• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزادی کے تحفے،فرقہ پرستی،دہشت گردی اور مارشل لاء

آزادی کے تحفے،فرقہ پرستی،دہشت گردی اور مارشل لاء

میں تو یہاں ایمسٹر ڈیم میں بیٹھ کر پاکستان کے یوم ِ آزادی کے حوالے سے اپنے اور اپنے ارد گرد یورپ میں بسنے والے ہم وطنو کے خیالات اور تاثرات جاننا چاہوں گا کہ میں تاریکی میں گم شدہ ایک ایسا فرد ہوں جو تاریک بھول بھلیوں میں شاید 70برسوں سے اپنی راہ تلاش کررہا ہے مگر ہوتا یوں ہے کہ ڈور کا سرا ہی نہیں ملتا۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک خواب دیکھ رہا ہوں اور وہ خواب بھی نیند کے گھیرے میں ہے،اور وطنِ عزیز کی فضا ہے کہ لاقانونیت کے بوجھ تلے سیاہی میں اور سیاہ ہوتی چلی جا رہی ہے،اور میں اس د ن کا منتظر ہوں جب کوئی ہاتھ دیے کی لو بڑھائے گا، اور چہار سُو روشنی پھیلے گی،مقدروں،نصیبوں اور فیصلوں کی روشنی ۔۔جو وعدوں اور اعلانوں کی مدھم روشنی پر چھائے گی، ہمیں آزاد ہوئے ستر برس ہوگئے ہیں لیکن بنیادی سوال ابھی تک معمہ بنے ہوئے ہیں۔۔

مثلاً یہ کہ اس آزادی کی نوعیت کیا ہے؟
اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟
یہ آزادی کس نے،کس سے حاصل کی؟
کون آزاد ہوا ہے؟
وہ کیسی اور کیا آزادی ہے جسے قائم رکھنے میں ہم مرے جا رہے ہیں؟
اس آزادی کا منشور کہاں اور کس نے تیار کیا ہے؟
اس کی حکمتِ عملی کیا ہے؟
اس آزادی کا فیصلہ کس نے اور کس نے نہیں کیا تھا؟
کیا دنیا اسے بھی آزادی کہتی ہے جو ہمارے نزدیک آزاد ی ہے؟
اس آزادی نے اب تک کون سے قلعے سَر کیے اور کتنے مقامات پر پسپا ہوئی؟
اس آزادی نے عوام کے دلوں میں ایمان و یقین،اخوت اور بھائی چارے کی کتنی شمعیں روشن کیں؟
یہ آزادی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ان کی سلامتی و استحکام کے لیے کتنی سُود مند ثابت ہوئی؟
اور یہ کہ اس"آزاد عوام "کی باگ دوڑ کن ہاتھوں میں ہے؟

گزشتہ برس انہی دنوں کی بات ہے کہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تھا، وہاں پر پاکستان کے کل اور آج کے بارے میں بہت سی کتابیں رکھی ہیں،اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹنا چاہیں تو نہ صرف تاریخ بلکہ کمپیوٹر بھی آپ کی مدد کرتا ہے،وہاں میں نے جو پڑھا،وہ کچھ یوں تھا۔۔
"ماؤنٹ بیٹن 13اگست کی سہ پہر کو دہلی سے کراچی پہنچا،اور اسی شام محمد علی جناح نے اس کے اعزاز میں عشائیہ دیا،ماؤنٹ بیٹن کی ایک جانب مس فاطمہ اور دوسری جانب بیگم رعنا لیاقت علی بیٹھی تھیں"۔ماؤنٹ بیٹن لکھتا ہے"یہ دونوں دہلی میں ہونے والی نصف شب کی رسومات کا ذکر کرکے میرا مذاق اڑاتی رہیں،کہ ایک ذمہ دار حکومت کو اتنے اہم معاملے میں جوتشیوں کے کہنے پر نہیں چلنا چاہیے"۔

چونکہ 14اگست 1947کی رات کی تقریبات سے پہلے دو سنیاسیوں اور جوتشیوں نے اپنے مذہبی طریقے کے مطابق پنڈٹ نہرو کو راج سنبھالنے کے لیے تیار کیا تھا، او ریہ کہ قدیم ہندوستان میں جب کوئی مہاراجہ سنگھاسن پر بیٹھتا تھا،تو سنیاسی اور پجاری اس قسم کی رسومات ادا کیا کرتے تھے،اس لیے 14اگست کی شام کو یہ رسم نہرو کی رہائش گاہ پر انجام دی گئی۔15اگست کی صبح قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر حلف اٹھا یا۔ حلف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے لیا۔ کوئی مذہبی تقریب ادا نہ کی گئی۔حلف کی عبارت سادہ مگر پُر تاثیر تھی،یہ عبارت اس سے بھی زیادہ سادہ اور مختصر تھی جو برطانوی حکومت نے تجویز کی تھی،برطانوی حکومت نے ہندوستان کے گورنر جنرلوں کے لیے حلف نامے کی یکساں عبارت تجویز کی تھی، پٹیل اور نہرو نے یہ عبارت من و عن منظور کرلی لیکن جناح نے اس سے اتفاق نہ کیا اور اپنے لیے علیحدہ عبارت تجویز کی،جس کی برطانوی حکومت نے توثیق کردی، اور 15اگست کو انہوں نے اسی عبارت پر حلف اٹھایا،متن یہ تھا۔۔

"میں محمد علی جناح باضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے آئین کا جو کہ قانوناً نافذ ہے،سچا وفادار اور اطاعت گزار رہوں گا، اور یہ کہ میں شہنشاہ معظم شاہ جارج ششم کے وارثوں اور جا نشینوں کا بطور گورنر جنرل پاکستان وفادار رہوں گا "۔
اس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کو شامل کیا اور اسے اولیت دی، اس کے علاوہ مجوزہ متن سے ایک اہم جملہ جسے جناح نے حذف کردیا۔یہ تھا۔۔۔"پس اے خدا میری مدد فرما"۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ قائداعظم کاروبار ِ حکومت میں مذہب کا عمل دخل پسند نہیں کرتے تھے۔وہ اس لیے آئین کی بالا دستی کو اولیت دیتے تھے،15اگست کو محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی کابینہ کے وزیروں کا حلف بھی اسی عبارت پر لیا تھا۔ اس میں فقط"باضابطہ اقرار رکرتا ہوں"کی جگہ"حلف اٹھاتا ہوں " کردیا گیا تھا۔آئین ساز اسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے قائداعظم نے اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی آئین سازی کا سنگ بنیاد ان الفاظ کے ساتھ رکھا۔ "خواہ آپ کا تعلق کسی مذہب،ذات یا عقیدے سے ہو اس کا امورِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا،آپ دیکھیں گے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہندو ،ہندو نہیں رہے گا،اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے،مذہبی اعتبار سے نہیں،کیوں کہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے،بلکہ سیاسی اعتبار سے کہ وہ ایک ملک و قوم کے شہری ہیں"۔

یہ قائداعظم کی پہلی پالیسی تقریر تھی،یہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔اس میں انہوں نے واضح طور پر امورِ حکومت اور سیاست کو مذہب سے بالکل جدا کردیا تھا،معروف دانشور و سیاستدان رفیق ذکریہ اپنی کتاب The man who devided india میں قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں ایک واقعہ لکھتے ہیں"جب پاکستان کی تخلیق کے بعد علما کے ایک وفد نے جناح سے ملاقات کرکے اس نئے ملک (پاکستان)میں شرعی نظام کا مطالبہ کیا تو مسٹر جناح نے پوچھا"
آپ کس شرعی نظام کی بات کررہے ہیں؟
حنفی؟حنبلی؟مالکی؟شافعی؟ یا جعفریہ؟۔۔۔میں قطعی اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا،اگر میں اس جھگڑے میں پڑا تو علما یہ کہہ کر حکو مت میں مداخلت شروع کردیں گے کہ وہ شرعی امور کے ماہر ہیں۔ حکومت کو علما ء کے حوالے کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

میرے خیال سے علامہ اقبال کی طرح جناح بھی کمال اتاترک کے مداح تھے، علامہ اقبال نے تو "فلسفہ الہیات کی تشکیل جدید"کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے یہ برملاء اعتراف کیا تھا کہ"تمام مسلم ممالک میں صرف ترکی ہی ایک ایسا ملک ہے جو نظریاتی تنگ نظری اور ادعائیت پسندی کی نیند سے بیدار ہو کر بیدار مغزی کا ثبوت دے رہا ہے،آج بیشتر ممالک مشینی انداز میں قدیم اقدار کو دہرا رہے ہیں، جبکہ ترکی آئینِ نو ء اور اقداراِ نوء کی تخلیق کر رہا ہے"۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں پاکستانی روزنامہ فرنٹئیر یونٹ کا حوالہ دے کراپنی بات ختم کرتا ہوں ۔25جنوری 1987کے انگریزی اخبار فرنٹئیر پوسٹ میں نامہ نگار محمد یحییٰ نے لکھا ہے کہ " قائداعظم محمد علی جناح نے انتقال سے پہلے بے حد مایوسی کے عالم میں لیاقت علی خان سے کہا تھا۔۔"کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ پاکستان ہم نے تخلیق کیا ہے؟میں نے پاکستان بنایا ہے لیکن اب میں قائل ہوگیا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی،اب اگر مجھے موقع ملے تو میں دہلی جاؤں گا اور جواہر لعل نہرو سے یہ کہوں گا کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کردیں اور پھر سے دوست بن جائیں۔"

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply