دشمن مرے تے خوشی نہ کریے۔۔۔علی اختر

ہاں وہ سپاہی تھے۔ اپنے ملک کے محافظ۔ ۔ اپنے ملک کے محافظ اور میرے ملک کے دشمن ۔ اس میں کوئی  شک نہیں ۔

لیکن یہ ملک ہے کیا۔ ایک چار دیواری ۔ کچھ لوگوں کا ہجوم ۔ چلیں دیواریں کھینچ دیں آ پکی مرضی ۔ مفادات، مذہب ، قومیت کے نام پر الگ الگ رہیں ۔ کوئی مسئلہ نہیں ۔

لیکن کیا یہ۔۔چار دیواری ، یہ سرحد ہمیں اس قدر سفاک بنا دیتی ہیں  کہ  ایک انسان کے مرنے پر دل اداس ہونے کے بجائے خوش ہو۔ مذاق اور ٹھٹھہ اڑایا جائے ۔ مزاح کا ایک ذریعہ ہو ۔

یہ پچاس افراد بھی تو پچاس خاندان تھے۔ بچے تو انکے بھی اپنے باپوں کا انتظار کرتے ہونگے ۔ مائیں تو انکی بھی اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتی ہونگی۔ بوڑھے کندھوں پر انکے جنازے بھی تو بھاری ہوتے ہونگے ۔ مختصر یہ کہ  انسان تو یہ بھی تھے چاہے دشمن ہی سہی ۔

بات یہ بھی سچ ہے دونوں ممالک میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جن کی روزی روٹی ہی نفرت اور جنگی جنون پر چل رہی ہے۔ کھانے کو روٹی نہیں ۔ پینے کو صاف پانی نہیں ۔ دوائیں، اسکول، پارک کچھ موجود نہیں لیکن گودام نوکیلے میزائلوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ٹوٹے روڈ پر گرد اڑاتی کھٹارا بس کی چھت پر سفر کرنے والے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ایئر بیسز پر سینکڑوں جنگی جہاز کھڑے ہیں ۔

ٹوٹا روڈ بھی وہی اور کھٹارا بس بھی وہی ۔ ایک نسل اترتی ہے ۔ دوسری اسکی جگہ لے لیتی ہے۔ رفع حاجت گلیوں میں بیٹھ کر ہوتی ہے ۔ گٹر کے پانی سے دامن بچا کر سڑکوں سے گزرا جاتا ہے۔ کورٹ ، کچہری تھانہ سب جگہ گدھ بیٹھے بوٹیاں نوچتے ہیں   لیکن جنگی جنون اپنی جگہ قائم ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتنے آرام سے دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں ۔ جنگ بھی ایٹمی ۔ کیا اس جنگ میں انسان نہیں مریں گے ۔ بمباری سے معصوم بچوں کے چیتھڑے نہیں اڑائے جائیں گے ۔ کیا یہ کوئی  فخر کی بات ہے ؟ تو مذاق مستی کیوں ؟ کیا ہم اتنے ظالم ہو چکے ہیں جو انسانوں کے مرنے کی بات پر غم منانے کے بجائے تفریح کریں گے ۔ پر یاد رہے “سجنا ” پر  بھی یہ وقت آ سکتا ہے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply