• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خان صاحب کا امریکی خیر مقدم اور چند (غیر) سنجیدہ حقائق ۔۔۔ معاذ بن محمود

خان صاحب کا امریکی خیر مقدم اور چند (غیر) سنجیدہ حقائق ۔۔۔ معاذ بن محمود

یہ اعتراض غلط ہے کہ خان صاحب کے دورے کو وہ عزت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کو ویسے بھی دورے پڑتے ہی رہتے ہیں۔ یہ دورہ بھی سر پر آن پڑا اس میں ایسا برا کیا تھا؟ ویسے کہنے والے کہتے ہیں کہ بڑوں کی موجودگی میں خان صاحب نے امریکی ائیرپورٹ پر اتر کر بس کو دیکھا، اور سردار کے کیلے کا چھلکا دیکھ کر “اوہ آج پھر گرنا پڑے گا” کی طرح “میرے جوانوں، آج پھر سے بس چلانی پڑے گی” کا نعرہ لگا کر ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ اللہ بھلا کرے شاہ محمود قریشی کا کہ کپتان کو نعیم الحق کا “نہ جواناں نہ” کا وائس نوٹ سنا کر واپس پیچھے والی سیٹ پر بٹھایا۔

دوسری بات یہ کہ اس دورے میں خان صاحب ایک عام مسافر کی طرح گئے ہیں۔ قطر ائیر ویز کی پرواز پر ایک عام مسافر کی طرح۔ لہذا ان کا استقبال بھی کوئی خاص نہیں ہوگا۔ میرے ماموں کا بیٹا کامران بتلاتا ہے کہ نواز شریف کے دور خبیثہ میں ہم امریکیوں کو رن وے سے رکشہ کرا کر دیتے تھے۔ خان صاحب کے دور میں اوبر اور کریم کا کاروبار خوب پھلا پھولا ہے، جو ایک الگ حقیقت ہے اور ہماری معاشی خوشحالی کی جانب کھلا اشارہ کرتی ہے (یہ اور بات ہے کہ اس اشارے کے لیے استعمال ہونے والی انگشت  بذات خود ٹھینگے کا نشان ہے)۔

تیسری بات یہ کہ خان صاحب عجز و انکسار کا وہ پیکٹ ہیں موری دار قمیض جن کی وجہ تسمیہ ہے۔ خاتون اوّل کا وہ انٹرویو تو یاد ہی ہوگا جس میں وہ بتاتی تھیں کہ خان صاحب کے پاس ایک ہی سوٹ ہے جسے وہ پہن کر گھستے رہتے ہیں اور خاتون اوّل اسی سوٹ کو گائے سوپ سے رگڑ کر مزید گھستی رہتی ہیں۔ پس مدینہ ثانی کے متولی کا (والی کے ہمراہ ہوتے) عجز و انکسار سے تر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ میرے ماموں کا بیٹا کامران یہ بھی بتلاتا ہے کہ خان صاحب عاجزی کے اس قدر مارے ہیں کہ قطر ائیرویز کی پرواز پر ایک عدد خچر ساتھ لے جانے کے درپے تھے۔ کہتے تھے قذافی اونٹ لے جا سکتا ہے تو گریٹ خان خچر کیوں نہیں لے جا سکتا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے جہازی عملے کا کہ واشگاف الفاظ میں ائیرلائن پالیسی بتلا ڈالی۔ “یا اخی، ھذا جہاز العام و فی موجود واحد خچر ممکن” (سر جہاز ایک وقت میں ایک ہی خچر لے جا سکتا ہے جو پہلے ہی کسی نے بک کیا ہوا ہے)”۔ خان صاحب نے ترچھی نگاہوں سے افسران بالا کو دیکھا اور “ہممممم” کہتے سیٹ پر بیٹھ گئے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ خان صاحب ایک دبنگ قسم کی شخصیت کے مالک ہیں۔ شیخ رشید احمد صاحب پہلے ہی اس بابت اپنے بدترین خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ مقتدر حلقوں میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ خان صاحب ٹرمپ کو مبادا “ٹرائل بائے کامبیٹ” کی آفر نہ کر دیں۔ ایسی صورت میں خان صاحب جیسے چست جان کو ہرانا ٹرمپ جیسے سست جان کے لیے ناممکن ہوگا۔ یوں ریاست پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑا پھر انہی ناتواں کاندھوں کو اٹھانا ہوگا۔ مقتدر حلقوں میں پہلے ہی نظریاتی سرحدوں پر باڑ لگانے کا پراجیکٹ جاری ہے، ٹرمپ کو ہرا دیا تو میکسیکو کے ساتھ نظریاتی دیوار بھی کھڑی کرنی ہوگی جس کا ملک اس وقت متحمل نہیں۔

پانچویں اور اہم ترین حقیقت وہی ہے جس کا اظہار آزادی اظہار رائے کا علمبردار امریکہ بہادر کر چکا ہے۔ حکومت کے مطابق خان صاحب کا یہ دورہ “آفیشل ورکنگ وزٹ” کے درجے میں آتا ہے جس کی دعوت امریکی حکام کی جانب سے دی جاتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ریاستی دوروں کی درجہ بندی میں اس قسم کے دورے اہمیت کے حساب سے “تھرڈ کلاس” مانے جاتے ہیں۔ اب تھرڈ کلاس دورے کا خیر مقدم بس میں ہو گیا بڑی بات ہے ورنہ ماموں کا بیٹا کامران تو یہ بھی کہتا ہے کہ امریکی کسی کسی کے استقبال کے لیے خود سے خچر بھجوا دیا کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس اے میرے اپگریڈڈ پاکستانی بھائیوں، میں بطور نئے پاکستان کے پرانا شہری اس بات پر یقین کامل رکھتا ہوں کہ خان صاحب کو خوش آمدید کہنے کا ہینو پاک بس طریقہ ہرگز ہرگز بے توقیری کا باعث نہیں۔ یہ ایک تاریخی مرحبا ہے جسے رہتی دنیا یاد رکھے گی۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply