مرسی، مصر اور اخوان۔۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

عرب بہار نے تیونس سے عرب آمریتوں کا تختہ الٹنا شروع کیا اور یکے بعد دیگرے یہ لہر آگے بڑھتی اور مصر پہنچ گئی۔ مصر میں صدر حسنی مبارک کی آمریت قائم تھی، اس نے استبداد سے کام لیا مگر عوامی طاقت کے سامنے ظاہراً شکست کھا گیا اور عوام جیت گئی۔ انتخابات ہوئے، جن کے نتیجے میں اخوان المسلمین نے معمولی اکثریت سے حکومت بنائی اور جناب محمد مرسی صدر بن گئے۔ یہ خطے میں اہم تبدیلی تھی، سید حسن البنا سے لیکر آج تک مصر میں حکومتی سطح پر اخوان کو اتنی بڑی کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی وجہ سے پاکستان میں جماعت اسلامی اور دنیا بھر میں اخوان کے ہمدردوں نے اس پر جشن منایا۔ سچی بات ہے کہ ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی کہ اسرائیل کی ایجنٹ حکومت کی جگہ ایک ایسی جماعت کی حکومت آئی ہے، جس کی بنیادوں میں قربانی اور اسلام سے محبت شامل ہے، اس لیے یہ مصر میں اسلامی قوتوں کو مضبوط کرے گی اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی۔ تھوڑے سے وقت کے لیے ایسا ہوا بھی کہ پہلی بار غزہ کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا، ان کی عرصے سے جاری ناکہ بندی ختم ہوئی۔

عرب بہار ایک کے بعد ایک اسلامی ملک میں عوامی احتجاجات کا باعث بن رہی تھی، اسی دوران اردن کے ایک سابق جہادی کا انٹرویو سننے کا موقع ملا، وہ کافی عرصہ جہادی رہ چکا تھا، اس نے مسلمان معاشروں کے اسلام پسندوں کو پیغام دیا تھا کہ ایسی کسی سرگرمی سے دور ہو جائیں، جو حکومت کو گرانے اور ریاست کو تباہ کرنے کے لیے ہو۔ اس نے اسلام پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریں گے آپ، قتل آپ ہوں گے،جلاوطن آپ ہوں گے، جیلوں کی سختیاں آپ جھیلیں گے اور اگر حکومت میں کوئی تبدیلی آئی بھی تو وہ سیکرلر قوتوں کو حکمران بنائیں گے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ فقط مسلم معاشرے اور مسلم ممالک کو برباد کیا جائے گا۔ آج سوچتا ہوں تو اس کی باتیں درست معلوم ہوتی ہیں کہ جن ممالک میں تبدیلی آئی، وہاں بڑے طریقے سے ہائی جیک کر لی گئی اور جہاں ان سے ہائی جیک نہ ہوسکی، وہاں پر جنگ کی آگ کو بھڑکا دیا۔ یمن، مصر اور لیبیا اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

جب مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت آگئی اور دیکھا کہ یہ تو چلنے بھی لگی ہے تو مرسی کے لگائے جنرل کے ذریعے ہی اس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ایک درد دل یہاں ضرور کروں گا، جب شیخ حسن شحاتہ کو ان کے گھر میں گھس کر شہید کیا گیا اور ان کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا تو دل بہت اداس ہوا تھا۔ اسی دور میں خطر الشیعی کے نام سے مصر کے مختلف شہروں میں نور پارٹی کی طرف سے باقاعدہ کانفرنسز کا انعقاد ہوا۔ یہاں تک ہوا کہ سیروسیاحت کے لیے آنے والے ایرانیوں پر پابندی کی باتیں ہونے لگیں۔ وہ اخوان جو اپنے ویژن اور اپنی وسیع الفکری کی وجہ سے پورے عالم اسلام کو محبوب تھی، یوں لگنے لگا جیسے اسے فرقہ کا لبادہ پہنایا جا رہا ہے۔ ترکی اور قطر نے اس زمانے میں مصر کی بہت مدد کی کہ وہ مالی بحران سے نکل آئے۔ سیکولر قوتیں بڑے پیمانے پر مرسی کے خلاف مظاہرے کرنے لگیں، جب تک حالات کا درست اندازہ ہوتا، حالات کنٹرول سے باہر ہوچکے تھے اور فوج نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ، اسرائیل اور خطے میں اس کے اتحادی سعودی عرب اور عرب امارات حمایت میں کھل کر سامنے آگئے، اربوں ڈالر کی امداد دے کر معیشت کو سنبھالا گیا۔ پرامن مظاہرین پر سعودی شہ سے حملہ کرکے ایک ہزار مظاہرین کو شہید کر دیا گیا اور مرسی کے حمایت میں لگے کیمپ کو تباہ کر دیا گیا۔

مرسی پر بڑے عجیب الزامات لگائے گئے، جیسے ان کے دور میں جن مظاہرین پر تشدد ہوا تھا، اس کا ذمہ دار انہیں قرار دیا گیا۔ اسی طرح ان پر یہ الزام لگا کر بیس سال جیل کی سزا دی گئی کہ وہ حماس کی حمایت کرتے ہیں۔ اللہ اللہ کیا الزامات ہیں؟ مظلوم اور مجبور مسلمانوں کی حمایت کرنے پر بیس سال قید کی سزا عجیب بات لگتی ہے مگر ایسا ہی ہوا۔ ابھی ان پر مقدمہ جاری تھا کہ عدالت میں ہی اپنے بے گناہی ثابت کرتے کرتے راہی سفر بقا ہوگئے۔ ان کے یہ جملے بہت مشہور ہوئے تھے، جو امریکہ و اسرائیل کے غلام حکمرانوں کو ان شوریدہ سروں کی یاد دلاتے رہیں گے مرسی نے کہا تھا: “لا تقتلوا أسود بلاد كم فتقتلكم كلاب أعداء كم” “اپنے شیروں کو قتل مت کرو، اگر قتل کروں گے تو تمہیں دشمن کے کتے قتل کر دیں گے۔” صدر سیسی اور اس پورے گروہ کو دشمن کی کیا فکر؟ وہ تو خود دشمن کے کتوں والا کردار ہی ادا کر رہے ہیں۔ مصر عجیب سرزمین ہے، اس نے فرعونوں کی حکمرانی کو قبول کر لیا مگر پہلے منتخب صدر کو قبول نہیں کیا۔ صرف ایک سال بعد ہی اسی اٹھا کر جیل بھیج دیا۔

کہا جا رہا ہے کہ آج فجر کے بعد قاہرہ کی بدنام زمانہ جیل ’’طرہ‘‘ کی مسجد میں شہید مرسی کا جنازہ ادا ہوا۔ جس میں جابر حکومت نے فقط بیوہ، بیٹے، بیٹیاں، دو بھائی اور مرسی کے وکیل عبد المنعم کو شرکت کی اجازت دی اور کسی کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم ظالم آمر نے یہ احسان ضرور کیا کہ مرسی کے گرفتار صاحبزادے اسامہ کو جنازے و تدفین میں شرکت کی اجازت دیدی۔ بعد ازاں مشرقی قاہرہ کے اس قبرستان میں سخت ترین سکیورٹی میں جسد خاکی کی تدفین عمل میں آئی، جہاں اخوان المسلمون کے تین سابقہ مرشد مدفون ہیں۔ مرسی سابق مرشد مہدی عاکف کے پہلو میں دفنائے گئے، مہدی کا جنازہ بھی 2017ء میں جیل سے اٹھا تھا۔

اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کا جنازہ گھر کی خواتین نے اٹھایا تھا۔ والد کے علاوہ کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، جبکہ نماز ان کے والد نے اکیلے ادا کی تھی۔ اخوان بھی قربانیوں کی داستان کا نام ہے، جس کے کارکن، عہدہ داران اور سربراہان ہر دور میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے۔ اسی لیے اخوان کے اکثر مرشد عام کی زندگیوں کا بڑا حصہ جیل میں گذرا۔ ہم سید الشہداء امام حسینؑ کے ماننے والے ہیں، جب بھی دنیا میں کوئی مظلوم نظر آتا ہے تو فوراً اس کی حمایت کرتے ہیں، اس کی وجہ فقط اسوہ شبیری ؑہے، جو ہمیں ظالم کے مقابل ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے۔ اس پیغام کے ساتھ کہ مرسی کے قاتل آل سعود ہیں، جنہوں نے سیسی کی مدد کی اور آج تک انہیں کی شہ پر وہ سارے کام کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply