• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کا جمہوری نظام درحقیقت پاور پالیٹکس ہے/غیور شاہ ترمذی

پاکستان کا جمہوری نظام درحقیقت پاور پالیٹکس ہے/غیور شاہ ترمذی

اب دانش اور فہم کے نام پر جاری یہ فالتو گیری بند ہونی چاہئے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور پیپلز پارٹی، نون لیگ، تحریک انصاف اور دیگر تمام گروپ سیاسی جمہوری جماعتیں ہیں- پاکستان کے موجودہ نظام کو زیادہ سے زیادہ پاور پالیٹکس کہا جا سکتا ہے اور اس میں موجود جماعتوں کو سیاسی جماعتیں- اس سے زیادہ نہ یہ نظام کسی موزوں لفظ حاصل کرنے کا حق دار ہے اور نہ ان سیاسی جماعتوں کو اس میں مزید رعایت دی جا سکتی ہے- حد تو یہ ہے کہ یہاں جمہوریت، لبرل ازم، مذہب اور بنیادی انسانی حقوق کی تشریحات بھی الگ الگ اور من چاہی ہیں- جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس کا نظام یہاں اتنا طاقتور ہے کہ اُن گروپوں / ’’کلٹس‘‘ کی من مرضی کے مطابق کی گئی تشریحات کے مقابلہ میں کوئی شخص اگر عقل، منطق، تاریخ اور علم کی روشنی میں سچی بات بھی کرنی چاہے تو وہ قابلِ گردن زنی ٹھہرتا ہے-

جسے اس سچائی کا یقین نہیں ہے وہ فالتو کے دلائل کا انبار لگانے کی بجائے بنوں واقعہ کو پڑھ لے جہاں زوالوجی اور ہیومن جینیٹکس میں ایم فل کی ڈگری رکھنے والے پروفیسر شیر علی وزیر کو بنوں اور ملحقہ علاقے ڈومیل میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے سماجی و قانونی حقوق کے متعلق سیمینار منعقد کروانے اور ہیومن جینیٹکس کا پروفیسر ہونے کی وجہ سے ڈارون کی تھیوری پڑھانے کی پاداش میں کس انسانیت سوز سلوک سے گزرنا پڑا- اپنے اسی طرح کے نظریات کی وجہ سے پروفیسر شیر علی کا کار میں بم لگا دیا گیا تھا جس میں اُن کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور اب تو باقاعدہ مولویوں نے اُن کے قتل کا فتویٰ دے دیا تھا- پھر ریاستی مشینری یعنی اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس کے اعلیٰ حکام کی موجودگی میں دہشت گرد ملاؤں کا اکٹھ منعقد کیا گیا جس میں باقاعدہ اشٹام پیپر پر پروفیسر شیر علی کو بیانِ حلفی دینا پڑا جس کی رو سے وہ نظریہ ارتقاء سے توبہ تائب ہونے، اصلی اسلام کی بجائے ملاؤں کی خود ساختہ بنائی ہوئی شریعت کی روشنی میں عورت کو کم عقل قرار دینے اور اپنی مسلمانی کا وعدہ دے کر ان دہشت گرد ملاؤں کی کچرا کنڈی سے اپنی جان چھڑوانی پڑی- اس سے پہلے سندھ میں پروفیسر عرفانہ ملاح بھی ٹھیک اسی طرح کی صورتحال سے گزر چکی ہیں۔

پاور پالیٹکس کی وجہ سے پھیلی اسی لاقانونیت کے اس جیسے واقعات ملک بھر میں جگہ جگہ سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں- پاور پالیٹکس کی ڈائنامکس ہی یہ ہوتی ہے کہ ملک میں رہنے والوں کو چھوٹے چھوٹے طاقتور گروپوں میں اس طرح تقسیم کر دو کہ ہر ایک گروپ کا مطمع نظر اپنے دائرہ کار یا مخصوص علاقوں میں اپنی دھاک بٹھانے اور اپنی طاقت اکٹھی کرنے پر ہی مرتکز ہو- اس وقت غور سے دیکھیں تو ملک بھر میں یہ تقسیم واضح نظر آتی ہے- پورا ملک مذہبی ٹارگٹ کلنگ، لسانی دہشت گردی اور سیاسی دھاک بازی میں تقسیم نظر آتا ہے- کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں ہم یہ کہہ سکیں کہ یہاں مختلف الخیال لوگوں کو امن و امان کے ساتھ اپنی بات کہنے اور اپنی عبادات و نظریات کے تحت زندگی گزارنے کے مواقع موجود ہیں- ایسے مواقع لوگوں کو صرف اُن علاقوں میں ہی میسر ہیں جہاں وہ اپنی اکثریت کے ساتھ موجود ہیں اور دوسرے علاقوں میں تو وہ اپنی شناخت کو بھی ظاہر کریں تو جان کے خطرہ سے دوچار ہو جاتے ہیں-

پچھلے 76 سالوں سے جمہوریت اور مذہب کے نام پر یہی فالتو گیری چل رہی ہے اور لوگوں کو ان دلکش نعروں کا قیدی بنا کر استعمال کیا جاتا ہے- کبھی کشمیر کے نام پر، کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی سیکولرازم اور روٹی، کپڑا، مکان، کبھی اسلام کا نام استعمال کر کے فسادِ افغانستان، کبھی خالص جمہوریت کی بحالی، کبھی جاگ پنجابی جاگ، کبھی سب سے پہلے پاکستان، کبھی پاکستان کھپے، کبھی میثاق جمہوریت، کبھی تبدیلی انقلاب اور کبھی میثاق معیشت- نعروں کے علاوہ ان میں کبھی کوئی حقیقت نہیں تھی- کچھ لوگوں نے نعروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو نتیجہ میں غدار، کافر، بم دھماکے، پھانسی، جیل اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ ہی اُن کا مقدر ٹھہرے- البتہ ان 76 سالوں میں صرف ایک ہی بینیفشری نے ہمیشہ فائدے حاصل کئے اور آج بھی وہی بینیفشری اپنے مخصوص علاقوں میں انتہائی سیکورٹی میں زندگی کے مزے اٹھا رہا ہے جبکہ عام لوگ بم دھماکوں، منشیات، اسلحہ، بے روزگاری، کاروباری زبوں حالی، ٹارگٹ کلنگ، جرائم اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

تقریباً 8 لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقہ میں مقید 24 کروڑ لوگوں کو اُن پر حاکم 50 لاکھ لوگوں کے تسلط سے آزادی چاہئے لیکن یہ آزادی انہیں جن سیاسی طاقتوں نے دلوانی تھی وہ خود بھی پاور پالیٹیکس کا ہی حصہ ہیں- اس وقت ملک میں 3 ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو اس قابل ہیں کہ انتخابات کے بعد وہ ملک بھر میں اپنی حکومت بنا سکیں- ان تینوں جماعتوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اصلی حاکمین انہیں اقتدار کی راہداریوں میں ٹول پلازے لگانے کا ٹھیکہ دے دیں تاکہ وہ مہنگی ترین بجلی، مہنگے ترین پٹرول، مہنگی ترین اشیائے روزمرہ اور ٹیکس پر ٹیکس لگا کر یہاں زندگی کا سفر (انگریز والا بھی) کرنے والے 25 کروڑ لوگوں کو ٹیکے لگا سکیں- موجودہ حالات میں تحریک انصاف اس وقت اصلی حاکموں کے رگڑے میں ہے، پیپلز پارٹی کو محدود کر دیا گیا ہے جبکہ نون لیگ کے لئے میدان کھلا ہے- پیپلز پارٹی والے احتجاج کر رہے ہیں تو تحریک انصاف والے رگڑا کھا رہے ہیں لیکن اس وقت خوش و خرم نظر آنے والی نون لیگ کے لئے یہی نصیحت ہے کہ کبھی کی راتا لمبیاں تو کبھی کے دن لمبے، اس لئے اتنا زیادہ خوش نہ ہوں کیونکہ یہ خوشی ہمیشہ نہیں رہے گی- پیپلز پارٹی کے لئے مشورہ ہے کہ وہ فی الحال صبر کریں کہ شاید اگلی دفعہ اس پاور پالیٹکس میں اُن کا نمبر لگ جائے- جبکہ تحریک انصاف کو یہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں اپنی صفیں درست کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں سے سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کی روش کو بھی یکسر چھوڑنے کی بھی ضرورت ہے- یاد رہے کہ یہ پاور پالیٹکس ہے اور یہاں کسی کا بھی داؤ لگ سکتا ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply