کیا ہم ایک امت ہیں؟ قاری حنیف ڈار

ہم خود کو فخر سے ایک امت کہتے ہیں۔ یقین کریں اور اب آنکھیں کھول کر حقیقت کا سامنا کریں کہ ھم اب ایک امت نہیں بلکہ ایک امت کا گلتا سڑتا، ڈی کمپوز ھوتا ھوا لاشہ ھیں۔

اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ دنیا کو “آر ایس ایس” اور دیگر ھندو تنظیمیں دھشت گرد کیوں نہیں لگتیں ؟ دھشت گرد اس کو کہتے ھیں جن سے لوگ دھشت زدہ ھوں ، اور کٹر ھندو تنظیموں سے ھند کے باھر کوئی دھشت زدہ نہیں ہے۔ ان کا سارا مشن ھندوستان میں ھندوتا کو غالب کرنا ھے، بعینہ جیسے ھماری دینی جماعتوں کا پاکستان میں اسلام کو غالب کرنا ھے۔ ایک اہم نکتہ یہ کہ ھندو تنظیمیں ایک دوسرے کا دست و بازو ھیں اور کبھی آپس میں نہیں لڑتیں۔ وہ ہندو تنظیمیں جن  کے کروڑوں خدا ھیں اور کوئی ایک قبلہ بھی نہیں ھے۔  جبکہ ھم ایک طرف دنیا کو دھمکیاں دیتے ھیں کہ ھم نے پوری دنیا پر قبضہ کرنا ھے اور دوسری جانب خود آپس میں ایک دوسرے سے بھی “جہاد” کرتے ھیں۔

مسلمان ممالک کی صورتحال کچھ ایسی ھے کہ صدیوں تک لونڈیاں استعمال کرتے کرتے اب خود دنیا کی لونڈیاں بن چکے ھیں۔ آپ سب اسلامی ممالک کو دیکھ لیں، مسلمان خود مسلمانوں پر ظلم کرنے ، مسلم قیدیوں، بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو اذیت دے کر مارنے ،اسپتالوں اور بازاروں پر اندھا دھند بمباری کرنے میں مصروف ھیں۔ گویا یہ ان کا کا اپنا ملک اور اس میں بسنے والے انسان یا مسلمان نہیں بلکہ ان کا جنگی مشقیں کرنے کا زون ھے جہاں ھر اسلحہ استعمال کیا جا سکتا ھے۔ افسوس ہم خود اس معاملے میں ھلاکو کو شرما رھے ھیں۔ ایران شام میں مسلم کشی میں نہ صرف خود پیش پیش ھے بلکہ روس کو بمباری کے لئے سہولت بھی فراھم کر رھا ھے۔ ترکی نیٹو کا ممبر ہے۔ گزرے کل ھم نے بھی افغانوں پر بمباری کیلیے اپنے اڈے امریکہ کے حوالے کیئے تھے جن سے 57 ھزار پروازیں کی گئی تھیں،  بم برسانے کے لئے۔ قیمہ بنے ہوے افغان بچوں اور عورتوں کو بوریوں میں سمیٹ کر ان ہی پروازوں کے نتیجے میں دفن کیا گیا تھا۔ شاید اسی لیے افغانوں کو پاکستان سے ویسی ھی نفرت ھے جیسی ہمیں اسرائیل سے ھے یا یا ہمارے کچھ لوگوں کو ایران یا سعودی حکومت سے محسوس ہوتی ہے۔ خود اپنے ہی ملک میں ہم نعرے مارتے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ یمن کا حال بھی شام جیسا ھے۔ افسوس جس طرف لوگ منہ کر کے نماز پڑھتے ھیں کہ رحمت نازل ھو گی، یمن کیلیے اب وھاں سے بم نازل ہوتے ہیں۔ سوچیے کہاں ھے وہ امت جو جسدِ واحد تھی ؟  جس کا ایک عضو دکھتا تھا تو پورا بدن جاگ کر اور بخار کے ساتھ اس کا ساتھ دیتا تھا ؟ کہاں ھے وہ مسلم جس کے ھاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ تھے؟ آپ لاکھ کہیں کہ ھے مگر حقیقت تو یہ کہ نہیں ھے۔

اللہ پاک نے یہود کو کہا تھا کہ بد بختو ، کتاب کا کچھ حصہ مانتے ھو اور کچھ کا انکار کر دیتے ھو۔ تمہیں کہا تھا کہ آپس میں مت لڑو، مگر تم اقرار کرنے کے باوجود ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ھو، اور پھر جب تمہارے اپنے بھائی بند قیدی بن کر آتے ھیں تو ان کا تاوان دے کر ان کو نیکی کے نام پر آزاد کرا کر تم اللہ پر احسان چڑھاتے ھو، تم جیسے دوغلے لوگوں کے لئے دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں شدید عذاب کے سوا اللہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ھے۔ البقرہ- 84

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ (84) ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ – 85

اور ہم جو اب اللہ کے چہیتے ہونے کے دعوے دار ہیں، ہم کیا کر رہے ہیں۔ ھم خود ھی پہلے جنگوں میں مسلمانوں کو در بدر کرتے ھیں اور پھر ان کے کیمپوں میں کھانا پانی پہنچا کر ثواب بھی کماتے ھیں۔ فرعون نے جب موسی علیہ السلام پر احسان جتایا کہ ھم نے تمہیں پالا تھا تو جواب میں موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل کو بچے دریا میں پھیکنے پر مجبور بھی تو تم نے کیا تھا ،تم مجھ پر مجھے میری ماں سے جدا کرنے کا احسان جتا رھے ھو ؟ کیا ہم بھی یہی کچھ نہیں کرتے؟ عراق اور افغانستان کو ھمارے تعاون سے آگ بنا دیا گیا۔ شام ،لیبیا ، صومالیہ اور یمن مسلمانوں کی یلغار اور بیوقوفیوں میں برباد ھو گئے۔ جب بیٹا ہی باپ کو قتل کر دے تو اس کی تعزیت کوئی کس سے کرے ؟  مزید افسوس کہ ان ممالک کی پیٹھ ٹھونکنے والے علماء اور دینی جماعتیں بھی موجود ھیں جو اپنا اپنا ملک لے کر بیٹھے ہیں۔ سنی دینی جماعتوں کے نزدیک شام میں ایران اور لبنانی حزب اللہ ظلم کر رھے ھیں، جبکہ شیعہ جماعتوں کے نزدیک ایران اور حزب اللہ شام میں لائقِ تحسین کام کر رھے ھیں۔ یمن میں سعودی جو کر رھے ھیں وہ سنیوں کے نزدیک حق کے غلبے کے لئے کرنا بہت ضروری ھے جبکہ شیعہ کے نزدیک سعودیہ یمن میں ظلم کر رھا ھے ،کیونکہ وھاں شیعہ خون بہہ رھا ھے۔ ہم نے بہتے خون کو بھی اپنے اپنے نظرئیے کے مطابق تقسیم کر لیا ہے۔ الغرض ھم اب ایک امت نہیں رہے بلکہ مختلف گروہ بن چکے ھیں جو ایک دوسرے کو اپنے اپنے اسلام کا مزہ چکھا رھے ھیں۔ گویا ھم عذابِ الہی کی مکمل گرفت میں آ چکے ھیں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:

 قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم أو من تحت أرجلكم أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض انظر كيف نصرف الآيات لعلهم يفقهون- الانعام -65

” کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پر قادر ھے کہ تم پر بھیج دے عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمہیں بانٹ دے گروھوں میں اور چکھائے مزہ تمہیں ایک دوسرے کی مار کا، دیکھئے ھم کیسے آیات کو گھما پھرا کر بات کو واضح کر رھے ھیں کہ شاید یہ سمجھ جائیں ،،

افسوس جس بات سے ہم کو خوفزدہ ہو کر توبہ کرنی چاہیے، ہم اسی پہ فخر میں مبتلا ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قاری محمد حنیف ڈار فیس بک پر شاید سب سے زیادہ مقبول لکھاری ہیں۔ آپ نوجوان نسل کے پسندیدہ لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دبئی میں مقیم قاری صاحب نوجوان نسل کی دینی اور سماجی رہنمائی نئے دور کے تقاضوں کے مطابق کرتے ہیں۔ قاری صاحب “مکالمہ” کیلیے مستقل لکھیں گے۔ ایڈیٹر

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply