خط اُس بچے کے نام جس نے ابھی پیدا ہونا ہے۔۔ علی نقوی

اٹلی کی ایک مشہور پولیٹیکل انٹرویور اور صحافی گزری ہیں جن کا نام اوریانا فلاشی تھا، سن 2006 میں 77 سال کی عمر میں اٹلی کے شہر فلورنس میں ان کا انتقال ہوا اس خاتون نے دنیا کے بڑے بڑے سیاست دانوں جن میں یاسر عرفات، ذوالفقار علی بھٹو، شاہ آف ایران، ہینری کیسینجر سمیت کئی دوسروں کے یادگار انٹرویو کیے ہیں ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے letter to a child never born اس کتاب کا ہمارے استادِ محترم جناب خالد سعید نے  “خط اُس بچے کے نام جو کبھی پیدا نہ ہوا” کے نام سے ترجمہ کیا تھا، آج کے اس کالم کا ٹائٹل میرے دماغ میں وہیں سے آیا۔

آج میرا دل کیا کہ آنے والی نسلوں کے نام ایک خط لکھ رکھوں، شاید آج سے پچاس یا سو سال بعد کوئی بچہ جب یہ پڑھے تو میری رائے جان سکے، آئیے خط شروع کرتے ہیں۔

آئے آنے والے بچے تجھے میرا شکستہ سلام
میرے نزدیک دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے ایک غریب اور دوسرا امیر، اگر تو تم امیروں کے گھر میں پیدا ہونے والے ہو تو میری یہ اوقات نہیں کہ میں تم سے بات بھی کر سکوں، نصیحت تو دور کی بات ہے، تمہارے لیے ہر راستہ کھلا ہوا ہے، ہر کام آسان ہی نہیں مزے دار بھی ہے، اگر تم کسی حکمران گھرانے میں پیدا ہونے والے ہو تو میں ابھی سے تمہیں حکمرانی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اگر امیتابھ بچن تمہارے دادا اور تم ایشوریا رائے کی اولاد ہونے والے ہو تو تمہاری جنس پر لگنے والی شرطیں لوگوں کو کروڑوں کا فائدہ دینے والی ہیں، اگر تم شاہ رخ خان کے بیٹے بننے والے ہو تو تمہیں ماں کی کوکھ کی ضرورت بھی نہیں ہے مشین ہی تمہیں پیدا کر دے گی اور اگر تم کرن جوہر کے گھر پیدا ہونے لگے ہو تو تمہیں ماں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔ لیکن میرے بچے تم میرا مخاطب نہیں ہو کیونکہ میں ان گھروں اور خاندانوں کے طرز زندگی کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ جہاں تم پیدا ہونے والے ہو، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ان گھروں کے مسائل اور آسائشیں کیا ہیں ،تو میں تم سے کیا بات کروں؟؟ میرا مخاطب وہ بچہ ہے کہ جو کسی کلرک کے، دیہاڑی دار مزدور کے، کسی بیوہ کے (کہ جس کا شوہر کسی جلتے ہوئے بھٹے میں ڈال دیا گیا تھا) کسی ایسی عورت کے کہ جس نے زچگی کے نویں ماہ تک گھروں میں کام کیا تھا، کسی ایسی ماں کے کہ جو ہر روز اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ہاتھوں پٹتی رہی ہے، کسی ایسی عورت کے کہ جو جب سات سال کی تھی تو اسکو کسی کوٹھے پر بیچ دیا گیا تھا، کسی ایسی عورت کے کہ جس نے یہ زچگی اس خوف میں گزاری کہ اگر اس بار بھی بیٹا نہ ہوا تو اس کے سسرال والے اسکو اور اسکی اولاد کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے، کسی بیوقوف غریب محبوبہ کے کہ جس کو تمہارا باپ کسی غلیظ اور گھٹیا قسم کے ہوٹل کے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا تھا، کسی ایسی عورت کے کہ جس کا گینگ ریپ ہوا تھا، کے گھر پیدا ہو رہے ہو تو تم میرا مخاطب ہو۔۔۔

سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ جن گھروں میں تم پیدا ہونے جا رہے ہو تمہارا لڑکا ہونا تمہاری وقعت کو بڑھائے گا، یہ بھی ممکن ہے کہ جنس کے پتہ چلنے کے بعد اگر تم لڑکی نکلے تو اس دنیا میں آ ہی نہ پاؤ، تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں بہت کم لوگ ہیں کہ جن کو اولاد صرف اس لیے چاہیے کہ وہ اس سے پیار کر سکیں اس کی خوشیاں دیکھ سکیں باقی زیادہ تر وہ ہیں کہ جو اولاد کو فیوچر انوسٹمنٹ سمجھتے ہیں اور انکا خیال ہے کہ لڑکا اچھی انوسٹمنٹ ہوتا ہے، لڑکی تو بوجھ ہوتی ہے پرایا دھن، جس کو ایک نہ ایک دن بھاری بھرکم جہیز دے کر رخصت کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو وہ دو بچے لے کر واپس بھی آ سکتی ہے جو ہمارے بوجھ میں مزیذ اضافہ کر دے گی ،لہٰذا لڑکا ہونا چاہیے۔

آؤ ذرا پہلے میں تمہیں مختصراً یہ بتا دوں کہ اگر تم لڑکی ہوئے تو کیا کیا سہنا پڑ سکتا ہے۔۔

جیسا کہ میں نے اوپر یہ لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ اگر یہ پتہ چل جائے کہ تم لڑکی ہو تو تمہیں دنیا میں آنے ہی نہ دیا جائے اور اگر تم لڑکی ہو کر بھی آ گئیں تو تم خاندان کے لیے افسردگی کا باعث ہو، تمہارے ماں باپ اور انکے ماں باپ تو ڈپریشن کا شکار ہونگے ہی، انکے رشتے دار بھی کچھ کم افسردہ نہ ہوں گے اور ہر کوئی تمہیں مبارکباد بھی یہ کہہ کر دے گا “اللہ بھائیوں والی کرے” اگر کسی نے تمہیں دعا بھی دینی ہوگی وہ کہے گا “اللہ بھائیوں کی پناہ نصیب کرے” اور تمھارے ماں باپ پھر سے اس کوشش میں جُت جائیں گے کہ کسی طرح لڑکا پیدا کیا جائے، غالب امکان یہی ہے کہ ابھی تم ایک ڈیڑھ سال کی ہی ہونگی کہ تمہارے گھر ایک نومولود کی آمد ہو رہی ہوگی تم بھی دعا کرنا کہ بھائی ہی ہو ورنہ معاملہ صرف تمہارے لیے ہی نہیں تمہارے ماں باپ خصوصاً ماں کے لیے بہت خراب ہو سکتا ہے، اسکو منحوس بیٹیاں جننے والی ڈائن بھی کہا جا سکتا ہے، تمہارے باپ کی دوسری، تیسری اور چوتھی شادی بھی تب تک کرائی جا سکتی ہے کہ جب تک کوئی عورت بیٹا نہ جن دے، لو اب تم کچھ بڑی ہو رہی ہو اور اگر تمہارے اوپر بھائی آ گیا ہے تو تم صرف اسکی ایک خدمتگار ہو، جس کا کام بھائی کا خیال رکھنا ہے، جس کا کام ہر اس چیز پر صبر کانا ہے جو اسکے بھائی کو میسر ہے، پھل، فروٹ، گوشت، اچھے بستر، سیر سپاٹے، واجبی سی تعلیم اور سب کے پیار پر پہلا اور تقریباً آخری حق بھی بھائی کا ہے کیونکہ تمہیں تو ابھی جہیز بھی دینا ہے، لو اب تم بڑی ہو گئی خوش نصیبی یہ ہو اگر تو تمہارے بھائی نے کسی دوسرے کی بہن کو جنسی درندگی کا نشانہ نہیں بنایا تو شاید تم وٹے سٹے کی نظر ہو جاؤ، اور اگر بھائی سے یہ غلطی (جو کہ عموماً ہو جاتی ہے) ہوگئی تو اب تمہاری تقدیر کا فیصلہ پنجایت کرے گی اور ممکن ہے کہ تمھاری سزا یہ ہو کہ بارہ یا تیرہ لوگ تمہارے ساتھ وہی کریں جو تمہارے بھائی نے دوسرے کی بہن کے ساتھ کیا تھا۔۔ ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ستر سال کے بڈھے کے ساتھ اس وقت شادی کر دی جائے کہ جب تم بارہ سال کی ہو اور وہ بڈھا تمہیں کسی کوٹھے پر بھی چلا دے یا اسکے جوان بیٹے بھی حقِ زوجیت ادا کرتے رہیں۔۔

چلو تصویر کا ایک اور رُخ دیکھتے ہیں تم جوان ہوگئی ہو تمہارے ماں باپ بھی اچھے ہیں گھر میں پیسوں کی بھی ریل پیل ہے اور اسی اثنا ء میں تمہارے ماں باپ دنیا سے گزر جاتے ہیں تو اب کیا ہو سکتا ہے، اللہ نہ کرے کہ تم کسی کو پسند کرتی ہو تو تم کارو کاری یا ونی ہو سکتی ہو، زندہ جلائی یا دفنائی جا سکتی ہو، اللہ نہ کرے اگر کسی قندیل بلوچ ٹائپ کے گھر پیدا ہو گئی ہو تو مارے جانے سے قبل اپنے ہی غیرت مند بھائی کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار بھی ہو سکتی ہو، ورنہ قرآن تو موجود ہے ،شاید اس ملک میں سب سے زیادہ نکاح قرآن سے ہی کیے گئے ہیں، جو بھی ہو بہرحال جائیداد کا حصہ ملنا مشکل ہے۔

آؤ یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ پڑھے لکھے گھروں میں کیا کیا ہو سکتا ہے، پڑھائی تو چار و نا چار کرائیں گے لیکن مرضی ماں باپ کی ہوگی بچی کون سا سبجیکٹ پڑھے گی کون سا نہیں ،یہ باپ کا فیصلہ ہوگا، لیکن جو عیاشی بھائی کو میسر ہے وہ یہاں بھی نہیں ملے گی، پچیس سال کی بہن جب بھی باہر جائے گی تو بارہ سال کا بھائی اسکی حفاظت کے لیے ساتھ جائے گا، اگر کالج یونیورسٹی میں کوئی لڑکا پسند آ گیا تو پڑھائی رک جانے سے لیکر زبردستی کی شادی یا اس سے بھی آگے کی معاملے ہو سکتے ہیں کیونکہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے، جائیداد کا حصہ یہاں بھی مشکل ہے۔

یہ تو ہوگئی گھر کی دنیا آؤ بچیوں تمہیں ذرا باہر کی دنیا کی سیر کرائیں، پاکستان کے ایک شہر قصور میں ایک بچی تھی جس کا نام زینب تھا ابھی پاکستانی پارلیمنٹ نے اسکے نام سے ایک بل منظور کیا ہے پتہ ہے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا، وہ باہر گئی اور پھر کبھی واپس نہ آئی کیونکہ کسی نے اس سے جنسی زیادتی کے بعد اسکو مردہ حالت میں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا، اور یہ “کسی” آپکے چاچو بھی ہو سکتے ہیں، ماموں بھی، انکل بھی، خالو بھی، سوتیلے باپ اور بھائی بھی اور انکے دوست بھی، ٹیوشن والے سر بھی، قاری صاحب بھی، اور رکشے والے انکل بھی لہٰذا ایسے چلنا ہوگا کہ جیسے ٹوٹ کر بکھرے ہوئے شیشے کی کرچیوں کے بیچ چلا جاتا ہے اس معاملے میں لڑکی اور لڑکے کی رعایت بھی نہیں ہے۔

اگر خیر خیریت سے پڑھ جاؤ تو خوش قسمت ہو، لیکن یہ ممکن نہیں کہ اگر بس میں سفر کرو تو کوئی تمہیں وہاں ہاتھ نہ لگائے جہاں اسکو نہیں لگانا چاہیے، پڑھنے لکھنے کے بعد جو سب سے پہلا فتور دماغ میں آتا ہے وہ ہے نوکری یہاں سے بچ نکلنا مشکل ہے کیونکہ “باس از آلویز رائٹ” اور لڑکیوں کے لیے “باس از الویز ریڈی ٹو” تو اگر نوکری کرنی ہے اور ترقی بھی حاصل کرنی ہے تو باس کو خوش کرنا ضروری ہے اور باس کی ساری کی ساری مرضی اور دلچسپی تمہاری شلوار کے اندر ہے، اور تمہاری کلُ کارکردگی بیڈ کے اندر ہونی چاہیے، لہٰذا ترقی کے لیے ضروری ہے کہ شلوار میں ازار بند نہیں الاسٹک ہونی چاہیے، شریف عورت کے مقدر میں ترقی نہیں ہوتی صرف کام ہوتا ہے۔

لو اب تمہاری شادی ہو رہی ہے اگر تمہاری مرضی سے ہو رہی ہے تو تم دنیا کی خوش نصیب عورتوں میں سے ایک ہو اور اگر نہیں تب بھی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ تو ایک فرض ہے ایک بوجھ ہے جو جتنی جلدی ماں باپ کے سر سے اتر جائے اچھا ہوگا، اگر تمہارا ہونے والا شوہر کریہی الشکل بھی ہو تو کوئی بات نہیں، شکل کا کیا ہے وہ تو اللہ کی دین ہے، یاد رکھنا لڑکے کو وہ لڑکی اچھی لگتی ہے جو دکھنے میں کترینہ کیف ہو، بستر میں سنی لیونی ہو، کردار میں فرشتہ ہو اور کھانا اپنی ساس کی طرح کا پکاتی ہو اور اسکے ساتھ ساتھ ایک نصیحت یہ ہے کہ جو بھی ہو وہاں سے تمہارا جنازہ ہی باہر نکلنا چاہیے چاہے مقتول کا ہی کیوں نہ ہو، چاہے موت سلینڈر پھٹنے سے ہو یا سیڑھیوں سے گرنے سے، نکلنا جنازہ ہی چاہیے، بالفرض تم شادی سے انکار کرتی ہو تو مار پیٹ بھی ہو سکتی ہے اور اگر بہت ہی مہذب گھرانا ہو ماں کا دوپٹہ اور باپ کی پگڑی تمہارے پیروں میں ہوگی اور انکی کل عزت تمہارے ہاتھ ہوگی، اس طرح وہی دائرہ دوبارہ وہاں سے شروع ہو جائے گا جہاں سے تمہاری ماں کے لیے شروع ہوا تھا، تم بھی اس کام پر لگ جاؤ گی کہ جس پر تمہاری ماں تھی تم بھی اپنی بیٹی کو بتاؤ گی کہ بھائی ہی تمہارا محافظ ہے اور اللہ اسکا سایہ تمہارے سر پر سلامت رکھے۔

لڑکا ہونا اس دنیا میں کچھ سہولیات فراہم ضرور کرتا ہے لیکن ماں باپ لڑکے کی عمر ہر روز گنتے ہیں کہ کب ہماری انوسٹمنٹس دو، تین، چار گنا ہو کر ہمیں واپس ملنا شروع ہونگی، اور کب ہمارے دن پھریں گے، کب ہمارا بیٹا بڑا افسر بنے گا، کب ہم برادری کو منہ توڑ جواب دیں گے، میرے بچوں دنیا میں کم ہی ماں باپ ایسے ہوں گے کہ جو تمہیں میوزیشن، پینٹر، سنگر یا کھلاڑی بننے دیں ورنہ ہر پڑھے لکھے باپ کو بیٹا اور ڈاکٹر یا انجینئر بیٹا ہی چاہیے، کاروباری کو وہ بیٹا چاہیے جو اسکا کاروبار سنبھال سکے، بڑے سرکاری افسر کو وہ بیٹا چاہیے کہ جو اسکی سیٹ پر آ کر بیٹھ سکے تاکہ وہ مکان اور مراعات جو اور اسکو سرکار نے دی ہوئی ہیں وہ انہی کے خاندان کے زیر تسلط رہیں، فوجی جرنل کا بیٹا فوجی ہونا چاہیے تاکہ ملک اور ریاست مضبوط ہاتھوں میں رہے، لڑکا اگر کامیاب ہو تو شاید اسکے پاس یہ مارجن ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی شادی کر سکے لیکن اس مسئلے کا ایک پرانا اور آزمودہ حل ہے ذات برادری اور مذہب بلکہ مذہب سے آگے فرقہ اور اب شاید اس سے بھی آگے۔۔۔ بچوں اب یہ کافی نہیں کہ آپ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اور آپکو اسی مسلک کی لڑکی پسند آ جائے تو یہ اس بات کی گارنٹی نہیں کہ آپکی وہاں شادی بھی ہو جائے گی اب اس معاملے میں اور بھی بہت ساری تفصیل ہے جس کو آپکے ماں باپ ملحوظ رکھیں گے۔۔مسلک کے بعد ذات، پات، علاقہ، زبان، خاندان اور سماجی حیثیت بھی آپکو کو پھلانگنی پڑے گی اور اگر آپ یہ سب پھلانگ بھی گئے تو یہ ممکن ہے کہ اس لڑکی کے باپ کی پھپھو نے بھاگ کر شادی کی ہو جو آپکے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔۔

کسی بھی طرح شادی ہوگئی اب وہی ماں اور بہنیں  جو کل تک بھائی کے سہرے کو دیکھنے کے لیے بےتاب تھیں اب بھائی کو جورو کا غلام کہتی ہیں اور اسی چاند سی بھابھی کو ڈائن۔۔ مرضی اب بھی آپکی نہیں ہے بچہ کیوں نہیں ہو رہا اور اگر ہو رہا ہے تو بیٹا کیوں نہیں ہے، اگر بیٹا ہے تو اس کا رنگ کیوں کالا رہ گیا ہے، اس کی ناک کیوں ستواں نہیں ہو سکی ہے، اسکا سر کیوں گول کی بجائے بیضوی ہے اور نہ جانے کیا کیا، اور اگر خدانخواستہ لڑکی ہے تو اللہ کی پناہ۔۔

اختتام سے پہلے مجھے اس خط میں کچھ اعترافات کرنے ہیں جن میں سے پہلا یہ کہ میں معافی مانگتا ہوں کہ میں نے اور میرے جیسے انسانوں نے تمہارے لیے یہ دنیا سجائی ہے، کہ جس کا سب سے بڑا وصف بے ایمانی، بد دیانتی، ریا کاری، دھوکا دہی اور منافقت ہے میں نے اس دنیا کو اتنا برباد کیا ہے کہ جیسے ہی تم آؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ تمہیں پیدائشی کینسر ہو، یا تمہیں سانس ہی نہ آتا ہو، یا تمہاری نظر کمزور ہو، یا تم پوری طرح ڈیولپ ہی نہ ہوئے ہو یا تم چھ مہینے ماں کے پیٹ میں رہنے کے بعد کسی گند کے ڈھیر پر ملو اس حالت میں کہ تمہیں جانور بھنبھوڑ رہے ہوں میری آسائش کا سامان بنانے والی فیکٹریوں سے نکلنے والے دھواں نے دنیا اتنی گندی کر دی ہے کہ شاید پیدا ہوتے ہی تمہیں مشین کے حوالے کرنا پڑے، وہاں سے بچنے کے بعد بھی ویکسین ہی تمہارا مقدر ہے، میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم اس زمین پر اپنی آنے والی نسلوں کو لے کر بدترین مخلوق ہیں کہ جس نے انکی زندگی اتنی مشکل کر دی ہے کہ جس کا باقی کوئی اور مخلوق خواب بھی نہیں دیکھ سکتی میرے بچوں ہم انسان اس سیارے پر ایک عذاب کی طرح ٹوٹے ہیں کہ جس نے اس کی کسی بھی مخلوق کو سکون سے نہ رہنے دینے کا تہیہ کیا ہے، ہم نے تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو مارنے کے لیے بنائے گئے ہتھیاروں پر اربوں ڈالرز ہر سال خرچ کیے ہیں لیکن تمہاری فلاح کی کوشش ہمارے دماغ کے کسی آخری کونے میں دبی پڑی ہے جس کو ہم کانفرنس ٹیبل پر بیٹھ کر نکالتے ہیں اور کانفرنس روم کے اندر ہی واپس اسی کونے میں پھینک کے اٹھتے ہیں۔۔ میں اعتراف کرتا ہوں ہمیں وہ اولاد چاہیے جو ہماری تابع ہو نہ کہ آزاد کیونکہ ہم خود آزاد پیدا نہیں ہوئے تھے، ہمارے ماں باپ انکے رواج اور روایات، یہ سماج اور اسکا سرمایہ دارانہ نظام، مذہب، سماج کے مقتدر حلقے اور انکے پالتو، کلچر اور نا جانے کیا کیا ہمارے حکمران ہیں اور بچوں کیا تم جانتے ہو کہ ان سب کا غلام ایک بالشتیا ہی ہو سکتا ہے ایک بونا اور ایک ایسا بونا جو خود کو ہرکولیس سمجھتا ہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں میری یہ خواہش ہے کہ اب یہاں کوئی اور بچہ پیدا نہ ہو کیونکہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں اور یہ سماج اس قابل نہیں کہ اس کے حوالے بچے کیے جا سکیں.۔bstract

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply