چئیرمین ایچ سی کے نام ایک خط۔۔۔۔عدنان وحید

محترم چئیرمین ایچ ای سی۔

میں آپ کی توجہ ایک ایسے معاملے کی طرف مبذول  کروانا چاہتا ہوں جس کو آج کی ہماری تعلیمی دنیا مکمل طور پر نظرانداز کر چکی ہے۔ میری عمر شاید آپ کے تجربہ کے بھی برابر نہ ہو لیکن پھر بھی مجھے آجک کے ہمارے تدریسی نظام سے جو مایوسی ہوتی ہے۔ وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

فدوی بارہ سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے شعبہ تدریس سے منسلک ہے۔ جب کہ  اس سے قبل پاکستان، جرمنی اور سویڈن کی بھی سوفٹ وئیر انڈسٹری میں کام کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چار سال پاکستان میں تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے باہمی ربط پر بھی کام کر چکا ہے۔  میں اپنے اس ادنٰی سے تجربہ کی بنیاد پر کچھ گزارشات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

۱۔  پاکستان جن حالات سے اس وقت گزر رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان کی جامعات میں انڈَر گریجویٹ کا مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔

۲-  چار سال تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے باہمی ربط کی کوششوں کے دوران جو چیز میرے سامنے آئی ہے کہ ہر سال پاکستان کی ایک جامعہ اوسطً 200 گریجویٹ پیدا کرتی ہے۔ لیکن ان 200 میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو بغیر کسی جدوجہد کے نوکری مل جائے۔ اُن کی نوکری کی تلاش میں بھی وہ ص اس کامیاب ہوتے ہیں  کہ وہ انڈسڑی میں اپنا وجود قائم رکھ سکیں۔ جب کسی نجی ادارے سے  ایک سال کا پیشہ وارانہ کورس کرتے ہیں۔

۳- انڈر گریجویٹ کے طالبعلموں کو نوکری نہ  ملنے کی ایک بہت بڑی وجہ تدریسی اداروں میں امتحانات کی وہ دوڑ ہے جس کا رتی بھر تعلق بھی انڈسٹری کے ساتھ نہیں ہے۔ پی ایچ ڈی  اسکالر 98فیصد  ایسے لوگ ہیں جو نوکری نہ  ملنے کی وجہ سے تعلیمی شعبہ سے منسلک رہتے ہیں اور پھر ماسٹرز سے ڈاکٹریٹ تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر یہی لوگ جامعات میں تدریسی شعبہ سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اِن لوگوں کو بیرونی دنیا(مارکیٹ) کا کچھ خاص علم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے جامعات نے اپنا نصاب انڈسٹری کے بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق ڈھالنے کا سوچا ہی نہیں۔

۴- بیشک پی ایچ  ڈی   لوگوں کا بھی تدریسی شعبہ میں ہونا لازمی ہے۔ لیکن انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جن طالبعلموں کو وہ پڑھانے جا رہے ہیں کل کو انہوں نے ہی انڈسٹری میں جا کر کام بھی کرنا ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں زیادہ تر  پی ایچ ڈی  والے تدریسی شعبہ سے منسلک ہیں۔ جن کا انڈسٹری سے کبھی واسطہ ہی نہیں رہا ہے۔

۵-گزارش یہ ہے کہ صرف پیپر کی بھاگ دوڑ میں جامعات ماسٹرز اور پھر ڈاکٹریٹ کرنے والے طالبعلموں پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔ جس سے جامعات میں انڈر گریجویٹ کا بہت اہم حصہ نظرانداز ہو رہا ہے۔

۶- میرے خیال میں پاکستان میں اس وقت ریسرچ بھی ہونی چاہیے۔ لیکن ریسرچ کے ساتھ ساتھ بلکہ یوں کہوں تو  غلط  نہ ہو گا کہ ریسرچ سے بڑھ کر توجہ انڈرَ گریجویٹ پر دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہمارے انڈرَ گریجویٹ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کل کو انڈسٹری میں جا کر آسانی سے کام کرسکیں۔ پھر وہ اچھے ماسٹرز اور  پی ایچ ڈی  اسکالر بن سکیں۔

۷- جامعات کی رینکنگ پیپر پبلش ہونے سے ختم کرکےانڈرَ گریجویٹ کی Job Placement اور entrepreneurship پر رکھی جائے تو مجھے یقین ہے علمی اداروں میں یہ بحران حل ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۸- میری آخر میں HEC سے بھی ایک گزارش ہے۔ جو فنڈنگ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے لیے کی جاتی ہے وہی فنڈنگ اگر تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے باہمی ربط پر کر دی جائے تو اس سے بہت بہترین اور دور رس نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

Adnan Waheed
اسسٹنٹ پروفیسر عدنان وحید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کمپیوٹر سائنس یونیورسٹی آف نارووال

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply