پریمن اور گلاب۔۔۔۔محمد اشفاق

پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب کی مٹی میں کچھ عجیب سی تاثیر ہے- یہاں کی نفرتیں اور دشمنیاں بھی کمال ہیں تو یہاں کی دوستیاں اور محبتیں بھی لازوال۔ پہاڑوں سے اترنے والے شوریدہ سر دریا بھی یہاں پہنچ کر اپنی سرکشی بھول جاتے ہیں اور پہاڑوں سے آنے والے خونخوار حملہ آور بھی۔ تاحد نگاہ پھیلے سرسبز میدانوں کی طرح پنجاب کے باسیوں کے دل بھی بہت کشادہ ہیں۔ دریاؤں کی گہرائی، میدانوں کی وسعت اور کھلیانوں کی ہریالی اور نرماہٹ جب ایک ہوتی ہیں تو پنجابی کا دل بنتا ہے- یہ دل بس عشق کرنا جانتا ہے، وہ خالق سے ہو یا مخلوق سے۔ پنجاب اسی لئے عاشقوں اور صوفیوں کی سرزمین ہے- آپ یہی دیکھ لیں کہ چالیس پچاس سالہ تبلیغ اور سرمایہ کاری کے بعد حال یہ ہے کہ پنجاب کے دیوبندی اور سلفی بھی آدھے صوفی ہوتے ہیں۔ یہ اس سرزمین کا اعجاز ہے، یہاں شدت پسندی صرف محبت میں روا ہے۔

پیرو پریمن اور گلاب سنگھ کی کہانی میں پنجاب کے سبھی رنگ ملتے ہیں۔ وسعت بھی، گہرائی بھی، نرمی بھی، عشق بھی اور تصوف بھی۔ حیرت ہے اور افسوس بھی کہ محبت کی اس لازوال داستاں کو وہ شہرت کیوں نہ مل پائی جو ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو حاصل ہے؟

آئیں پیرو پریمن اور گلاب داس سے ملتے ہیں۔

گلاب سنگھ کا جنم 1809 میں امرتسر کے گاؤں رٹول کے ایک جٹ گھرانے میں ہوا۔ اس کا والد ایک آسودہ حال زمیندار تھا۔ گلاب سنگھ لمبا چوڑا، تنومند اور وجیہہ نوجوان تھا۔ سکھا شاہی کا دور تھا، کچھ عرصہ اس نے مہاراجہ شیر سنگھ کی فوج میں ملازمت کی مگر وہ فوج یا ملازمت کیلئے پیدا نہیں ہوا تھا، بہت جلد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ ایک سکھ سادھو کا شاگرد بن بیٹھا۔ سکھوں کو ہندوستان میں پہلی اور شاید آخری بار عروج حاصل ہوا تھا، اس دور میں ان میں سادھوؤں اور سنتوں کے نت نئے فرقے اور گروہ وجود میں آ رہے تھے۔ گلاب سنگھ کی متلون مزاج طبیعت نے اسے کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیا۔ اسے حقیقت مطلق کی تلاش تھی، اس تلاش میں وہ مختلف سادھوؤں سے ملتا اور بچھڑتا رہا۔ چہرے پہ دھونی رمائے کسی جنگل کی خاک چھان رہا تھا کہ اس کی ملاقات ایک مسلمان فقیر سے ہوئی جو بابا بلھے شاہ کی کافیاں گاتا پھرتا تھا۔ گلاب سنگھ کو یہ کلام بھایا تو وہ اس فقیر کے ساتھ ہو لیا۔

سکھوں کی اصطلاح میں یہ فقیر “خلاصی وچار” کا پرچارک تھا۔ یعنی خود کو کسی ایک مذہب یا فرقے یا مخصوص عبادات و عقائد کا پابند نہ کرنے والا۔ بابا بلھے شاہ بھی ایسے ہی تھے۔ اس فقیر کی صحبت میں کچھ عرصہ گزار کر گلاب سنگھ نے اسے بھی چھوڑ دیا مگر اب اس کے خیالات میں ایک انقلابی تبدیلی برپا ہو چکی تھی۔ وہ ترک دنیا کا قائل نہیں رہا تھا۔ چنانچہ چہرے سے کالک صاف کر کے اس نے صاف ستھرا لباس پہنا اور دنیاوی طور طریقے اپنا لئے۔ اب وہ ہریانہ میں رہائش پذیر ہوا اور گھوم پھر کر اپنے فلسفہ حیات کی تبلیغ کرنے لگا۔ اس کے ہاں چونکہ دنیاوی لذتوں اور آسائشوں کو ترک کرنا خوبی نہیں عیب تھا، اس لئے ملنگوں، فقیروں، سادھوؤں اور سنتوں کے مقابلے میں نوجوانوں کو اس کا فلسفہ زیادہ پرکشش لگا۔ لوگ جوق در جوق اس کے مرید ہونے لگے۔ مگر ساتھ ساتھ اس کی مخالف بھی بڑھنے لگی، یہاں تک کہ گلاب سنگھ جو اب گلاب داس کہلاتا تھا، نے بابا بلھے شاہ کے قصور ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔

نام پیراں دتی، عرفیت پیرو، تخلص پریمن۔ پیرو 1832 میں گوجرانولہ کے ایک گاؤں میں بہت منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی۔ پیدائش کے دو تین سال بعد ہی ماں چل بسی۔ جیسا کہ پیراں دتی کے نام سے ہی ظاہر ہے اس کے والد ایک سادہ لوح، مذہبی اور پیر پرست مسلمان تھے۔ مزاروں، عرسوں اور میلوں میں شرکت باعث ثواب سمجھتے تھے اور اپنی لاڈلی پیرو کو بھی ہر جگہ ساتھ لے کر جایا کرتے تھے۔ پیرو نے اپنی زندگی کے ابتدائی دس برسوں میں جو ماحول دیکھا یہ بعد میں اس کے مذہبی خیالات پر بہت اثرانداز ہوا۔ پیرو بارہ برس کی تھی جب بعض روایات کے مطابق کسی میلے سے اور بعض کے مطابق گھر سے کوئی مولوی اسے ورغلا کر اپنے ساتھ لاہور لے آیا اور اس سے شادی رچا لی۔ صرف دو سال بعد شوہر کی وفات ہو جانے پر پیرو لاہور میں بے آسرا ہو گئی۔ کم سن تھی، خوبصورت تھی، لاوارث تھی، لاہور کے شاہی محلے پہنچا دی گئی۔

عام پنجابی تو رہے ایک طرف، پنجابی ادب کے بیشتر طالب علم بھی اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ پیرو پریمن کو پنجابی زبان کی پہلی معلوم شاعرہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے- پیرو شاعری نہ کرتی تو آج میں اس کے حالات زندگی آپ تک پہنچانے کے قابل نہ ہوتا۔ پیرو کا کلام ایک سو نوے کافیوں پر مشتمل ہے- ان میں ایک سو ساٹھ چھ سطری کافیاں یوں سمجھیں کہ پیرو کی منظوم سوانح حیات ہے- جبکہ تیس چار سطری کافیاں وہ ہیں جو پیرو شاہی محلے میں گا کر سنایا کرتی تھی۔ ایک نوخیز طوائف جو بلا کی حسین بھی ہو، گاتی بھی اچھا ہو اور خود اپنا ہی کلام گاتی ہو تو اس کے سامنے کسی اور کا چراغ بھلا کیسے جل سکتا ہے- بعض ضعیف روایات بتاتی ہیں کہ رنجیت سنگھ کا جرنیل الٰہی بخش بھی پیرو کے کوٹھے پر آیا کرتا تھا۔ لیکن گلاب داس کی طرح پیرو کی منزل بھی کچھ اور تھی۔
جاونا اسی پردیس سئیوں
ترک، ہندوواں پرے کہاونا ای
اسی تیاگ جانا مت ہندوواں دا
نئیں ترکاں دا کج دھراونا ای
جتھے پہنچ نہ ترک تے ہندوواں دی
سئیوں ایسے مکان تے جاونا ای
رام جھروکے بیٹھ کے نی
مجرا کل جہان دا پاونا ای

(ترجمہ: سکھیو! مجھے یہاں سے پردیس جانا ہے، مسلمانوں اور ہندوؤں سے بہت دور۔ میں نے ہندو دھرم بھی چھوڑ دینا ہے اور مجھے مسلمانوں سے بھی کچھ لینا دینا نہیں۔ مجھے ایسے مقام پہ پہنچنا ہے جو مسلمانوں اور ہندوؤں کی پہنچ سے بہت دور ہے- مجھے اپنے خدا کے حضور بیٹھ کر ساری دنیا کا دکھڑا سنانا ہے)

کہتے ہیں کہ گلاب داس جب ہریانہ سے چلا تو وہاں کی ایک بہت امیر کبیر طوائف جو اس سے دل ہار بیٹھی تھی، اپنے کل مال متاع سمیت اس کے ساتھ ہو لی۔ طوائف کا بدقسمتی سے رستے ہی میں انتقال ہو گیا۔ اس کے چیلوں نے تو اسے نوازا ہی تھا اب طوائف کی دولت بھی ہاتھ لگ گئی۔ قصور سے شاید گلاب داس کو بابا بلھے شاہ کی وجہ سے انسیت ہوئی تھی، یہاں پہنچ کر موضع چٹھیاں والا میں گلاب داس نے اپنا ڈیرہ بنایا۔ یہ آٹھ بیگھے اراضی پر مشتمل تھا اس کے ساتھ آئے چیلوں کے علاوہ اردگرد سے بھی بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندو، مسلم اور سکھ تینوں مذاہب میں ہی ذات پات کی نفی اور مساوات پر مبنی تحریکیں تو چل رہی تھیں مگر تینوں مذاہب ہی کے ماننے والے ذات پات کے بدترین نظام سے منسلک تھے۔ گلاب داس سب انسانوں کی برابری کا قائل تھا، وہ صنفی امتیاز کا بھی سخت مخالف تھا چنانچہ اس کے ڈیرے پر مردوزن کی علیحدگی یا پردے کا تصور بھی نہ تھا۔ وہ تمام مذاہب کو سچا یا پھر تمام مذاہب ہی کو جھوٹا سمجھتا تھا اس لئے مسلمان، ہندو اور سکھ کی بھی اس کے ہاں کوئی تفریق نہ تھی۔ خود بھی ٹھاٹھ سے رہتا تھا اور مریدوں پر بھی پابندیاں لگانے کا قائل نہ تھا۔ اس لئے بہت جلد قرب و جوار میں اس کی دھوم مچ گئی۔
پیرو کو کوٹھے پر تین سال ہوئے تھے جب اس نے گلاب داس اور اس کی تعلیمات کا ذکر سنا۔ وہ خود بھی تینوں بڑے مذاہب کے مذہبی پیشواؤں کے سخت خلاف تھی۔ گلاب داس میں اسے وہ راہبر، وہ راہنما دکھائی دیا جس کی اسے کب سے تلاش تھی۔
پیرو خود خدا کی ہوں طالب ہوئی
نہ ڈٹھا مسلمان کئو نہ ہندو کوئی
پیر فقیر اولیے سب ہوندی پھانسی
داس گلاب بے حد ہے میں تس کی داسی

(میں پیرو خدا کی تلاش میں ہوں، اس تلاش میں مجھے نہ مسلمان ہونا درکار ہے نہ ہندو ہونا۔ پیر فقیر بہت آزما لئے سب دھوکہ ہیں، مجھے گلاب داس ہی کافی ہے اب میں اس کی داسی بن کر رہوں گی)

ہر مڈل کلاس پنجابی کی طرح میں بھی اپنی مادری زبان پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوں، ترجمے میں غلطی ہو تو درگزر فرمائیے۔

پیرو نے گلاب داس کو پیغام پہنچایا کہ مجھے اپنے ڈیرے پر رہنے کی اجازت دیجئے، گلاب داس نے پیرو کو اجازت نامہ بھجوا دیا اور یوں پیرو گلاب داس کے ڈیرے پر پہنچ گئی۔

شاہی محلے کی نامور ترین طوائفوں میں سے ایک کا کوٹھا چھوڑ دینا بھلا اس بازار کے ٹھیکیداروں کو کہاں گوارا ہو سکتا تھا، انہوں نے یہ مہم چلائی کہ پیرو مسلمان ہو کر ایک سکھ فقیر کی مرید کیونکر ہو سکتی ہے- ادھر ایک طوائف کو اپنی مرید بنا لینے پر گلاب داس کے کئی چیلے اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مگر اس دوران پیر ومرید کے درمیاں صرف روحانی ہی نہیں، قلبی اور جسمانی تعلق بھی بن گیا تھا۔ پیرو پریمن عمر بھر عزت، احترام، محبت اور توجہ کو ترستی رہی تھی، گلاب داس سے اسے یہ سب ملا اور اپنی توقع سے کہیں بڑھ کر ملا۔ وہ دونوں اب مرشد و مرید بھی تھے، عاشق و معشوق بھی اور عابد و معبود بھی۔ مگر کوٹھے والوں نے عوام کے مذہبی جذبات بھڑکا کر اور ڈیرے کا گھیراؤ کر کے پیرو کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا۔ اسلام کے نام پر پیرو دوبارہ چکلے پہ پہنچا دی گئی مگر اب وہ طوائف نہیں رہی تھی۔ اس نے مجرا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد غالباً گلاب داس کے چیلوں کے ڈر سے پیرو کو وزیر آباد کی ایک حویلی میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں کی مالکن یا منتظم مہرالنساء نامی ایک خاتون تھی جس نے پیرو پہ بہت سی سختیاں کیں۔ اسے سمجھانے کیلئے یکے بعد دیگرے چار مولوی بھی آئے مگر پیرو نے انہیں بے عزت کر کے لوٹا دیا۔

پیرو اس حویلی میں تین سال قید رہی۔ آخر دو خادماوں کو اس پر رحم آیا اور ایک منشی کی منت سماجت کر کے انہوں نے پیرو کا سندیسہ گلاب داس کے نام لکھوایا۔ پیرو نے اس سندیسے میں اپنی محبت اور اطاعت کا واسطہ دے کر گلاب داس سے درخواست کی کہ جس طرح رام نے راون کے قبضے سے سیتا کو چھڑوانے کیلئے ہنومان کو لنکا بھیجا تھا اس طرح گلاب اپنی داسی کو اس حویلی سے آزاد کروانے کیلئے اپنے بندے بھجوائے۔ گلاب داس کب سے پیرو کو ڈھونڈتا پھرتا تھا، یہ خط ملنے پر اس نے اپنے دو لائق فائق چیلوں چیت سنگھ اور گلاب سنگھ کو اس مشن پر مامور کیا۔ ان دونوں نے جانے کیا چکر چلایا مگر بالآخر پیرو کو حویلی سے آزاد کرا کے واپس لانے میں کامیاب رہے۔

اس بار پریمن اور گلاب کا ملن دائمی ثابت ہوا۔ پریمن نہ صرف گلاب کی محبوبہ اور مرید تھی بلکہ اس کے چیلوں کی ماتا بھی سمجھی جانے لگی۔ دس سال تک پریمن اپنے مرشد کی سیوا کرنے کے بعد 1872 میں خالق حقیقی سے جا ملی۔ اس کا مذہب کیا تھا یہ تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا مگر شاید اس کے پیدائشی مذہب کے احترام میں اسے ڈیرے کے احاطے ہی میں دفن کر دیا گیا۔

پیرو کے مرنے کے بعد گلاب داس کی دنیا ہی اندھیر ہو گئی تھی۔ ڈیرے کا انتظام عملی طور پر اس کے لے پالک گوبند سنگھ کے ہاتھ میں تھا۔ گلاب داس صرف ایک سال زندہ رہا اور اس کی وصیت کے مطابق اسے جلانے کی بجائے پیرو ہی کی قبر میں دفن کر دیا گیا۔ مرشد اور مریدنی کی محبت کی یہ نشانی یعنی ان کا مقبرہ ہماری حکومتوں اور اداروں کی روایتی بے حسی کے باوجود 2012 تک ٹوٹی پھوٹی حالت میں موجود تھا مگر جناب ہارون خالد کے مطابق اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔

گلاب داسی فرقہ اپنے پیشوا کے مرنے کے بعد روز بروز سکڑتا چلا گیا، اس کے بچے کھچے پیروکار تقسیم کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے۔ ہریانہ میں اب بھی اس فرقے کا ایک چھوٹا سا مرکز موجود ہے-

Advertisements
julia rana solicitors london

پیرو پریمن کی شاعری اور کہانی شاید ہمیشہ کیلئے دفن ہو جاتی مگر خوش قسمتی سے گلاب داس کے ایک شاگرد نے پیرو کے مرنے کے ایک سال بعد اس کی کافیوں کا ہاتھ سے لکھا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا جو کسی طرح اس کے خاندان میں محفوظ رہا، یہاں تک کہ 1972 میں ایک بھارتی یونیورسٹی کو اتفاقاً یہ پرانی کتابوں کی ایک دکان سے مل گیا۔ 1974 میں پنجابی زبان اور سکھ مذہب کے نامور محقق دیویندر ودیارتھی نے پہلی بار پیرو پریمن کا اپنے ایک مضمون میں سرسری تذکرہ کیا،مضمون بنیادی طور پر گلاب داسی فرقے پہ تھا۔ 1984 میں گیان اندر سیوک نے پنجابی شاعری پر اپنے تحقیقاتی مقالے میں پریمن پہ چند سطریں لکھیں۔ غالباً ان کی اس تحریر نے لاہور کے معروف دانشور اقبال قیصر کو تحقیق پر اکسایا۔ 1997 میں ایک اور بھارتی سکالر شہریار صاحب نے پیرو پریمن پر پہلا مفصل تحقیقی مضمون لکھا۔ 1999 میں شہریار صاحب ہی نے پیرو کی کہانی کی ڈرامائی تشکیل کی۔ سوراج بیر نے شاعری کے نام سے پریمن پہ ایک ڈرامہ لکھا جو کہ ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں مدیحہ گوہر مرحومہ کے اجوکا تھیٹر میں بھی پیش کیا جا چکا ہے- ہندوستان میں انشو ملہوترا صاحب نے بھی پیرو پہ گراں قدر تحقیق کی ہے- پاکستان میں اقبال قیصر صاحب کے علاوہ محمود اعوان اور مشہور ٹریول بلاگر ہارون خالد صاحب نے پیرو پر ایک سے زائد مضامین انگریزی میں لکھ رکھے۔ پنجابی رسالہ پچھم نے 2012 میں پیرو پہ ایک مضمون چھاپا تھا جو بنیادی طور پر سکھ سکالر گرپریت کے ایک انگریزی مضمون کا پنجابی ترجمہ ہے۔ اردو میں پیرو پریمن پر کوئی مضمون میری نظر سے نہیں گزرا، آپ میری اس کوشش کو ہی بارش کا پہلا قطرہ سمجھ لیں، میرا دل خوش ہو جائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پریمن اور گلاب۔۔۔۔محمد اشفاق

  1. واہ واہ!!! نہ صرف موضوع لاجواب ہے، بلکہ اسلوب بھی بے مثال۔ دلوں میں اترجانے والی محبت کی گہری حقیقتوں سے بھر پور کہانی۔ “عشقِ حقیقی” اور “عشقِ مجازی” کی روایتی سرحدوں کو روندتی، خالص عشقِ بے پناہ کی روح افزا واردات۔ فکشن کی سی تاثیر سے مامور اس تحقیقی تحریر کیلئے محمد اشفاق صاحب اور مکالمہ ٹیم کا بہت بہت شُکریہ؛ اور سلامتی و ترقی کی ڈھیروں دعائیں۔

Leave a Reply