مون سون اور پانی ۔۔۔۔جاویدخان

ہمالیہ دنیا کا مہان پربت ہے۔کئی دیومالائی داستانیں  اس سے جُڑی ہیں۔لمبا،چوڑا اور بہت ہی پھیلا ہوا۔اندازاً7 سے0 1کروڑ سال پہلے یہ وجود میں آیا۔کئی اندازوں کی طرح،ہمالہ کی عمر کے بارے میں بھی یہ ایک اندازہ  ہے۔کہتے ہیں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے اٹھنے والی ہوائیں،جو آبی قطروں سے بھری ہوتی ہیں،اوپر کو اٹھتی ہیں تو ان کایہ سفر ہمالہ سے ٹکرانے کے  بعد تمام ہو جاتا ہے۔یہ نیم گرم قطرے واپس ہمالیائی وادیوں میں چھم چھم برسنے لگتے ہیں۔ناصرف ہمالیہ بلکہ سارے جنوبی ایشیا میں بارشیں برساتے ہیں۔ہمالہ ایشیا کے سینے پر کھڑا شاداں و نازاں ہے۔ 7 کروڑ سال قبل اگر ہمالہ کاجنم نہ ہوتا تو،آج اس خطے میں مون سون ہوتا نہ تروتازہ سبزی،جس کو انسان اور ان کے ریوڑ چرتے ہیں اوردودھ جیسی نعمت دیتے ہیں۔نہ اتنی خوب صورت وادیاں ہوتیں ،نہ اتنے شفاف دریاہو تے،نہ فطرت مسکراتی نہ فطرت پرست ہوتے۔زندگی یوں نہ ہوتی۔ہم ہمالیہ کے بے حد مشکور ہیں۔

مون سون سے قبل دھرتی کا سبز چہرہ مرجھا گیا تھا۔انسان،حیوان،چرند پرند اور گھاس پانی کو ترس گئے تھے۔ایساپہلے بھی ہوتا آیا ہے۔جون اور ابتدائی جولائی میں جب حدت نباتاتی دنیا کو بے جان کر دیتی تو ہمالیا ئی زندگی کے باسی یقین رکھتے تھے کہ مون سون آنے والا ہے۔وہ اس بات سے نا واقف تھے کہ ہمالیہ خلیج بنگال سے اٹھنے والی باغی ہواؤں کے سامنے سینہ تان کر کھڑ ا ہے اور بخارات سے لدی یہ ہوائیں،ہمالہ سے ٹکرا کر یہاں برسنے لگتی ہیں۔وہ بس اپنی اپنی زمینوں کو،جن پر فصلیں کھڑی ہوتی تھیں،سے جَڑی بوٹیاں تلف کرتے،کھیتوں کے کنارے بنی فالتو پانی کی نالیاں صاف کرتے انھیں گہرا کرتے،ان کا رخ زمینوں میں بنے تالابوں کی طرف موڑ دیتے۔اضافی و فالتو پانی ان تالابوں میں جمع ہو جاتا۔

اس کے دو فوائد ہوتے۔۔ایک تو مویشیوں کے لیے ایک عرصے تک یہ پانی کام آتا رہتا۔دوسرا یہ پانی زمین میں برابر رستا رہتا تھا۔یوں زیر زمین پانی کا لیول گرنے نہ پاتا۔فصلیں،سبزہ،درخت کافی عرصہ تک یہ پانی پیتے رہتے۔یہاں تک کہ دسمبر سے مارچ تک سرما کی بھاری برفیں شروع ہوجاتیں ۔زمین پانی سے خالی نہ ہوتی۔جھرنے،چشمے،آبشاریں اور ندیاں جاری رہتے۔صرف جون کی تپش،سبزے سے پانی نکال لے جاتی۔بخارات،مون  سون،تالاب،زیرزمین پانی کاذ خیرہ ہونا،پھربرفیں،فطرت کا چکر جاری رہتا اور نظام آب،کبھی بڑی دقت کا شکار نہ ہوتا۔

 

موسم۔۔کسانوں کا ٹائم ٹیبل ہوتے ہیں،بالکل فطری ٹائم ٹیبل۔لوگ اس ٹائم ٹیبل کے سختی سے پابند تھے۔ذرا سی سستی ان کی زندگی دشوار کر سکتی تھی۔مثلاًوقت پر کھیتیاں نہ بو نا،ان سے جڑی بوٹیوں کاتلف نہ کرنا،کھیتوں کے کنارے نالیوں کادرست نہ ہونا،پانی ذخیرہ نہ کرنا اور وقت پر کٹائی نہ کرنا۔کسی ایک جگہ پر سُستی سارے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیتی۔یہ پہلے کے اور بہت پہلے کے دن تھے۔یہ سارے کام ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے،نے ضرورت مندوں کو سکھائے تھے۔تب یونی ورسٹیاں نہیں تھیں۔لوگ سائنسی طریقوں سے واقف نہیں تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مون سون پھر آگیا ہے۔دریاؤں میں طغیانی ہے۔ندی نالے بپھر گئے ہیں۔زمینیں کھسک رہی ہیں۔مون سون کاپانی فطرت کا عظیم تحفہ ہے۔یہ ان دو ماہ میں ہمیں بے بہا پانی دے جائے گا۔ماضی کے مقابلے میں ہم زیادہ بہتر ہیں۔ہمارے پاس یونی ورسٹیاں ہیں۔ادارے ہیں،بہتر معلومات ہیں۔ ہماری زمینوں سے پانی بہت نیچے چلاگیا ہے۔دن بہ دن یہ مزید نیچے اتر رہا ہے۔کیا ہم اس کا  لیول بلند کر سکتے ہیں۔؟اپنی زمینوں میں چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر۔۔؟حکومتیں اور رفلاحی ادارے چھوٹے بڑے ڈیم بنا سکتی ہیں۔دنیا کا عظیم پربت ہمالیہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔بحیرہ عرب اور خلیج بنگال کھڑے ہیں۔مون سون کھڑا ہے۔ماضی کا کسان ناتواں تھا،اکیلا تھا۔مگر اس کی زمین طغیانی سے محفوط تھی،لہلہاتی تھی اور خشک سالی سے دُور رہتی تھی۔اس کی زمین پر تالاب تھے،نکاسی کا بہترین نظام تھا۔مون سون برسنے آیا ہے اور بہنے آیا ہے۔ہم پر ہے،ہم اسے سیلاب بننے دیں یا پھر نعمت۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply