عید کے دن کے روٹھتے ہوئے رنگ۔۔۔محمد انس

عید کے تینوں دن بہت سی خوشیاں ،مسکراہٹیں،کچھ شوخیاں و سرمستیاں اپنے دامن میں لیے رخصت ہو چکے جیسے جیسے زمانہ اپنی چال چلے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے  ویسے ویسے  رشتوں کی چاشنی،محبتوں و مودتوں کا ذائقہ بھی پھیکا پڑھ رہا ہے۔عید کا دن جسکا سال بھر بڑے اہتمام سے انتظار کیا جاتا تھا اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے.
رشتوں کی لطافت بزرگوں جوانوں اور بچوں کی ترتیب سے جڑی رنگا رنگ ڈشوں سےسجی میز کیساتھ وہ کھلی ڈھلی بیٹھک،سال بھر کی یادیں،کھانوں کے مختلف ذائقے،پکوانوں کے وہ نرالے رنگ، چاٹ و شیرینی کی البیلی قسمیں یہ سب رنگ ہر گزرتے سال کے ساتھ ساتھ مانند پڑتے جا رہے ہیں.نہ وہ چہچہاہٹ رہی اور نہ ہی وہ رونقیں رہیں ،شوخیاں یادوں کی بارات، بیٹھنے بٹھانے ملنے ملانے ،ہنسنے مسکرانے، شوخیوں کے رنگ میں کچھ نئی  دنیا کے ورودھ،کچھ کھوکھلے رشتوں، دلفریب لگاوٹ،انفرادی عید کے چسکوں نے گھروں میں ویرانی کے ڈیرے ڈال دیے ہیں اوپر سے انٹرنیٹ نے اس پر پٹرول چھڑک کر مزید جلتی کا کام کیا.

ابھی اتنا وقت تو نہیں گزرا کہ گاؤں میں عید خاندان کے بڑے بزرگوار کے گھر اجتماعی طور پر منعقد کی جاتی جہاں مختلف اطراف سے رشتے کھینچے چلے آتے تھے، جہاں بچپن سے پچپن تک کی دنیا کا نظارہ کروایا جاتا ،جہاں ابھی تک انٹرنیٹ کی بدعت نے یوں گستاخی نہیں کی تھی کہ صاحب محترم بھری محفل میں آس پاس کی دنیا سے بےخبر کمال بےنیازی سے مشغول کسی سوشل نیٹ ورک پر مصروف  ہوں. لطائف کی دنیا آباد کی جاتی برسوں کے تار چھیڑے جاتے. ہر ایک اپنے پہلو میں کچھ نہ کچھ انوکھی داستان لیے بیٹھا ہوتا۔

جہاں کبھی خاندانی طور شدید سیاسی مخالفین شیروشکر ایک گھاٹ میں پانی پیتے نظر آتے. سیاست نے ابھی باہمی رشتوں اور دوستیوں کو زنگ آلود نہیں کیا تھا اگر کوئی نقطہ ہائے نظر زیر بحث آ ہی گیا تو ہلکی سی پھلجھڑی پھینک کر سب اس سے محظوظ ہونے کی کوشش کرتے .

جہاں تذلیل ضد و انا و عصبیت کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا. جہاں ابھی مسلک کا زہر لوگوں کی رگوں میں نہیں اترا تھا کہ گھروں و حجروں کے دروازے تک غیروں کے لیے مقفل کر دیے جائیں .وہ جاہل نسل تھی کہ جہاں باہمی رواداری رشتوں کی پاسداری نے اصول و اخلاقیات کے تقدس کو پامال نہیں کیا تھا بڑوں میں عیدی دینے کا سماں ہوتا جس سے بچوں کی چاندی  ہو جاتی. قلفوں سے لیکر پٹاخوں و غباروں تک ایک ایک پائی  خرچ کی جاتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب تو بھلا ہو روشنی کا دور آ چکا ہے جسے ہم بالفاظ دیگر مہذب دور بھی کہہ سکتے ہیں جس نے بڑی قیامت یہ ڈھائی کہ عید کو الگ تھلگ گھروں اور کمروں تک محدود کر دیا۔.دیواریں اونچی ہو گئیں جوان انٹرنیٹ میں سر دیے مشق ستم ڈھا رہے ہیں   اور پرانے بزرگوں کی عید چارپائی پر یونہی اونگھتے اونگھتے بیت جاتی ہے۔
پیار بھری محفلیں اجتماعیت کے رنگوں میں رنگی بیٹھکیں ،رشتوں کی لذت باہمی محبت و پیار سب کو انفرادیت کا گھن مسلسل چاٹ رہا ہے.
ان گزرے وقتوں کے رشتوں کی قدر کیجیے کہ اب زمانہ پوری طرح اپنی چال چل چکا ہے.

Facebook Comments

محمد انس
سچائی کی تلاش میں سرگرداں ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply