کمراٹ۔۔۔۔توصیف ملک/قسط3

کالا چشمہ :

کالا چشمہ ایک جگہ کا نام ہے اور وہاں جانا صرف پیسوں کا ضیاع ہے ۔۔۔

ہوٹل کی بکنگ اور سامان کمرے میں رکھنے کے بعد سکون ہو گیا ، تین بیڈ والے کمرے میں اضافی میٹریس لگانے کی بجائے ہوٹل کے مالک نے ہمیں آخری کمرہ دکھایا جس کا صرف ایک مسئلہ تھا کہ اس کا واش روم کمرے سے باہر تھا ، اگر تو فیملی ساتھ ہوتی تو ہمیں ایسا کمرہ پسند نہ آتا لیکن ہم چاروں ” چھڑے ” تھے ( سفر میں اگر اکیلے ہوں تو شادی شدہ بھی چھڑے ہی ہوتے ہیں  ) لہٰذا ہم نے اس آپشن کو چار بیڈ کی وجہ سے قبول کر لیا۔

ڈرائیور اور ہوٹل کے مالک نے فوراً واشروم کی بالٹی کو دریا کے یخ پانی سے بھر دیا ، جلدی جلدی میں ہم نے نہ تو گرم پانی کا مطالبہ کیا اور نہ ہی اس ہوٹل میں ایسا کوئی سسٹم تھا ، دریا کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ ہاتھ ٹھنڈ کی وجہ سے سُن ہو جاتے ہیں اور اس کا زیادہ احساس رات یا صبح کے وقت ہوتا ہے ، دوپہر میں ویسے بھی دھوپ چبھ رہی تھی تو پانی کی طرف زیادہ دھیان بھی نہیں رہا ، وہاں ٹینکی والے اور گرم پانی والے ہوٹل بھی موجود ہیں ، وہاں صرف خاص دنوں میں ہی سیزن ہوتا ہے اور اس وقت ہوٹل وغیرہ کے ریٹ زیادہوتے ہیں جبکہ جس وقت ہم پہنچے تھے تو رش بہت کم تھا ہوٹل والے  مقابلے کی وجہ سے ریٹ بہت کم کر دیتے ہیں۔

میری رائے کے مطابق اگر آپ فیملی کے بغیر ہیں اور بھرپور انجوائے کرنا چاہتے  ہیں تو کمراٹ میں ٹھہریں ، کمراٹ میں صرف ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ آپ کو جاز بانڈہ جانے کے لیے صبح جلدی نکلنا پڑتا ہے تو سواری کا مسئلہ بن سکتا ہے لیکن اگر کسی ڈرائیور کا نمبر پاس ہو تو یہ بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔
کمراٹ ایک جنگل کا علاقہ ہے جہاں ایک طرف دریا ہے اور دوسری طرف جنگل ہے اور دریا کے پار دور تک سرسبز اور برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں ، صبح صبح دریا کے کنارے چلنا بہت زبردست ایڈوانچر اور مسحورکن ہے لیکن ہم اس ایڈونچر سے محروم رہے اور اس ایڈونچر کا بھی ادراک ہمیں کالا چشمہ سے واپسی پر ہوا تھا۔۔۔
اب ہماری واشروم میں جانے کی باری لگ گئی ، ماموں سب سے بڑے بھی تھے اور شوگر کے مریض بھی تھے تو سب سے پہلے ماموں گئے اور ہمارے اجمل خان صاحب تو باقاعدہ ٹھنڈے پانی سے نہائے ،وہ الگ بات ہے کہ نہانے کے بعد ان کا سر   سُن ہو گیا تھا۔۔
سب کو بھوک لگ رہی تھی ، ہم کل پانچ بجے سے سفر میں تھے اور اب دوپہر کا ایک بج رہا تھا ، اتنے میں قریب مسجد سے اذان شروع ہو گئی ، یہ مسجد تھل کی تاریخی مسجد ہے جو کہ سنہ1955 میں تعمیر کی گئی تھی اور سب سے خاص بات اس مسجد کی یہ تھی کہ اس کا سارا ڈھانچہ دیار کی لکڑی سے بنایا گیا تھا حتیٰ کہ تین تین فٹ موٹے شہتیر اور ستون بھی دیار کی ایک ہی لکڑی کے تھے ، مسجد میں لکڑی کی مینا کاری بھی کی گئی تھی۔
میں نماز کے لیے  چل دیا ، مسجد میں وضو خانہ نیچے بیسمنٹ میں بنایا گیا تھا اور پانی کا سسٹم دریا کے ساتھ جوڑا گیا تھا ، کالے رنگ کا ایک پائپ چھوٹے سے حوض پر لگا تھا جہاں مسلسل دریا کا پانی اس پائپ کے ذریعے حوض میں گِر رہا  تھا اور لوگ اس حوض کے گرد بیٹھ کر وضو کر رہے تھے ، میں بھی وضو کرنے بیٹھ گیا اور جب پانی میں ہاتھ ڈالا تو وہ ٹھنڈ کی وجہ سے لال ہو چکا تھا ، اب میں ایک ہاتھ ڈالتا تو ایک منٹ اس کو پھونکوں سے گرم کرتا اور پھر دوسرا عمل شروع کرتا ، بہت مشکل سے وضو پورا کیا اور باجماعت نماز ادا کی ، دیار کی خوشبو پوری مسجد میں پھیلی ہوئی تھی ، مجھے ویسے بھی تاریخی جگہوں اور چیزوں سے خاص دلچسپی ہے لیکن ابھی مکمل مسجد نہیں دیکھ سکا  تھا کیونکہ ابھی آگے جانا تھا اور کھانا وغیرہ بھی کھانا تھا۔

چار فرض پڑھ کر جلدی سے ہوٹل پہنچا اور اس دوران بازار کا ایک چکر لگایا کہ اگر کوئی ” دلچسپ ” چیز کھانے کو مل جائے تو سب کو ادھر ہی اکھٹا کر لوں لیکن سوائے چکن کڑاھی اور چپلی کباب کے اور کچھ خاص چیز نہیں تھی ، کڑاھی کا ٹائم نہیں تھا اور کباب رات کو ہی کھا چکے تھے تو واپس ہوٹل آگیا ، یہاں سب کو باہر ریسٹورنٹ میں اکھٹا ہونے کا کہا اور خود کچن میں گھس کر مینیو کا پوچھنے لگ گئے ، استفسار پر “شیف ” نے کہا کہ چھوٹا گوشت ، بھنڈی اور دال ماش ہے ، چھوٹے گوشت کا سن کر باچھیں کِھل گئیں اور فوری طور پر سالن کے نظارے کا مطالبہ کیا تو کچھ عجیب محسوس ہوا ، سالن فریزر میں پڑا تھا اور پہچان مشکل ہو رہی تھی آخر اجمل خان صاحب سے کہا کہ پشتو میں پوچھو کہ یہ چھوٹا گوشت کس کو کہتے ہیں ؟
پشتو میں جواب آیا کہ یہ لوگ کٹے کو چھوٹا گوشت کہتے ہیں اب پتا نہیں یہ ” بڑا گوشت ” کسے کہتے تھے ۔

مشورے سے بھنڈی اور دال ماش طے ہوا اور اس کا آرڈر دے دیا تو شیف صاحب جو کہ کچھ دیر پہلے ہماری روم سروس بھی دے چکے تھے نے فوری کہا کہ بیٹھو ہم ” تڑکہ ” لگا رہا ہے ، پہلے تو میرے اندر کا شیف جاگا کہ خود ہی سبز مرچ وغیرہ کا تڑکا لگا لیتا ہوں لیکن پھر شیف صاحب کا اعتماد سے بھرا لہجہ گھائل کر گیا۔۔۔” آپ بیٹھو مڑا ، ام بہترین تڑکا لگائے گا “۔

اور پھر شیف پر اعتماد کر کے زندگی میں پہلی دفعہ دال کو ٹماٹر کے تڑکے کے ساتھ کھایا ، یہ لوگ اپنے سالن میں ٹماٹر کا بہت استعمال کرتے ہیں ، آدھی ہانڈی میں آدھا حصہ ٹماٹروں کا ہوتا ہے ، پنجاب یا سندھ میں مرچ کم رکھنے کا کہا جاتا ہے جبکہ کے پی کے میں ٹماٹر کم رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔

کھانا مزیدار تھا یا پھر بھوک کی وجہ سے مزیدار لگا کہ پیٹ بھر کر کھایا اور پھر مزیدار چائے پی ، یہ لوگ گائے کا دودھ صرف گھروں میں استعمال کرتے ہیں ، بازار میں شاذ ونادر ہی ملتا ہے جبکہ ہوٹل پر صرف ڈبے والا دودھ ہی استعمال کرتے ہیں ، چائے نے کافی حد تک تھکن دور کر دی تھی۔

اب ڈرائیور لڑکا ہمارے آگے پیچھے تھا اور بار بار آگے جانے کا پوچھ رہا تھا ، میں نے سعید بھائی کو فون کیا اور صورتحال بتا کر پوچھا کہ اب کیا کریں ، انہوں نے پہلے آرام کا مشورہ دیا تو ہم نے کہا کہ ہم تیار ہیں تو انہوں نے کالا چشمہ ” بھگتانے ” کا کہا جس کے لیے ہم فوراً تیار ہو گئے۔۔
گاڑی والے کو کالا چشمہ جانے کا کہا تو اس نے کہا کہ میں اسی گاڑی ( فیلڈر) میں آپ کو لے جاؤں گا اور آٹھ ہزار لوں گا ، آٹھ ہزار سن کر تو ہم سب حیران رہ گئے کہ اتنے تو ہمارے لاھور سے ادھر آنے کے  نہیں لگے۔۔۔

ماموں اور کزن نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور پھر کزن اکیلا باہر چلا گیا جہاں دوسری گاڑیوں والے بھی کھڑے تھے ، کوئی چھ  ہزار مانگ رہا تھا تو کسی نے پانچ ہزار کی آفر دے دی ، جس ڈرائیور کے ساتھ ہم تھل آئے تھے وہ سائے کی طرح ہمارے ساتھ تھا اور بار بار جانے کا پوچھ رہا تھا اس کو جب ریٹ بتائے تو اس نے کہا کہ جو سب سے کم دے گا ہم بھی وہی لے لے گا ، میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی ؟
آپ اپنا ریٹ پہلے ہی کم کر کے بتا دو ، یہ تو دوسرے کے ساتھ زیادتی ہے کہ اس سے پوچھ کر اور مناسب ریٹ ہو کر اسے چھوڑ دیا جائے ، آخر بات چار ہزار میں طے ہو گئی اور اسی ڈرائیور لڑکے کے ساتھ طے ہوئی لیکن اس گاڑی( فیلڈر ) میں جانا ہم دونوں کے لیے مناسب نہ رہا !
تھل میں داخل ہوتے ساتھ ہی ایک الگ قسم کی گہما گہمی ہم نے محسوس کی تھی ، پولیس کی تعداد معمول سے زیادہ تھی اور سرکاری گاڑیوں کی آمدورفت ہو رہی تھی ، ہمارے کالا چشمہ سے نکلنے سے کچھ دیر پہلے ایک سرکاری گاڑیوں کا قافلہ ہمارے سامنے سے گزرنا شروع ہوا ، تجسس کی وجہ سے لوگوں سے پوچھا تو بتایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان تشریف لائے ہیں ،تصویر میں موجود پولیس کا جوان بھی اسی پروٹوکول سکواڈ کا حصہ تھا۔
کالا چشمہ کا راستہ بہت خراب تھا ، دو گھنٹے کے سفر میں ہمارا سارا اندرونی نظام اپنی اپنی جگہ تبدیل کر چکا تھا ، مجھے تو ایک دفعہ اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز اپنے ” گوڈے ” سے بھی آتی محسوس ھوئی تھی ، راستے کے نظارے بہت خوبصورت تھے ، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے کمراٹ دیکھا اور ہنسی مذاق کرتے آگے بڑھتے گئے۔۔جہاں چیف جسٹس صاحب کا گیسٹ ہاؤس تھا وہاں کے راستے عارضی طور پر بند کیے گئے تھے لیکن ہمیں راستہ دے دیا گیا۔
سکواڈ کے جوان ایسے گھو ر رہے تھے جیسے کہ میں کوئی جینز میں ملبوس اٹھارہ سالہ الہڑ دوشیزہ ہوں۔۔

(کالا چشمہ کمراٹ سے آگے ایک مقام ہے جہاں ایک چھوٹی سی جگہ سے تھوڑا سا پانی نکل رہا ہے اور نیچے پتھر کچھ سبزی مائل ہونے کی وجہ سے یہ کالا چشمہ کہلاتا ہے ، اس چشمے میں مقامی لوگوں  نے بوتلیں ٹھنڈی کرنے رکھی ہوئی تھیں اور ساتھ ھی دو چارپائی بچھی ھوئی تھیں جس پر دو لوگ محو استراحت تھے
میرا ذاتی خیال ھے کہ ادھر کچھ خاص نظارے نہیں ہیں اور جانے کا کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ آپ خود غیر قانونی طریقے سے ٹراؤٹ کا شکار کرنا چاہتے ہیں )

کمراٹ آبشار :

کالا چشمہ کا سفر تھکا دینے والا تھا ، ایک تو گاڑی چھوٹی تھی اور پھر سڑک صرف نام کی تھی جو کہ روز بارشوں اور گاڑیوں کے گزرنے کی وجہ سے گڑھوں کا مجموعہ بن چکی تھی ، میرا آپ کو مشورہ ہے کہ اگر کمراٹ یا کالا چشمہ جانا ہو تو جیپ یا کسی بڑی فور ویل ڈرائیو گاڑی میں ہی جائیں ، کیونکہ ان کے شاک بڑے اور گاڑی قدرے اونچی ہوتی ہے جس کی وجہ سے جھٹکے کم ہو جاتے ہیں۔
ہم نے زیادہ سفر خاموشی سے طے کیا کیونکہ ایک تو رات کے سفر کی وجہ سے نیند پوری نہ ہو سکی بلکہ جب سے سفر شروع کیا تھا تو آرام کا وقت ہی نہیں مل سکا تھا جس کی وجہ سے طبیعت پر بوجھ تھا اور تھوڑا سا طبیعت میں چڑچڑاپن بھی ایسی صورت میں پیدا ہو جاتا ہے ( یہ نارمل ہے )
اب میں تصویریں کم بنا رہا تھا کیونکہ چلتی گاڑی میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ ماموں بار بار مجھے تصویر کھینچنے کا کہہ رہے تھے۔

کمراٹ آیا اور گزر بھی گیا ، کمراٹ کی وادی کے پاس کچھ لوگوں نے عارضی ہٹ بنا رکھے ہیں اور لوگ کیمپنگ بھی کرتے ہیں ( وہاں اپنا کیمپ لگانے والوں سے بھی کرایہ لیا جاتا ہے ) تقریباً تمام سہولیات بھی وہاں میسر ہیں ، جن لوگوں نے کیمپ یا ہٹ بنا رکھے ہیں وہ لوگ وہیں پر ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی بنا لیتے ہیں ۔
میں آپ کو پھر یہی مشورہ دوں گا کہ تھل کی بجائے کمراٹ کے ٹین کے کیبنز یا ہٹ میں سٹے کریں ، یہ ایک بہترین ایڈوانچر ہے ، اگر گھر والا ماحول چاہیے تو پھر یہاں آنے کا کیا فائدہ ؟ پھر آپ مری جائیں وہاں فلیٹ بھی مل جاتے ہیں ، یہ جنگل اور وادیوں کا علاقہ ہے ، یہ جھرنوں اور آبشاروں کا شہر ہے ،یہاں رات کو صرف دریا کی آواز گونجتی ہے جو اپنے اندر ایک مہمیز تاثر رکھتی ہے ،دریا کو دیکھے بغیر یہ آواز جکڑ لیتی ہے جبکہ دریا کو دیکھنے پر تھوڑا سا خوف بھی آتا ہے۔(کہنے والے کہتے ہیں کہ پریاں انہی علاقوں میں پائی جاتی ہیں جو کہ رات کو پہاڑ کی چوٹیوں پر کھیلتی ہیں ) سوچیں کہ اگر آپ کی کسی پری سے ملاقات ہوجائے تو ؟

یہاں آپ نے صرف ایک رات گزارنی ہے تو کمراٹ میں ٹھہرنا بہترین آپشن ہے، باقی آپ اپنی سہولت کے لیے تھل میں بھی ٹھہر سکتے ہیں۔۔۔
راستے میں جگہ جگہ چشموں اور برساتی نالوں کے پانی کا سڑک سے گزر ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمیں گاڑی سے اترنا پڑتا تھا ، ایک بات آپ کو بتانا بھول گیا ، میرا کزن کھائی سے اور جنگلی جانوروں سے بہت ڈرتا تھا ، ویسے تو ادھر کوئی جانور نہیں ہوتا لیکن وہ گھنا جنگل آنے پر اپنے سائیڈ کا شیشہ بند کر لیتا تھا اور کھائی آنے پر شور ڈال دیتا تھا۔۔۔” خان صاحب تھوڑا اوس پاسوں کڈو ”
(خان صاحب تھوڑا دوسری طرف رکھ کر گاڑی چلائیں)۔۔
اور پھر باقی راستہ یہی شغل لگا رہا ، سب ہی اس کو چھیڑنے لگ گئے حتیٰ کہ ڈرائیور خان صاحب جان بوجھ کر کھائی کی طرف لے کر جاتے اور پھر اس کے شور پر سب قہقہے لگاتے
کالا چشمہ پہنچ کر ہم نے کیلے کھائے ، سب سے پہلے اتر کر اپنی ہڈی پسلیوں کو سیٹ کیا اور کالے چشمے کے پانی سے منہ دھویا ، وہاں رش نہیں تھا ، دو تین لوگ ایک چھوٹے سے کپڑے کے بنے ہوٹل میں چائے پی رہے تھے اور پھر ہم نے اپنی اپنی تصاویر بنانی شروع کر دیں ، یہاں دریا کے درمیان میں دو تین چھوٹے چھوٹے جزیرے بن چکے تھے جس کی وجہ سے دریا معمول سے زیادہ چوڑا اور پر سکون تھا ، کچھ لوگ ایک بڑا ٹرک لائے ہوئے تھے اور جزیرے میں ٹرک کھڑا کر کے دریا کنارے چائے پیتے ہوئے انجوائے کر رہے تھے۔۔۔

لاہور واپسی پر ہم جس گاڑی میں تھل سے دیر جانے کے لیے سوار تھے اس میں ہمارے ساتھ تین لڑکے پشاور کے بھی تھے ، اچھے اور سلجھے ہوئے تھے لیکن صرف ایک مسئلہ تھا کہ انہوں نے بھی واپسی پر سارے راستے پشتو گانے لگائے رکھے۔۔۔ان سے تعارف ہوا اور سفر بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے کمراٹ میں رات گزاری تھی اور ایک پورا دن کالا چشمہ سے آگے دریا پر مچھلی بھی پکڑی تھی ، یہ لوگ جال ساتھ لے کر آئے تھے اور سارے دن میں دو تین کلو ٹراؤٹ مچھلی کا شکار کیا ( یہ غیر قانونی ہے ) لیکن بغیر جال کے سنگل کانٹے سے مچھلی پکڑ سکتے ہیں ، ان لوگوں نے کھانا پکانے کا سامان بھی ساتھ رکھا ہوا تھا اور ہمیں جب اس کے ذائقے بارے بتا رہے تھے تو ھہارے منہ میں بھی پانی آ رہا تھا۔

آدھا گھنٹہ ادھر گزارا ، عصر کی نماز اسی ہوٹل کے کونے میں پڑھی اور پھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا ، گاڑی کا اگلا بمپر تھوڑا اکھڑ چکا تھا اور سائیڈ پر پائیدان کے ساتھ ڈیزائن کے لیے لگایا گیا پلاسٹک بھی ٹوٹ چکا تھا ، واپسی پر جو بھی ڈرائیور ہمیں ملتا وہ حیران ہو جاتا اور ڈرائیور سے خصوصی طور پر پوچھتا کہ اس گاڑی میں کالا چشمہ گئے تھے ؟
اور ہاں میں جواب پا کر حیران ہو جاتے ، ایک نے تو داد دینے کے لیے ماشاءاللہ بھی کہا ، کمراٹ دیر کے لوگوں کی ایک خاصیت ہے کہ یہ لوگ ہر گزرنے والی گاڑی کے لیے بلا تفریق ہاتھ ضرور ہلاتے ہیں ،سلام کرتے ہیں اور مسکرا کر دیکھتے ہیں۔۔

اب ہمارا رخ کمراٹ کی مشہور اور بڑی آبشار کی طرف تھا ، یہ تھل سے تقریباً پونے گھنٹے کے فاصلے پر موجود ہے ، تھوڑی سی  چڑھائی پر واقع ہے اور جب چڑھائی کے بعد دور سے آبشار نظر آنا شروع ہوتی ہے تو کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے ، قریب جانے پر ٹھنڈی تیز ہوا اور پانی کی پھوار پڑنا شروع ہو جاتی ہے ،یہاں لوگوں کا رش تھا ، لوگ دھڑا دھڑ ہماری طرح اپنی گیلری کو واٹس ایپ ،فیسبک وغیرہ کے لیے بھر رہے تھے اور پھر ہم نے بھی وہی کام شروع کر دیا ، ماموں اور کزن آبشار کے زیادہ نزدیک نہیں گئے جبکہ میں اور اجمل خان بھائی نیچے جہاں پانی پوری طاقت سے گِرتا تھا وہاں تک گئے اور اس ہوا اور پانی کی آمیزش کو انجوائے کرتے رہے۔۔۔

سفر کی تھکان کی وجہ سے کزن نے جلدی چلنے کا اشارہ کیا تو ہم نے کہا کہ تھوڑی دیر مزید رک جاؤ کہ پیسے تو پورے کر لیں۔۔۔واپسی پر شام کا اندھیرا شروع ہو چکا تھا ، پہاڑوں میں سورج جلدی چھپ جاتا ہے لیکن روشنی دیر تک رہتی ہے ، ہم بھی آہستہ آہستہ اپنے ” گھر ” کی طرف بڑھ رہے تھے۔
اب ڈرائیور ہم سے اگلے دن کے پروگرام بارے پوچھ رہا تھا ، ہم نے کہا کہ جاز بانڈہ جانا ہے تو اس نے کہا کہ میں آپ کو لے جاؤں گا اور رات بھی آپ کے پاس اسی ہوٹل میں گزاروں گا ،یہاں سٹوری میں ایک ٹوسٹ آتا ہے۔۔۔۔

ماموں کا ایک بہت اچھا دوست تھا جو کہ کالام کا رہائشی اور ہوٹل کا مالک تھا ، ماموں اس سے لاہور سے ہی رابطے میں تھے لیکن دیر سے نکلتے ہوئے رابطہ نہ ہو سکا ، آبشار سے واپسی پر اس کا فون آگیا!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply