وہ جو پردیس رہتے ہیں۔۔۔سانول عباسی

وہ جو پردیس رہتے ہیں
کبھی سوچا ہے کیسے دن بِتاتے ہیں
جو چہروں سے نظر آتے ہیں آسودہ
بظاہر پرسکوں لیکن
ٹٹولو تو سہی اِن کو
کبھی اِن کے دِلوں میں جھانک کر دیکھو
غموں کا اک سمندر ہے
سمندر جو بظاہر پرسُکوں لیکن
کسی کمزور لمحے میں
فصیلیں  توڑ کر دل کی نکل آتا ہے آنکھوں سے
اکیلے پن کی وحشت سے جو دل میں ہول اٹھتے ہیں
تو تنہائی میں روتے ہیں
کسی سے کچھ نہیں کہتے
سنو اہلِ وطن پردیس میں
جب
کوئی تہوار آتا ہے
تو پھر ہم کو
وہ رشتے جن سے نسبت خون کی ہے سب
بہت ہی یاد آتے ہیں
بہت ہم کو رلاتے ہیں
وہ ماں کی مامتا
وہ باپ کی شفقت
محبت سے بھرا لہجہ وہ بہنوں کا
وہ عیدی چھین کر لینا
اٹھانا لاڈ بہنوں کے
گلے ملنا وہ بھائیوں سے
وہ جانا شان سے مل کر نمازِ عید پڑھنے کو
وہ جن کے نام پر دھڑکن مچلتی ہو
اُنہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں مُبارک عید کی دینا
وہ پھرنا دوستوں کے سنگ گلیوں میں
جہاں بچپن بِتایا تھا جہاں یادیں کمائی تھیں
وہ سب یادیں وہ سب رستے
وہ سب چہرے وہ سب رشتے
وہ سب اپنے
نمی بن کر اتر آتے ہیں آنکھوں میں
کسی سے کچھ نہیں کہتے
فقط بس سسکیوں میں عید ہوتی ہے
مگر کچھ کر نہیں سکتے
تو پھر یوں غم بھلاتے ہیں
بہت سے ٹوٹے دل مل کر
تو ایسی محفلیں آباد کرتے ہیں
اداسی کے سمندر سے نکل آتے ہیں پل بھر کو
بہت ہی عام باتوں پر
یہ ہنستے مسکراتے ہیں
وہ جو پردیس رہتے ہیں
وہ ایسے دن بِتاتے ہیں.

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply