شادی ایک مصیبت کیوں؟۔۔۔۔حافظ صفوان محمد

اب جب کہ لڑکیوں کی تعلیمی میدان میں برتری مسلم ہوچکی ہے اور انھیں ملازمت و کاروبار کے بہتر مواقع مل رہے ہیں اور سکول کالج اور زیادہ سے زیادہ ڈاکٹری کی روایتی نوکری سے بڑھ کر وہ انجنیئرنگ، افواج اور انتظامی عہدوں اور پروفیشنل جابز کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار اور صنعتی یونٹ تک خود چلا رہی ہیں، ایسے میں وہ چشمارو حقیقت بن سامنے آگیا ہے جس کا ہم سے پچھلی نسل صرف سوچ سکتی تھی، یعنی عورت کے ہاتھ میں اپنا پیسہ آنے سے بدلنے والا سماجی توازن اور تلپٹ ہوجانے والی گرہستنی اقدار۔

عورت کی معاشی آزادی اور خود مختاری دراصل آزادی اسلام کا بنیادی اصول ہے جسے ہمارے لوگ عام طور سے بھولے ہوئے ہیں، اور جو نہیں بھولے ہوئے انھیں اسلام کے نام پر ایران توران کی سناکر بھلایا اور بہلایا جاتا ہے۔ حضرت محمد علیہ السلام کی کم و بیش گیارہ بیویاں تھیں جو سب کی سب مالدار تھیں جن کے اپنے اپنے گھر اور غلام لونڈیاں تھے جو ان کے لیے مدد معاش کا ذریعہ تھے۔ (حوالہ: Muhammad: His Life Based on the Earliest Sources ) آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ مکہ کی ایک مالدار کاروباری خاتون تھیں۔ امہات المومنین میں سے صرف ایک حضرت امِ سلمہ کا ہاتھ ذرا تنگ تھا اور ایک وقت آیا کہ نبیِ مکرم نے حضرت امِ سلمہ کو چھوڑنا چاہا تو انھوں نے اپنی باری حضرت عائشہ کو ہبہ کرکے اس رشتے کو ٹوٹنے سے بچایا (حوالہ: فضائلِ اعمال: حکایاتِ صحابہ)۔ القصہ خواتین کی معاشی آزادی اور خود مختاری اسلام کا بنیادی وصف ہے جس پر کسی بحث کی نہ ضرورت ہے اور نہ دلائل کی حاجت۔ انصار کی سبھی عورتیں کھیتوں میں کام کرنے اور دکانداری کرنے، سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے اونٹ کا چارہ کوٹنے اور پانی کی مشک بھر کر لانے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بیٹیاں ہتھیار بنانے کی گھریلو صنعت چلاکر یہ بحث ہمیشہ کے لیے ختم کرگئی ہیں۔ (حوالہ: ایضًا)

خواتین کی معاشی خود مختاری کے ساتھ جس چیز کا آج سامنا ہے وہ طلاق کی شرح کا بڑھنا ہے۔ خواتین کی زیادہ شادیوں کی روایات نبی کریم کے دور میں بھی عام ملتی ہیں اور ایک خاتون کے تو یکے بعد دیگرے چھہ نکاحوں کا ثبوت بھی ملتا ہے، اور صدرِ اسلام میں ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جو اپنے خواہش مند مردوں کے خود انٹرویو کرتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا وہی عورتیں کرسکتی ہیں جو معاشًا خود مختار ہوں۔ خود نبی کریم علیہ السلام کو بھی حضرت خدیجہ نے خود پیغام بھجوایا تھا۔ خود کمانے کھانے والی عورت کو غلام بناکر رکھنا ممکن نہیں۔ یہ پہلے بھی نہیں ہوا اور آج بھی نہیں ہوگا۔

جو خوفناک ذہن ہمارے سماج میں بہت غلط طور پر اور بڑی سرعت کے ساتھ پنپ رہا ہے وہ یہ ہے کہ والدین بچیوں کو پڑھاتے ہی اس نیت سے ہیں کہ وہ اپنے پاؤوں پر کھڑی ہوجائیں اور جب چاہیں شادی شدہ زندگی کو ختم کرکے آزاد ہوجائیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ اب شادی ہوتی ہی اس بنیاد پر ہے کہ یہ تعلق چلنے والا نہیں ہے اور کسی بھی دن الگ ہونا ہی ہونا ہے، اس لیے لڑکی بسنے کی نیت سے نہیں بیشتر آزادی لینے ہی کی نیت سے شوہر کے گھر جاتی ہے۔ چنانچہ ہو یہ رہا ہے چند ڈگریاں اور کورسز کرلینے اور خود کمانے والی خواتین کو شوہر کے لیے کھانا گرم کرنا اور اس کے اور بچوں کے کپڑے دھونا بھی ظلم دکھائی دینے لگا ہے۔ یہ “ظلم” سر سے اتار کر آزادی لینے والی کلاس باقاعدہ وجود میں آچکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دو دو تین تین بچوں کے ساتھ رہنے والی ماؤں اور بھائیوں بھابیوں کے سروں پر بوجھ بنی ہوئی بہنیں اور ان کے بچے اس وقت ہمارے سماج کا رستا ہوا ناسور ہیں۔ ان عورتوں کے بچے بچیاں معاشرے میں جو کچھ کر رہے ہیں ان کو لکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ مرد اگر عورت کی نسبت کم بھی کماتا ہے تب بھی ہمارے سماج کا پہیہ اسی کے دھرے پہ گھوم رہا ہے۔ یہ دھرا اگر نکال دیا جائے تو سارا نظام ہی زمین پہ آ رہتا ہے۔ مرد کے لیے “سر کا سائیں” ہمارے ہی سماج کی خوبصورت کہاوت ہے جو بے شک صدیوں کے تعامل سے وجود میں آئی ہے۔ اسی “سر کا سائیں” کو لکھی پڑھی آبادی میں “سرتاجِ من” کہا جاتا ہے جسے حضرت تھانوی نے اپنی بہشتی زیور میں جگہ دی ہے۔

ایک وقت تھا کہ ماں باپ لڑکی کو اعلیٰ تعلیم اس لیے دلاتے تھے کہ رشتہ اچھا ملے۔ زمانے کا پہیہ گھوما ہے تو اب حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ زیادہ پڑھ جانے والیوں کو رشتہ ہی نہیں ملتا۔ نیز مجھے کہنے دیجیے کہ ایسے والدین بھی کم نہیں ہیں جو لڑکیوں کو زیادہ تعلیم دلاتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ کل کو ان کا بوجھ اٹھائیں۔ کتنی ہی لڑکیاں ہیں جو صرف اس لیے گھروں میں بیٹھی رہ گئی ہیں کہ ان کے والدین نے ان کے لیے آنے والے رشتے محض اپنے بڑھاپے کے اکیل پن کی وجہ سے دھتکارے ہیں۔

زیادہ پڑھ جانے والی خواتین کا مسئلہ بالکل الگ ہے۔ سی ایس ایس کرکے چپڑاسیوں کے ساتھ شادی کرنے والیوں اور پی ایچ ڈیاں اور پوسٹ ڈاکٹریٹیں کرکے ناکام ازدواجی زندگیاں گزارنے والیوں کے بارے میں تو بات ہی نہ کیجیے۔ مجھے ایک سول سرونٹ نے جس کی بڑی بیٹی بہت اچھا کیریر بناکر شادی شدہ زندگی میں شدید خوار ہوئی، بتایا کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کو ایف ایس بھی نہیں، ایف اے کراکے بیاہ رہا ہے۔ اس نے یہ سبق اپنے ایک چپڑاسی سے سیکھا جس کی سات بیٹیاں کم عمری میں تلے اوپر بیاہی گئیں اور سبھی ٹھیک ٹھاک زندگی گزار رہی ہیں۔

چنانچہ جہاں بہت سے پڑھے لکھے مردوں نے ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی خواتین سے شادیاں کیں اور اچھی نبھا بھی دیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی عورت زیادہ پڑھ جائے تو کسی کو برداشت ہی نہیں کرتی۔ مرد کماتا ہے تو ادھر ادھر سناتا احسان جتاتا نہیں پھرتا لیکن عورت کماتی ہے تو بات بات پر اپنی کمائی کا طعنہ نہ صرف بیڈ روم میں بلکہ ہر آئے گئے تک کے سامنے سناتی ہے۔

مذہبی تعلیم یافتہ یعنی مدارس ہائے بنات کی فارغات التحصیلات کی بات کرنا چونکہ مداخلت فی الدین شمار ہوتا ہے اس لیے اس موضوع کو بحث سے باہر رکھنا چاہیے۔ صرف یہ یاد رکھیے کہ اگر آپ باپ ہیں اور آپ کو اولاد کے شرعی حقوق معلوم نہیں اور اگر آپ شوہر ہیں اور آپ کو بیوی اور ساس سسر کے شرعی احکام معلوم نہیں تو بیٹی/ بیوی کو زیادہ نہ سہی صرف مشکوٰۃ شریف پڑھوا دیجیے، یہ عظیم خواتین آپ کو چلتے پھرتے اور چائے کھانا رکھتے رکھتے صرف دو ماہ میں ساری شرع سکھا دیں گی۔ اگر کسی وجہ سے خواتین کو “اسلامی تعلیم” نہ دلا پائیں تو انھیں کسی بھی برانڈ کے درسِ قرآن میں بھیجنا شروع کر دیجیے۔ جو خاندان سات پشتوں سے اکٹھا رہتا آ رہا تھا، وہ صرف چھہ ماہ میں خدا کے فضل و کرم سے اسلام کے نام پر تقسیم ہوجائے گا اور بھائی بہنیں اپنا اپنا حق لینے کے لیے مقدمے فرماکر اتحاد بین المسلمین والمسلمات کے جھنڈے گاڑ رہے ہوں گے۔

جس شادی کی وجہ سے خاندان کا تعلق کمزور ہوتا ہو وہ شادی نہیں وقت گزاری ہے۔ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کو اپنے دوست رشتے داروں سے ملنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ یہ تو اصول ہے کہ جب بھی شوہر چڑچڑا رہنے لگے تو بیوی اس کو اس کے دوستوں کے ساتھ کہیں بھیج دے یا رشتے داروں سے ملنے ملانے کا سلسلہ بنائے۔ اس سے گھر کا ماحول بہتر ہوجاتا ہے۔ بیوی اگر ایسا کرے گی تو شوہر بھی اسے اس کی دوستوں سے ملنے جلنے میں حارج نہیں ہوگا۔ یہی ایک دوسرے کو سپیس دینا ہے۔ لڑکی کو بیوی بننا چاہیے نہ کہ قبضہ گروپ۔ بہت ہی ناکام ہوتی ہیں وہ بیویاں جو شوہروں کو ان کے دوستوں سے نہیں ملنے دیتیں اور اس کے رشتہ داروں کے آنے پر منہ بنانے لگتی ہیں۔ کامیاب بیویوں کا ایک مشترک اصول ہے کہ جب وہ دیکھیں کہ شوہر اکتا رہا ہے یا لڑ رہا ہے تو اس کو اس کے رشتے داروں سے یا دوستوں سے ملنے کو بھیج دیتی ہیں۔

اگرچہ یہ مضمون صرف لڑکیوں کے لیے ہے تاہم ایک چھوٹی سی لیکن انتہائی اہم بات بھی ذکر کر دوں جو مردوں سے متعلق ہے۔ عورتوں کے اکتا جانے اور طلاق مانگنے کی ایک وجہ مرد کی توند نکل آنا بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سی طلاقیں توند کی وجہ سے ہوتی ہیں، یعنی وہ شوہر جو مرد کم اور بھالو زیادہ دِکھتے ہیں وہ عنقریب رنڈاپا کاٹنے کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے سماج میں در آنے والی زود مذہبیت نے گھرداری کی جن خوبیوں کو بالکل عنقا کر دیا ہے وہ عورتوں میں گھر کو گھر بنانے، شوہر کے ساتھ زندگی گذارنے اور اس کو اپنا بنائے رکھنے کے طریقے ہیں۔ کامیاب گھریلو زندگی کے یہ نسخہائے کیمیا تعلیم، ڈگری اور معاشی خود مختاری سے نہیں، معاملہ فہمی اور “میں” مار دینے سے اثر کرتے ہیں ورنہ سونے میں پیلی کرکے بھیجی جانے والی بچیاں بھی منہ اٹھائے واپس آ رہی ہوتی ہیں اور بڑی بڑی ڈگریوں والیاں بچے انگلی سے لگائے یونین کونسلوں میں خوار ہوتی پھر رہی ہوتی ہیں جب کہ ان کی ملازمائیں بھرپور زندگی کے مزے اڑا رہی ہوتی ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام کے یہ سماجی جوہر مذہب سے نہیں، ثقافت سے جڑے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply