گزشتہ روز جنگ کا ادارتی صفحہ اٹھایا تو اس میں شائع شدہ اپنے پیارے حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی تصویر اور تحریر پر نظر پڑی۔ سوچا کہ انہوں نے دیگر علمائے کرام کی طرح گزشتہ رات قوم سے خطاب کے دوران غزوہ بدر اور غزوہ خندق میں صحابہ کرامؓ سے متعلق وزیراعظم کے خیالات پر پکڑ کی ہوگی لیکن کالم کا عنوان اور مندرجات پڑھ کر معلوم ہوا کہ میرا اندازہ غلط تھا اور مفتی صاحب کے لئے ان دنوں اپنی چیئرمین شپ کا ایشو ہر چیز سے زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ میں بارہا عرض کرتا رہتا ہوں کہ اختلاف کے باوجود میں مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اس لئے عید مناتا ہوں کیونکہ ان کی کمیٹی ریاست کے ایک نوٹیفکیشن سے بنی ہے لیکن چونکہ محترم مفتی صاحب اپنی چیئرمین شپ کے معاملے میں حد درجہ جذباتی ہیں۔ اس لئے انہوں نے میرے خلاف یہ فتویٰ صادر کیا ہے کہ میں ریاست کے باغی مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو اپنے پروگرام میں بلاکر گویا ریاست سے بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں۔ اب پہلی گزارش تو یہ ہے کہ خود ریاستی ادارے کی حکم عدولی کرنا الگ بات ہے اور ایسا کرنے والے کا ذکر کرنا یا ان کو موقف بیان کرنے کا موقع دینا الگ بات ہے۔ میں اگر مفتی پوپلزئی کو بلاتا ہوں تو ان سے وہی سوال کرتا ہوں جو مفتی منیب الرحمٰن جیسے لوگ ان سے کرتے ہیں اور اس پروگرام میں ضرور اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے مجھے اتفاق نہیں اور یہ کہ میں ذاتی طور پر مرکزی کمیٹی کی تعمیل کرتا ہوں۔ دوسری طرف خود مفتی منیب الرحمٰن ماضی میں بعض عدالتی اور ریاستی فیصلوں کے خلاف اسی طرح کھل کر میدان میں آئے ہیں جس طرح کہ مولانا خادم رضوی وغیرہ آئے تھے۔ تو کیا اس سے مفتی صاحب ریاست کے باغی ہوگئے یا پھر طالبان کی صف میں شامل ہوگئے؟ نہیں، ہر گز نہیں! میں نے تو کبھی انہیں خادم رضوی کی صف میں بھی شامل نہیں کیا بلکہ کئی دیگر معاملات میں ان کی رائے اور کردار کی تعریف بھی کی اور اس کے بعد بھی ان کے فیصلے پر عمل کرتا رہا۔ اسی طرح میں پیغامِ پاکستان کی تیاری میں ان کے درپردہ اور خاموش کردار کا بھی بڑا مداح ہوں۔ کچھ عرصہ قبل ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والے اپنے ہم مسلک لوگوں کو قابو کرنے میں انہوں نے جو پس پردہ کردار ادا کیا، میں اس سے آگاہ ہوں اور اس کردار کا مداح بھی ہوں۔
محترم مفتی صاحب یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے رویتِ ہلال کے معاملے پر تنازع میری وجہ سے جنم لیتا ہے حالانکہ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ پہلے تنازع پیدا ہوا اور اس کے بعد میں ٹی وی پروگرام اور کالم میں اسے زیر بحث لایا۔ مفتی صاحب کی کمیٹی سے روزہ ایک دن پہلے میں نے نہیں بلکہ مفتی پوپلزئی صاحب اور وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے رکھوایا۔ میں نے مفتی منیب صاحب کے فیصلے کے مطابق روزہ رکھا۔ گویا ریاستی ادارے کی خلاف ورزی انہوں نے کی۔ میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ وہ ان دونوں کے خلاف ریاستی ادارے کی حکم عدولی کا مقدمہ درج کرا دیں لیکن مفتی منیب الرحمٰن صاحب ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ایک کے پاس ان کو ہٹانے کا اختیار ہے اور دوسرا ان کی طرح مفتی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے یہ ہمت کی تو میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ پھر معاملے کو گرما دیا وزیر سائنس فواد چوہدری نے۔ لیکن ان کے خلاف کھل کر سامنے آنے کی بجائے مفتی صاحب نے صرف وزیراعظم سے استدعا کی کہ وہ اپنے وزیر کو مذہبی معاملات پر بات کرنے سے روکیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب رمضان کے آغاز پر مفتی پوپلزئی اور وزیر مذہبی امور نے مفتی منیب الرحمٰن کے فیصلے کی خلاف ورزی کی تھی اور پھر جب فواد چوہدری بھی ان کے متوازی نظام سامنے لا چکے تھے تو مفتی منیب الرحمٰن ایک روز قبل اجلاس پشاور میں مفتی پوپلزئی صاحب کی مسجد میں یا پھر وزیراعلیٰ ہائوس میں رکھتے۔ جو مناظرہ وہ اس وقت مجھ گناہگار سے کر رہے ہیں، وہ مفتی پوپلزئی اور وزیراعلیٰ محمود خان سے کرتے اور ان کو کنوینس کرتے کہ وہ ایک روز پہلے اجلاس کا اعلان نہ کریں لیکن مفتی صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ اپنے شیڈول کے مطابق ایک روز بعد کراچی میں اجلاس رکھا۔ اب چونکہ فواد چوہدری زبان دراز بھی ہے اور وہ اس کابینہ کا حصہ بھی، جو مفتی صاحب کی معزولی کا اختیار رکھتی ہے، اس لئے ان سے الجھنے کی بجائے مفتی صاحب مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ مفتی صاحب کی کمیٹی کے خلاف سرکاری سطح پر اب کی بار بغاوت پختونخوا حکومت نے کی ہے جبکہ میں نے پختونخوا حکومت کی حکم عدولی کرکے مفتی منیب الرحمٰن کی ریاستی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق عید منائی لیکن پختونخوا حکومت کے خلاف مفتی صاحب نے کالم لکھے اور نہ وڈیوز بنائیں۔ ان کو علم ہے کہ مجھ جیسا مزدور ان کو ہٹا سکتا ہے اور نہ ان کو کوئی اور فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے اس لئے وہ فواد چوہدری، پیر نورالحق قادری اور پختونخوا حکومت کے حصے کا غصہ بھی مجھ پر نکال رہے ہیں۔
آخر میں میں حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو تسلی دینا چاہتا ہوں اور اللہ کو گواہ کرکے یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ان کی جگہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی چیئرمین شپ کا ہرگز امیدوار نہیں ہوں۔ میں مزدور صحافی ہوں اور صحافی ہی مروں گا۔ میں ان کو یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ میں جب بھی رویت ہلال کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کروں گا تو ساتھ ہی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کروں گا کہ وہ مفتی صاحب کو اس سے بھی بڑا سرکاری عہدہ دے۔ میرے لئے رویتِ ہلال کا مسئلہ ایک مسئلہ ضرور ہے لیکن میرے نزدیک صرف یہی مسئلہ نہیں جبکہ مجھے احساس ہوا کہ مفتی صاحب کے لئے یہی منصب ان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چونکہ اور بھی غم ہیں زمانے میں رویتِ ہلال کمیٹی کے سوا۔ مفتی صاحب کے لئے شاید یہی مسئلہ نمبر ون ہو لیکن پاکستان کے مسائل کی فہرست بنائیں تو اس میں رویتِ ہلال ہزارویں نمبر پر بھی نہیں آتا۔ اس لئے میں اپنی طرف سے آج یہ بحث ختم کرتا ہوں۔ ہاں! البتہ اپنے موقف پر قائم ہوں اور قائم رہوں گا۔ مفتی صاحب جب چاہیں میرے ٹی وی پروگرام میں تشریف لاکر اپنا موقف دے اور میرا موقف سن سکتے ہیں۔ ان کو ہم ہمیشہ دعوت دیتے ہیں لیکن وہ نہیں آتے۔ میں اب ان کو یہ بھی اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ مفتی پوپلزئی کو نہیں بلائوں گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں