پاکستان میں مکالمہ کا موضوع (ایک نکتہ نظر)

علم، عقل اور تہذیب کی موجودگی میں مکالمہ کی ضرورت سے بے نیاز صرف وہ جگہ ہوسکتی ہے جہاں مسائل نہ ہوں۔ انسان کو خدا نے عقل، فہم اور علم سے آراستہ کیا ہے اور ان چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر انسان اپنے آپس کے اختلافات کو مکالمہ کے ذریعے حل کرنے میں ناکام رہیں تو یہ درحقیقت انسانیت کی ناکامی کہلائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ افراد میں اشرف المخلوقات والی خصوصیات کی کمی کا شاخسانہ ہوگا۔ لہٰذا اگر واقعی "آج کا دور مکالمہ کا دور ہے" تو دراصل یہ انسانیت سے سینے پر سجا ایک میڈل ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تہذیب اور اقدار ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ دعوتِ مکالمہ کے پردے میں مناظرہ کی خواہش مستور نہ ہو۔
گذشتہ دنوں شادی کی ایک تقریب میں بارات کے انتظار کے دوران ساتھی اساتذہ اور طلبہ کی ایک محفل جم گئی۔ حسنِ اتفاق مکالمہ بین المذاہب کا موضوع چل نکلا۔ اس دوران ایک مسیحی خاتون کولیگ کی دلچسپ رائے سامنے آئی۔ ملاحظہ فرمائیے:
"مختلف خطوں اور مختلف حالات میں مکالمہ کا موضوع مختلف ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر یورپ اور امریکہ میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران اسلام جہاں مقبول ہوا ہے وہیں اسے بدنام بھی کیا گیا ہے اور ایسا صرف اسلام کے دشمنوں نے نہیں کیا ،بلکہ بہت سے مسلمان بھی اس عمل میں پوری طرح معاون رہے۔ نتیجہ یہ کہ وہاں مسلمانوں کے خلاف ایک تعصب کا ماحول پیدا ہوگیا اور آج وہاں کا مسلمان وہاں (چرچ کی طرف سے نہیں بلکہ) اکثریتی عیسائی آبادی کی طرف سے تعصب کا شکار ہے۔ وہاں "مسلمان" کو "دہشت گرد" کا دوسرا نام سمجھا جانے لگا ہے۔ وہاں مسلم اقلیت اور عیسائی اکثریت میں مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان قومی دھارے میں شامل ہوکر نارمل زندگی گزار سکیں۔
پاکستان میں البتہ صورتحال مختلف ہے۔ یہاں مسلمان اور عیسائی کے درمیان مذہبی بنیادوں پر کوئی مقابلے کی فضا نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کی قابلِ ذکر تعداد اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی طرف آرہی ہے۔ عیسائیوں کا کوئی شدت پسند گروپ مسلمانوں کے خلاف اور نہ ہی مسلمانوں کا کوئی شدت پسند گروپ عیسائیوں کے خلاف نبرد آزما ہے، البتہ مسلمانوں کے کچھ گروہ اس ریاست اور سماج کے خلاف ضرور مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا کہاجاسکتا ہے کہ یہاں کی مسلم سوسائٹی کو عیسائی یا عیسائیت سے کوئی خطرہ نہیں۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ یہاں عیسائی اپنے وجود کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہاں ایک عیسائی کیلئے بڑے سے بڑا خواب صوبائی یا قومی اسمبلی کی رکنیت کا ہوسکتا ہے جس کی بنیاد جداگانہ انتخاب کا طریق کار ہے۔ اگر یہ طریق کار نہ ہو تو ایک عیسائی عام انتخابات میں چند سو ووٹوں کا بھی تصور نہیں کرسکتا۔ ایسے میں یہاں پاکستان میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان مکالمہ کی خواہش کم از کم مجھے خاصی عجیب اور معاف کیجئے گا خاصی غیر فطری بھی لگی کیونکہ یہاں کے حالات اور مسائل مختلف ہیں۔
ہمارے ہاں سنگین ترین مسائل کی نوعیت سماجی ہے۔ مثال کے طور پر اسی محفل کو لیجئے۔ یہ محفل صرف اسلئے جمی ہے کہ ہم اپنی ایک سینئر ساتھی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے آئے مگر بارات اب تک نہیں پہنچی, اور بارات اسلئے لیٹ ہوئی کہ عین روانگی کے وقت انہیں احساس ہوا کہ ابھی لڑکی والوں کی طرف سے ہماری فلاں ڈیمانڈ پوری نہیں کی گئی اور اب ذرا دیر پہلے وہ ڈیمانڈ پوری ہونے پر بارات کی روانگی ممکن ہوسکی۔ دوسری مثال میری اپنی لیجئے۔ میں نے انیس برس کی عمر میں پڑھانا شروع کیا ، چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم، گھر کی تعمیر اور دیگر مالی مسائل میں والد کا ہاتھ بٹایا۔ اب جب دونوں بھائی برسرِ روزگار ہیں اور مجھ سے زیادہ کمارہے ہیں، اب بھی گھریلو اخراجات میں مجھے ہی والد کا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے، بھائیوں کی آمدنی انکے پلاٹس کی قسطوں اور گھروں کی تعمیر میں ہی پوری ہورہی ہے۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران میں نے بیک وقت سرکاری اور پرائیویٹ نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ شام کو اکیڈمی اور پھر گھر پر ٹیوشن پڑھا کر ایک گاڑی بھی خریدی جو میرے نام نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ بعد جب میری شادی ہوگی تو روزانہ سولہ گھنٹے کام کرکے جمع کئے ہوئے میرے نو دس لاکھ میں سے ہی میرا جہیز بنے گا، گھر کو نیا پینٹ کیا جائے گا، بہن بھائی میرے لئے اپنی پسند کے تحائف خریدیں گے اور جب میں اگلے گھر پہنچوں گی تو بالکل خالی ہاتھ ہوں گی۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ خوف الگ، کہ کہیں میری خریدی ہوئی گاڑی پر دونوں بھائیوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہی نہ ہوجائے۔ اگر میں نے اس ساری صورتحال میں مزاحمت کی تو اسکا نتیجہ صرف اور صرف یہ ہوگا کہ والدین کے گھر کے دروازے مجھ پر بند ہوجائیں گے۔
یہ دونوں رویے جو میں نے ذکر کئے، ہمارے سماج میں عام ہیں اور ایسا کرنے والا اگر مسلمان ہے تو اسے یہ اسلام نے نہیں سکھایا اور اگر عیسائی ہے تو اسے عیسائیت نے نہیں سکھایا۔ بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ اس قسم کے غیر منصفانہ رویوں سے دونوں مذاہب نے منع کیا ہوگا مگر یہاں ہم سماج کا حصہ ہونے کے ناتے اپنے ہی مذاہب کے خلاف کھڑے ہیں۔ اسلئے ہماری سوسائٹی کو مذہبی نہیں بلکہ سماجی بنیادوں پر مکالمے ضرورت ہے۔"

Facebook Comments

عین ضیاء
معلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply