• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فنکشنز کرنے والے خواجہ سراؤں کو آرٹسٹ کا درجہ دیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

فنکشنز کرنے والے خواجہ سراؤں کو آرٹسٹ کا درجہ دیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

انگریزوں نے دنیا کے ایک بڑے حصّے پر لمبے عرصے تک حکومت کی۔ انگریزوں کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اسکے ایک حصّے میں سورج طلوع ہوتا تو دوسرے میں غروب ہو رہا ہوتا۔ انگریز دنیا کے جس خطے میں بھی رہا، وہاں غربت، مفلسی، علاقائیت اور مذہبی انتہا پسندی چھوڑ کر گیا۔ قومیں رنگ، مذہب اور فرقوں کی بنیاد پر آپس میں لڑتی رہیں اور انگریز حکومت کرتا رہا۔
انکی لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغلیہ دور حکومت میں برصغیر کا جی-ڈی-پی کبھی 30 سے کم نہیں ہوا کرتا تھا۔ برصغیر دنیا کا امیر ترین خطہ تھا۔ لیکن جب انگریز یہاں سے گیا تو اس وقت خطے کا جی-ڈی-پی 5 سے بھی کم تھا۔ انگریز دور میں جو تھوڑے بہت سکول کالج بنائے گئے انکا مقصد تعلیم نہ تھا۔ بلکہ نظام مملکت چلانے کیلئے کھیپ تیار کرنا تھی۔
انگریز کے مظالم اور لوٹ مار کی نظیر نہیں ملتی۔ انگریزوں نے خواجہ سراؤں کیلئے ایک ایسا ایکٹ پاس کیا۔جس نے خواجہ سراؤں کے حقوق پر ایسی ضرب لگائی جس کا خمیازہ خواجہ سراء کمیونٹی آج تک بھگت رہی ہے۔

خواجہ‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کی جمع ’خواجگان‘ ہے۔ خواجہ سردار یا آقا کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق توران میں سادات کا لقب جیسے خواجہ معین الدین چشتی۔ خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے خواجہ سراء کا لفظ مغلیہ دور میں استعمال کیا گیا۔ خواجہ سراؤں کو محلوں میں پیغام رسانی کیلئے رکھا جاتا تھا۔ مغلیہ دور میں بعض ایسے بھی خواجہ سراء گزرے ہیں۔ جو جنگی حکمت عملی تیار کیا کرتے تھے۔ جن کی مرضی کے بغیر بادشاہ کے قریب ترین ساتھیوں کو بھی محل میں داخلے کی اجازت نہ تھی۔

1870ء میں انگریزوں نے کریمنل ایکٹ پاس کیا جس کے تحت خواجہ سراؤں کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ خواجہ سراء خواتین والا لباس نہیں پہن سکتے تھے، بھیک اور ودہائیوں پر بھی پابندی تھی۔ خواجہ سراؤں کی اہمیت معاشرے سے ختم ہوگئی اور یہ چھپ چھپ کر سیکس ورک سے اپنا پیٹ بھرنے لگے۔ اس وقت سے سیکس ورک خواجہ سراؤں کے ساتھ ایسا جڑا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل پر سب سے زیادہ لکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خواجہ سراؤں کے مسائل کا بہترین حل یہ ہے کہ انکے والدین انھیں دل سے قبول کریں اور گھر چھوڑنے پر مجبور نہ کریں۔ گھر سے نکالے جانے کے بعد خواجہ سراء ایسا رلتا ہے کہ موت آنے تک دھکے ہی کھاتا رہتا ہے۔ گھر چھوڑنے کے بعد خواجہ سراء جب کسی گرو کے ڈیرے پر جاتا ہے تو اسکی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ یہ ڈانس سیکھے اور فنکشنز کر کے پیسہ کمائے۔ خواجہ سراؤں کے ساتھ جنسی ہراسانی اور قتل کے زیادہ تر واقعات ان فنکشنز میں ہی پیش آتے ہیں۔ یہ فنکشنز غیر قانونی ہوتے ہیں اس لیے انکا آدھا پیسہ  مبینہ طور پر پولیس کو دینا پڑتا ہے۔

مانسہرہ کی مشہور ایکٹویسٹ نادرہ خان نے ایک ماہ قبل ایک خبر ہم سے شیئر کی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ پشاور کی مشہور خواجہ سراء ڈولفن ایان کو ساتھیوں سمیت گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہیں۔ یہ واقعہ فنکشن کے دوران پیش آیا۔

نادرہ خان نے حال ہی میں ویڈیو شیئر کی جس میں وہ ایک زخمی خواجہ سراء کو ہسپتال لے کر جارہی ہیں۔ اس خواجہ سراء کا نام صدف ہے۔ فنکشن کے بعد اسکی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی۔ صدف کے والدین کراچی میں مقیم ہیں۔ صدف کی حالت تشویش ناک ہے اس لیے والدین کو ایبٹ آباد بلوا لیا گیا۔

فلم، ٹی-وی اور سٹیج پر پرفارم کرنے والے افراد لوگوں کو انٹرٹین کرتے ہیں۔ انھیں آرٹسٹ کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کو آرٹ اور آرٹسٹ پر حملہ قرار دیا جاتا ہے۔
فنکشنز میں ڈانس کرنے والے خواجہ سراء بھی عوام ہی کو انٹرٹین کرتے ہیں۔ انھیں آرٹسٹ کیوں نہیں کہا جاتا۔؟ انکی پرفار منس کو آرٹ کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا۔؟

میں خواجہ سراؤں سے ایک عرصے سے کہتا آرہا ہوں کہ اپنی ایک آرٹ کونسل بنائیں۔ وزرات اطلاعات سے بات کریں کہ آپ لوگوں کے کام کو آرٹ تسلیم کیا جائے۔ وزار تِ  اطلاعات آپ لوگوں کو فنڈز فراہم کرے جس سے خواجہ سراؤں کے باقاعدہ آرٹ سکول قائم کیے  جائیں۔ فنکشنز پر جانے والے خواجہ سراؤں کو باقاعدہ کارڈ فراہم کیے جائیں۔ خواجہ سراء فنکشن پر جانے سے پہلے متعلقہ باڈی کو آگاہ کریں۔ پولیس کو خواجہ سراء آرٹسٹ کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت دی جائیں۔ فنکشنز کرنے والے خواجہ سراء اپنی کمائی کا کچھ حصہ کونسل کو جمع کروائے۔ یہ پیسہ خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود، حادثات یا بیماری کی صورت میں انہی پر استعمال کیا جائے۔

آرٹ احساساس اور جذبات کی ادائیگی کا دوسرا نام ہے۔ بہترین آرٹسٹ وہی ہوتا ہے۔ جسے اپنے کام سے پیار ہو ،جو اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانے کیلئے دل کی گہرائیوں سے کوشش کرے۔ خواجہ سراء نہ مرد ہیں اور نہ عورت۔ یہ زندگی میں اتنی دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اب اگر ایسا کوئی شخص آرٹ سے وابستہ ہو جائے تو وہ آرٹ کی دنیا کو ہلا کر رکھ سکتا ہے۔

خواجہ سراء کمیونٹی کے کچھ مشہور اداکاروں کو میں جانتا ہوں۔ جو کہ خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے یہ ایسی کوئی تنظیم قائم نہیں کرسکتے۔ حکومت اگر ملک کے بڑے شہروں میں خواجہ سراء آرٹ سکول قائم کرے۔ جہاں میوزک، اداکاری، ڈانس اور آرٹ کے مختلف شعبوں کی تعلیم دی جاتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ چند ماہ میں اسکے حیران کُن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خواجہ سراء کمیونٹی ہمارے ملک کا ایسا ہیومن کیپٹل ہے جس پر ہم نے آج تک توجہ نہ دی۔ حکومت کی تھوڑی سی توجہ اور سپورٹ سے خواجہ سراء کمیونٹی کو عزت والا روزگار مل سکتا ہے اور آرٹ کی خدمت ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply