معاشرے کے لیے امن کیوں ضروری ہے؟ ۔۔۔ مہر ساجد شاہ

امن کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امن کیا ہے اس کو سمجھا جائے۔ 

امن ایسی کیفیت ہے جس میں ڈر اور خوف نہ ہو، سکون چین اطمینان آرام صلح ہی امن ہے۔ امن کا ماحول ایسا ہوتا ہے جہاں حالات معمولات بغیر تشدد کے حل ہو رہے ہوں۔ 

اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو دین اسلام کی اساس ہی امن و سلامتی پر ہے اسلام امن کی ضمانت ہے۔ ارشاد ربانی ہے “الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف (سورۃ قریش:۴) یعنی جس اللہ نے بھوک کی حالت میں انھیں کھانے کو دیا اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا۔” رزق اور امن دونوں عظیم نعمتیں ہیں انہیں اللہ نے بطور یاد دہانی ذکر کیا ہے۔ بیت اللہ الحرام کی تعمیر کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے جو دعائیں کی ان میں سے ایک دعا یہ بھی تھی: “رب اجعل ھذا بلدا آمنا وارزق اھلہ من الثمرات….( البقرہ:۶۲۱) اے میرے رب! اس کو پر امن شہر بنادیجئے اور یہاں کے رہنے والوں کو قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے۔”  

اسلام بد امنی کو پسند نہیں کرتا  اسی لیے ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔ امن کی دعا بہترین دعا ہے جو بوقت رخصت ہم اپنے پیاروں کو دیتے ہیں، ہم کہتے ہیں اللہ آپ کو اپنی حفظ و آمان میں رکھے، اسی طرح اس جہان سے رخصت ہونے والوں کو دنیا بھر میں دعا دی جاتی ہے

Rest in Peace

انسان کو زندگی گذارنے کیلئے بنیادی طور پر تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

۱-کھانا پینا۔ 

۲-بدن ڈھانپنے کیلئے پہناوا پہننا۔ 

۳-موسمی ضرورت کے لحاظ سے رہنے کا مناسب ٹھکانہ۔ 

انسان نے شروع میں ان ضرورتوں کو قدرتی وسائل سے پورا کیا، پھل کھائے، پتے اور جھاڑیوں کو بدن ڈھانپنے کے لئے استعمال کیا اور قدرتی غاروں میں پناہ لی۔ پھر انسان نے جانوروں پرندوں کا شکار کرنا سیکھ لیا ان کی کھال کو اپنا پہناوا بنایا، درختوں کے درمیان جھاڑیوں اور ٹہنیوں کی مدد سے جھونپڑیاں بنانا سیکھ لیا۔ ابتدا میں انسان یہ سب کام اپنے لئے کرتا تھا پھر جب مختلف لوگ مختلف کاموں میں ماہر ہونے لگے تو بقائے باہمی کے لیے ایک دوسرے کے کام کرنے لگے۔ ایک دوسرے کے کاموں کا معاوضہ بھی کام کر کے ادا کیا جاتا تھا۔ پھر جب مال و اسباب جمع ہونے شروع ہوئے تو ایک نئی سوچ سامنے آئی۔ یہ سوچ طاقت سے کام کروانے کی سوچ تھی، طاقت ور کمزور سے زبردستی مشقت لینے لگا غلام بنائے جانے لگے لڑائیاں اور جنگیں ہونے لگیں۔ جس علاقے میں بدحالی قحط سالی آتی فورا ہی ہمسایہ علاقہ پر حملہ کر کے وہاں کے مال و اسباب اجناس پر قبضہ کر لیا جاتا۔ یہ طاقت کا قانون آج بھی شکلیں بدل کر انسان میں انفرادی، برادری، قوم اور ملک کی سطح پر موجود ہے۔ طاقت کو اپنی معاشی ترقی کیلئے استعمال کرنے والے بحرحال بدامنی پیدا کرتے ہیں۔ 

جاپان پر طاقت کے گھمنڈ میں بدمست عالمی طاقت امریکہ نے جب دو ایٹم بم گرائے تو اس تباہ حال قوم نے بدلہ لینے کے لیے روائتی جوابی کاروائیوں کی بجائے مختلف فیصلہ کیا اور اپنے ملک کی معاشی حالت کو مظبوط سے مظبوط تر بنانے میں دن رات ایک کر دیا۔ جاپان نے معاشی طور پر مستحکم ہو کر اپنی ترقی اور مصنوعات کو دنیا کے لیے ناگزیر بنا کر اپنے امن کو یقینی بنا دیا۔ 

یہ بات یورپ کو بھی سمجھ آ گئی۔ اہل یورپ نے آپس میں طویل خونریز جنگیں لڑی تھیں، ایک دوسرے کے شہروں کو تباہ کیا لاکھوں لوگوں کو کئی بار تہہ تیغ کیا، قلعوں اور شہروں کو آگ لگا کر بھسم کیا، لیکن پھر انہیں سمجھ آگئی کہ ایک دوسرے کو تباہ کر کے لوٹ مار کر کے ہم کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ تیار کھڑی ملتی ہے۔ معاشی حالت یوں مظبوط نہ ہو گی، کچھ مختلف کرنا پڑے گا۔ پھر انہوں نے اپنی سرحدیں کھول دیں اپنی کرنسی ایک کر دی، عوام کو کام کرنے محنت کرنے اور کاروبار کرنے کے بہتر مواقع میسر آئے اور ترقی کا پہیہ چل پڑا، دفاعی اور جنگی اخراجات نہایت کم ہو گئے۔ عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا، اور ریاستیں فلاحی ریاستیں بن گئیں۔ آج پاکستان سے لاکھوں لوگ یورپ میں بہتر روزگار بہتر زندگی اور اپنے خاندان کی معاشی ترقی کے لئے جاتے ہیں، وجہ صرف ایک ہے کہ وہاں امن ہے جو استحکام کی ضمانت ہے۔ 

ہمارے خطے میں بدقسمتی سے عالمی طاقتیں پچھلی چار دہائیوں سے پنجہ آزمائی کرتی آرہی ہیں۔ اس جنگ و جدل کا تمام تر نقصان خطے کے ممالک کو ہوا ہے۔ افغانستان تباہ ہو گیا پاکستان دہشت گردی میں جکڑا گیا اور لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ سے پاکستانی معیشت  کا جنگ اور دہشت گردی میں برا حال ہو گیا۔ دیگر ممالک جیسے ایران، چین اور بھارت بھی یقیناً خطے میں عدم استحکام سے متاثر ہوئے۔ 

آج چین اس خطے کی اقتصادی ترقی کا عزم کئے ہوئے، ساری دنیا کو تجارتی تعلق میں باندھنے کے لئے پاکستان سے اقتصادی راہ داری کے عظیم منصوبہ پر کام زور و شور سے کر رہا ہے۔ یہ راہداری پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ترقی کے مواقع پیدا کرے گی اور اس کا لازمی نتیجہ خوشحالی ہے تاہم آج اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد معاشی ترقی و استحکام کی وجہ سے امن کی ضامن بن جائے گی۔ 

امن کے لئے آج ہمیں انفرادی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر عدم برداشت کے خاتمے سے ہی ہم معاشرہ میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اختلاف  کے باوجود تشدد کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہم تنگ نظری اور متعصبانہ رویوں کی حوصلہ شکنی کر کے رواداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے امن آئے گا، ڈر اور خوف کا خاتمہ ہو گا اور ہم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکیں گے۔ امن کے ساتھ ہی افراد، علاقہ ملک اور خطہ ترقی کر سکتا ہے۔ ہمیں امن کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا تاکہ اپنی ہی نہیں اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کی بنیاد مظبوط کر سکیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply