جنت اور لائبریری۔۔۔۔ فرحان شبیر

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گراں کشاہے رازی نہ صاحبِ کشاف
آپ نے جنت میں لائبریری کا پوچھا ہے تو آپ کے لیے عرض ہے کہ جس جنت کاذکر خدا اپنے کلام میں کرتاہے وہ کلام خود ایک کتاب کی صورت میں ہے اور یہ الہامی کتاب ایسی ہے جو غور و فکر ، عقل و شعور سے کام نہ لینے والوں کو سرے سے انسان ہی نہیں مانتی بلکہ وہ انہیں جانوروں سے بھی بد تر قرار دیتی ہے ۔
یہ وہ کتاب ہے جو عام زندگی کو تو چھوڑیں ، میدان جنگ میں بھی غور و فکر کا دامن سختی سے تھامے رکھنے کی تاکید کرتی ہے یہ کتاب جنگ بدر میں کفار کی ناکامی اور شکست کی بنیادی وجہ غور و فکر سے کام نہ لینا بتاتی ہے۔یہ کتاب جماعتِ مومنین سے کہتی ہے کہ تم میں 100بھی، دشمن کے ہزار پر غالب آئیں گے ۔ اور یہ اس لیے کہ “ فریقِ مخالف عقل و فکر سے کام نہیں لیتا “ سورہ انفال آیت 65

یہ کتاب قرآن مجید فرقانِ حمید کہلاتی ہے جو اس کائنات میں خدا کا کلام ہے ۔ اُس کا آخری پیغام ہے جو اُس نبی کریم (ص) کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے کہ جن کا فرمان تھا کہ “علم حاصل کرو ماں کی گود سے لیکر قبر کی آغوش تک چاہے اس کے لیے چین بھی جانا پڑے “۔

یہ کتاب مذہب کے اسٹیج سے دعوت دیتی ہے لیکن دیگر مذاہب کے برخلاف اس کائنات کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بناتی ہے اور اس مادی دنیا سے دور بھاگنے، اسے قابلِ نفرت سمجھنے کی روش کی سختی سے تردید کرتی ہے بلکہ اسے کفر قرار دیتی ہے ۔

ویسے تو قرآن کریم کا ایک ایک لفظ اپنی جگہ چٹان کی طرح محکم اور علم کا خزانہ ہے اور گو کہ یہ کوئی سائنس کی کتاب نہیں لیکن اسکے باوجود بھی قرآن کریم میں سات سو پچاس کے قریب آیات یعنی قرآن کا آٹھواں حصہ مظاہر فطرت یعنی سائنس سے متعلق آیات پر مشتمل ہے جس میں پیور سائنسز سے وابستہ علوم یعنی فزکس ، بیالوجی ، سائیکولوجی اور دیگر کئی علوم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ان تمام مظاہر فطرت کا مطالعہ کرنے والوں کو ہی صاحبانِ عقل و بصیرت اور مومنین کہہ کر پکارا گیا ہے ۔

علمِ انسان کا پہلا درجہ ، علم بذریعہ حواس ( perceptual knowledge ) کا ہے ۔اسکے بعد دوسرا درجہ تصوراتی علم ( conceptual knowledge ) کا ہے اور یہ سب “عقل اور فکر “ کی بدولت ہے جو خالص انسانی خصوصیت ہے ۔ اس میں کائناتی مخلوق میں سے کوئی اور شریک نہیں ہے ۔ قرآن واضح الفاظ میں بتاتا ہے کہ جو لوگ اس امتیازِ خصوصی(عقل) سے کام نہیں لیتے وہ بد ترین مخلوق ہیں
“ اللہ کے نزدیک بدترین خلائق وہ لوگ ہیں جو بہرے ، گونگے بنے رہتے ہیں اور عقل و فکر سے کام نہیں لیتے “۔ سورہ انفال بائیسویں آیت 8/22

وہ جہنم کا ایندھن بننے والوں کی خاصیت یہ بتاتا ہے کہ انکے قلب تو ہوتے ہیں لیکن سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، انکی آنکھیں ہوتی ہیں لیکن دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، انکے کان تو ہوتے ہیں لیکن سننے کا کام نہیں لیتے ۔ یہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہیں ، بلکہ ان سے بھی گۓ گزرے “ سورہ اعراف آیت 179
اہلِ جہنم کے متعلق دوسرے مقام پر ہے کہ “ یہ لوگ کہیں گے کہ اگر ہم ہوش و حواس سے کام لیتے تو آج جہنم میں کیوں ہوتے ؟ “ 67/10

یہ کتاب یونانی فلسفےاورافلاطون کے طلسم کے برخلاف حواس سے حاصل کردہ علم کو قابلِ بھروسہ قرار دیتے ہوۓ علم کی دنیا میں تجرباتی طریقہ علم کی بنیاد رکھتی ہے جو موجودہ سائنس کی بھی بنیاد ہے ۔اس سے پہلے سقراط اور افلاطون کے فلسفے کے زیر اثر حواس سے حاصل کردہ علم ناقابل اعتبار تھا کیونکہ اس فلسفے کے تحت یہ مادی کائنات ایک واہمہ ، خیال ، عالمِ امثال یعنی کسی حقیقی کائنات کا عکس تصور کی جاتی تھی لہٰذا کسی توجہ کے قابل بھی نہیں قرارپاتی تھی۔

قرآن نے تحدی کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ کائنات حق ہے یہ کوئی خیال ، واہمہ یا کھیل تماشہ نہیں ہے ۔it exists ، لہٰذا اے بنی نوعِ آدم ہم نے آدم میں اشیا کی حقیقت اور انکا علم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھی ہے اس بیش بہا صلاحیت سے جانور محروم ہیں تم اسکا فائدہ اٹھاؤ اور اس کائنات کو مسخر کرو ۔

اس زمین پر چلو پھرو ، ستاروں کی گردشوں اور دن اور رات کے بدلنے پر غور کرو یعنی فلکیات ، فزکس ، قوانٹم فزکس اور اس راہ کے تمام علوم حاصل کرو ۔ نہ صرف فزکس میتھس بلکہ اپنی پیدائش انواع و اقسام کے حیات اور ان میں تنوع کو سمجھنے کے لیے بیالوجی اور اس سے متعلقہ تمام علوم حاصل کرو ۔
جیالوجی بھی پڑھو اور دیکھو کہ کیسے ہم نے پہاڑوں کو ابھارا پلیٹ ٹیکٹونکس سمجھ آجائیگی اور دیکھو کہ کیسے پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی تہوں سے زمین پہ گزرنے والے خشکی اور تری کے کتنے مراحل اور کتنے لاکھوں سالوں کا حساب ملتا ہے ۔
یہ ستاروں کی گزرگاہوں اور نجوم کا ذکر جنتری اور منتری کے لیے نہیں کیا بلکہ اس کائنات کی تخلیق کی کھوج لگانے اور انکی روشنی میں چھپے کائنات کے ماضی کو کھوجنے پر اکسانے کے لیے ہیں ۔اور یہ سارا کچھ اِس لیے  تاکہ تم یہ مان لو کہ اس کائنات میں جتنا نظم و ضبط ہے کہ یہ عظیم الشان کائنات ایک uniformity کے ساتھ روبہ عمل ہے اور اسکی بنیادی وجہ خود اس کتاب کے مطابق اشیاء  کائنات کا ان کائناتی قوتوں کا خدا کی پروگرامنگ کے لحاظ سے execute ہونا ہے

لہٰذا جس طرح یہ کائنات خدا کے بناۓ گۓ laws of nature کی پابندی کرنے سے اپنے ارتقائی مراحل طے کیے جارہی ہے تو اسی طرح انسانوں کی ذات کی نشوونما اور ارتقائی  مراحل بھی اسی خدا کے قوانین کے مطابق طے ہوں گے , اس طبعی کائنات کی طرح تم انسانوں کی دنیا میں بھی اگر تم اُسی خداۓ علیم و خبیر کے قوانین پہ اپنی زندگی کی بنیادیں اٹھاؤگے تو یقیناً  دنیا میں بھی غلبہ و استحکام پاؤ گے اور آخرت میں جنت بھی ملے گی اور اس میں لائبریری بھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہٰذا تم دیگر مذاہب میں ہونی والی تحریفات کے نتیجے سے پیدا نظریات کے تحت اس دنیا سے دور بھاگنے ، اس سے نفرت کے روئیے کو ترک کرو ۔اسے ایک حقیقت سمجھتے ہوۓ اس کے لب و عارض کو سنوارو اسکی نوک پلک درست کرو اس سے کام لو ،ڈیم بناؤ، بجلی پیدا کرو ،ادویات بناؤ ،خلاؤوں کو مسخر کرو تاکہ تمہیں تمھارے نبی کی دعا کے مطابق پہلے اس دنیا اور بعد میں آخرت میں بھی خوشگواریاں نصیب ہوں لیکن یہ یاد رکھنا اگر کہیں تسخر کائنات کے فریضہ اور علم کی دنیا میں پیچھے رہ گۓ تو پھر ذلیل و خوار ہی رہوگے ۔ اور یہاں کا اندھا وہاں کا بھی اندھا ہوگا ۔ پھر نہ لائیریریاں کام آئینگی نہ ان میں رکھی مصنفوں کے دستخطوں والی کتابیں۔کیونکہ
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے رازی نہ صاحب کشاف!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply