ایوان صدر کے طوطے۔۔۔آصف محمود

وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں 23 لاکھ میں نیلام کرنے والی حکومت نے ایوان صدر کے طوطوں کے پنجرے کے لیے 19لاکھ 48 ہزار کا پنجرہ تیار کرانے کے لیے ٹینڈر جاری فرما دیا ۔ بیوروکریسی کی یہ ادا دیکھی تو حضرت میر یاد آگئے : آباد اجڑا لکھنئو چغدوں سے اب ہوا۔ صبح دم معلوم ہوا ٹینڈر منسوخ ہو گیا۔دل غم دیدہ مگر سراپا سوال ہے کہ ٹینڈر جاری کیسے ہوا تھا؟ جناب عارف علوی سے احترام کا تعلق ہے۔ عمران خان کے حق میں کالم لکھنے پر جب ایک اخبارپر’ بیانیہ شریف ‘ کا اتنا بوجھ آیا کہ اس نے کالم شائع کرنے سے ہی معذرت کر لی تو تحریک انصاف میں واحد عارف علوی تھے جنہوں نے ازرہ مروت فون کر کے ’ اظہار یکجہتی ‘ کیا۔عارف علوی ایک نجیب آدمی ہیں، بزم کو چراغاں کرنا ان کی فطرت نہیں کہ سادہ مزاج ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ اس معاشی بحران میں وہ انیس لاکھ روپے طوطوں کے پنجرے بنانے میں جھونک دیں۔ سوال ان کی افتاد طبع کا نہیں سوال ان کی فعالیت کا ہے۔یہ قصبہ جسے ایوان صدر کہتے ہیں ، کس کے حکم پر چلتا ہے؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر محترم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو خواہ مخواہ ہی ہوتے ہیں کیا ایوان صدر میں بھی وہ خواہ مخواہ ہی ہوتے ہیں اور ان کے ملازمین بھی ان سے پوچھنے کا تکلف نہیں کرتے؟ یہ ٹینڈر کیسے جاری ہوا؟ حکومتی کام ایک خاص ڈھنگ سے ہوتے ہیں۔ کھڑے کھڑے حکم صادر نہیں ہو جاتا۔پروپوزل بنتی ہے ، پھر کسی جواں سال بھکاری کی طرح وہ ایک ایک در کا چکر لگاتی ہے۔ کتنے ہی افسران کے دستخطوں کے بعد کوئی چیز منظور ہوتی ہے۔ تب جا کر ٹینڈر جاری ہوتا ہے۔ دفتری ضابطوں کی طوالت سے گزرنے کے بعد۔ یہ کافی نہیں کہ صدر محترم نے ٹینڈر منسوخ کر دیا۔سوال یہ ہے کہ ٹینڈر جاری کیسے ہوا؟ کون تھا جس نے اتنا بے رحم فیصلہ کیا کہ معاشی بحران سے گزرتی غریب قوم کے انیس لاکھ اڑتالیس ہزار روپے طوطوں کے پنجرے بنانے میں برباد کر دے؟ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہ تھا جو جناب صدر نے واپس لے لیا اور قصہ تمام ہوا۔ اس فیصلے نے عمران خان کی سادگی کی پالیسی کی تضحیک کی ہے اور اسے تماشا بنا دیا ہے۔یہ فیصلہ اگر صدر محترم کی مرضی سے ہوا اور تنقید سے گھبرا کرواپس لے لیا گیا تو افسوسناک ہے اور اگر وہ اپنے ہی گھر میں ہونے والی اس ساری واردات سے لاعلم ہے تو یہ زیادہ افسوسناک ہے۔اس سے تو بہتر ہے ایوان صدر کے سارے طوطوں کو آزاد کر دیا جائے۔ میاں مٹھو صرف چوری ہی تو کھا رہے ہیں۔ رات گئے قوم سے خطاب میں عمران خان نے سادگی کی بات کی۔ بتایا وہ تو اپنے گھر میں رہتے ہیں اور سیکیورٹی کے علاوہ وہ اپنی ذات پر قومی خزانے سے کچھ خرچ نہیں کر رہے۔اخراجات کم کیے جا رہے ہیں اور عوام کے پیسوں کو اب امال غنیمت نہیں ، امانت سمجھا جا رہا ہے۔صبح معلوم ہوا بجٹ میں وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات کے لیے مختص رقم میں 18 اعشاریہ 86 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم ہائوس میں آپ رہتے ہی نہیں۔ ساتھ کالونی کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ فضول اخراجات آپ کرتے ہی نہیں۔ نواز شریف تو مغل شہنشاہ کی طرح رہتے تھے آپ تو سادہ مزاج ہیں ، پھر بتائیے تو سہی معاملہ کیا ہے کہ آپ نے وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات میں 18 اعشاریہ 86 فیصد اضافہ کر دیا۔ یہ کیسی سادگی ہے؟ پہلے سادگی کے نام پر گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کر دی گئیں اور اب وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا۔ کہا ہم یہاں یونیورسٹی بنائیں گے، اب یونیورسٹی کا وعدہ یاد دلائیں تو ہمارے دوست شرما کر انگلی منہ میںداب لیتے ہیں۔صدر محترم بھی سادہ ہیں، ڈی چوک پر ہمارے ساتھ سڑک پر بیٹھ کر ایف سکس کے بنگالی سموسے کھاتے تھے لیکن سادگی کے عالم میں بھی ایوان صدر کا ایک روز کا خرچ 29 لاکھ روپے ہے۔یعنی جو بھینسیں بیچی گئیں وہ ایوان صدر کے ایک دن کے اخراجات میں کام آ گئیں۔ بے چاری بھینسیں۔ جنہوں نے اس ملک کو لوٹ کھایا ان کے دور میں صدر مملکت کے گھریلو اور سٹاف کے اخراجات کے لیے 259 ملین روپے رکھے گئے اور جب سادہ لوگ آ گئے جو قومی خزانے کو امانت سمجھتے ہیں تو یہ اخراجات بڑھ کر 281 ملین ہو گئے ہیں۔یعنی صرف 21 ملین کا اضافہ۔یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے ایک ملین دس لاکھ کا ہوتا ہے۔ہمیں تو بتایا گیا تھا عمران خان کے وزیر اعظم ہائوس کی بجائے سٹاف کالونی کے چھوٹے سے گھر میں رہنے سے پونے دو ارب روپے کی بچت ہو گی۔ لیکن یہاں تو اٹھارہ فیصد اضافہ ہو گیا۔ یہ ماجرا کیا ہے مہاراج؟ حالات کی تلخی کا مسئلہ نہیں، دن گزر جاتے ہیں۔آج دھوپ تو کل چھائوں۔ مسئلہ حکومت کے اعتبار کا ہے۔ جب اعتبار کے موسم بیت جائیں تو وعدوں کی رم جھم کسی کام کی نہیں رہتی۔اول روز سے حکومت سادگی کے دعوے کررہی ہے۔اس کا نامہ اعمال مگر ان دعووں کی تردید کرتا چلا جا رہا ہے۔ قول و فعل کے اس تضاد نے اعتماد کا بحران کر دیا ہے ۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نیک نیت بھی ہیں اور ان میں جذبہ بھی ہے لیکن وہ اقوال زریں سنانے سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ اس تضاد کا منطقی نتیجہ یہ نہ ہو کہ اقوال زریں حروف نا معتبر کا ایک دیوان بن کر رہ جائیں۔لوگوں نے حکومت کی باتوں کو سنجیدہ لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ بیانات اب محض اقوال زریں ہیں۔ عمل کی دنیا میں جن کی کوئی افادیت نہیں۔ا س کا سب سے بڑا نقصان معیشت کے میدان میں ہوا ہے جہاں غیر یقینی کا عالم ہے ۔کسی کو کچھ معلوم نہیں رات کے بارہ بجے کیا پالیسی سامنے آ جائے۔ بھلے وقتوں کی بات ہے ، کیا بانکپن تھا اس جماعت کا۔خلق خدا کی زبان پر تھا : صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی۔اب تو وہ حال ہے جو میر نے بیان کیا تھا : ہر جا پھرا غبار ہمار ا اُڑا ہوا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply