیانیہ ہو۔”گل مصلوب“ میں نیلی کا باپ گھر والوں کی حالت سدھارنے کو پردیس تو سدھار جاتا ہے لیکن اس کی بیوی اور اکلوتی بیٹی بھی دیس میں اسی اکلاپے سے گزرتی ہیں جس اکلاپے کا نیلی کے باپ کو پردیس میں سامناہے اور اس مسلط کردہ جبر کا اور صبر کی اس چکی میں پسنے کا نتیجہ بھی بچی کی شخصیت میں رہ جانے والی کمی اور اس کی ماں کے پاگل پن کی صورت میں نکلتا ہے۔ ”ان ٹیوشن“ افسانہ بھی ایسی ہی نفسیاتی گرہوں کو کھولنے کی سعی ہے۔

گگڑی اور کتن والی بلاشبہ عورت کے بلند حوصلے کا بیان ہیں کہ کیسے عورت جب ماں کا روپ دھارتی ہے تو سر تا پا شفقت اور ہمت کی لازوال داستان میں ڈھل جاتی ہے۔ وہیں یہ افسانے ہمارے دوغلے رویوں کو بھی پوری طرح عیاں کرتے ہیں کہ اس معاشرے میں اپنی عزت و عافیت بچانے کے لیے فہمیدہ کو اپنی شناخت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اور بچوں کو چند نوالوں کی فراہمی کے لیے خود کو حقارت کی مثال میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ وہیں کتن والی افسانے کی صغریٰ جولاہی جو اپنی ساری زندگی کھیس بنتے ہوئے کسی انہونی کے انتظار میں اپنی کل متاع اور اکلوتی اولاد سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ اپنے بیٹے کہیں نام نہاد جہاد کے نام پر اور کہیں منشیات اور ایسی دیگر کئی لعنتوں کے باعث کھونے والی مائی جولائی اور دیگر ہزاروں مائیں یہ لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں۔ یہ جواں سال بیٹے جنھیں اپنی ماؤں کے دکھوں کا مداوا کرنا تھا۔ زمین اوڑھ کر سو رہے اور اپنی ماؤں کی پوری حیاتی کو ہی روگ میں تبدیل کرنے کا باعث بنے۔ ان ماؤں کا مجرم کون ہے، سماج، سیاست، حکمران، ریاست یہ سوال تشنہ ہے اور اس سوال کے جواب میں ہی تعمیر کا راز پنہاں ہے۔

جبر اور دہشت کی جس سیاہ چادر نے ہمیں چار دہائیوں سے گھیر رکھا ہے بطور ایک حساس قلم کار سبین علی اس سے بھی لا تعلق نہیں اور افسانہ طلوع مہتاب کی زرغو  اپنے بچوں کے باپ کے سامنے سینہ تان کر دوسروں کی اولاد کو یتیم ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اگر اس افسانے کو میں گزشتہ ماہ کے سانحہ نیوزی لینڈ کے بعد خاتون قائد جسینڈرا کے طرز عمل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کروں تو بجا طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو تاریکی اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس سے نکالنے کی صلاحیت فقط عورت میں ہی ہے۔ ورنہ تباہی کے جس دہانے پر اس وقت دنیا پہنچ چکی ہے یہاں سے واپسی کی کوئی صورت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجموعہ ”گل مصلوب“ ہمیں اس بات کا واضح اشارہ فراہم کرتا ہے کہ اگر سبین علی اسی طور اپنے فنی سفر میں آگے بڑھتی رہیں تو نسائی ادب کے معتبر حوالے کی صورت میں اپنی پہچان قائم کرنے میں کامیاب ٹھہریں گی۔ آخر میں ایک قدرے کڑوی گولی کا اہتمام بھی میں نے اس مضمون میں کیا ہے تو وہ بھی بیان کرتا جاؤں۔ اکثر مصنفین اپنی اولین کتاب میں جو غلطی دہراتے ہیں وہ ہمیں سبین علی کی کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے اور وہ ہے کتاب کو مرتب کرتے ہوئے خود کو رعایتی نمبر دینے کا عمل۔ جس کے نتیجے میں کچھ نا پختہ تحریریں بھی اپنی جگہ بنا تے ہوئے معیار میں کسی حد تک کمی کا باعث بنتی ہیں۔ سبین علی کتاب کے لیے بائیس کی بجائے اٹھارہ یا انیس افسانوں پر اکتفا کرتی تو چھانٹی کا یہ عمل اس مجموعے کی وقعت میں مزید اضافے کا باعت ہوتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply