• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنت نظیر وادی اور خون میں لت پت افغانستان۔۔۔ واجد محمود خٹک

جنت نظیر وادی اور خون میں لت پت افغانستان۔۔۔ واجد محمود خٹک

مشاہد حسین سید جو پاکستانی سیاست اور اسٹبلشمنٹ میں ایک جانا پہچانا نام ہے، نے پچھلے دنوں واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا کو افغانستان میں امن دیکھنا ہے تو اس کا راستہ کشمیر سے ہو کے جاتا ہے۔یعنی پہلے امریکیوں اور دنیا والوں کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہے اس کے بعد کہیں جا کے افغانستان میں تادیر قیام امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔

سید صاحب منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی ہیں اور ہر پہلو پہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس بار بین ا لاقوامی سطح پر بھی سیاسی شطرنج کھیلنے کے لئے چال چلے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک اپنی اس چال میں کامیاب ہوتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ واقعی افغانستان کے امن کا راستہ کشمیر سے ہو کے ہی جاتا ہے۔

میرے خیال میں اگر ہم پاکستان کی سٹیٹ پالیسی پہ غور کریں تو واقعی کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے اڑوس پڑوس کی ریاستیں متاثر ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کشمیر کا مسئلہ نہ ہوتا تو کیا افغانستان کے لئے ہماری اسٹبلشمنٹ کوئی تزویراتی پالیسی بنا پاتی؟ اگر ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے (جو کہ کشمیر ہی کی وجہ سے نہیں ہیں) تو کیا سوشلسٹ رشیا کوشکست فاش دینے کے لئے پاکستانی ریاست اور عوام کو اس انداز سے استعمال کیا جاتا جس میں کئے گئے ہیں؟

اب جبکہ افغانستان بار بار پاکستان پہ سرحد پار سے دراندازی کو کنٹرول نہ کرنے کا الزام لگا رہا ہے تو اس کی وجہ بھی کشمیر ہی ہے۔ کشمیر کی وجہ سے پاکستانی ریاست ان عوامل کے خلاف جو سرحد کے پار کاروائیاں کرتے ہیں کوئی واضح پالیسی نہیں بنا پاتی۔فوج اور اسٹبلشمنٹ کے لئے یہی نان سٹیٹ ایکٹرز یا تو good militants (مجاہدین) ہیں، یا پھر bad militants(دہشت گرد، انتہا پسند یا طالبان) ہیں۔ تاریخی طور سے دونوں قسم کے Militants کا وجود اور لائحہ عمل ایک ہی نظریے کا مرہون منت ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ وہی ایک وجود مختلف شاخوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔ کل کے جو اچھے تھے آج برے ہو گئے ہیں۔ آج کے جو اچھے ہیں ضروری نہیں کہ وہ کل بھی اچھے ہی رہیں۔

اب اگر سیاسی حکومت ان اچھی جہادی گروہوں پہ پابندی لگا دیتی ہے تو اسٹبلشمنٹ کے خیال کے مطابق اس کا مطلب ہوگا ہندوستان کی کشمیر پالیسی کو تسلیم کرنا اور خطے میں اس کی بالادستی کو قبول کرنا۔ اگر ان گروہوں کو لگام نہیں دیا جاتا، تو کشمیر کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی سرحد پار دراندازی ہوتی رہے گی۔

اس قسم کی کاروائیاں کرنے کے لئے جب لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے اور ان کو تربیت دی جاتی ہے تو اس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی جاتی ہے۔ یہی نظریہ ان لوگوں کو ایک world view سے روشناس کرا دیتا ہے اور ان کو ان کے مقصد کا جواز فراہم کرتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی نظریہ مقامی یا علاقائی ہو کے بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے؟ اور ایسے پیروکار پیدا کر سکتا ہے جو اس نظریے کو مقصد بنا کر حاصل کرنے کی کوشش کرے؟

میرے خیال میں کسی مقصد کے حصول اور اس کو تادیر زندہ رکھنے کے لئے ایک ہمہ گیر اور عالمگیر نظریے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی بھی اپنی کشمیر پالیسی کے لئے ایک تشکیل کردہ ریاستی نظریہ اور بیانیہ ہے۔ اسی بیانیے کے تحت پوری دنیاں میں جہاں کہیں بھی مسلمان مشکلات کا شکار ہیں، پاکستانی ریاست اور عوام کے دلوں میں ان کے لئے درد ہے۔ ان سے ہمدردی کی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی اپنی جذبہ ایمانی کی وجہ سے استطاعت رکھتا ہو تو اپنی مسلمان بہنوں اور بیٹیوں کو غیر مسلموں کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی بھی بن جانے پہ تیار ہوتے ہیں۔

پاکستانی ریاست اپنی اسی ریاستی پالیسی،نظریے اور بیانیے کے ہوتے ہوئے، لاکھ کوشش کرے، پھر بھی مجاہدین افغانستان، فلسطین اور چیچنیا میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔شیعہ اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگ کٹتے اور مرتے رہیں گے۔ عیسائیوں اور ہندؤں کو زبردستی مسلمان بنایا جاتا رہے گا۔ اور اسماعیلیوں اور کیلاشیوں کے سر تن سے جدا کئے جاتے رہیں گے۔

کچھ بھی ہو اسی نظریے کے تحت ہتھیار اٹھانے والوں کو، ہمیشہ کے لئے، کشمیریوں کو بھارتی سورماؤں کے چنگل سے آزادی دلانے کے لئے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔

اب ظاہر ہے کشمیر پاکستان کا شہ رگ ہے، تو کوئی ذی شعور اپنے شہ رگ کو کیسے اپنے دشمن کے ہاتھ میں دے سکتا ہے؟ اس لیے کشمیر کے متعلق ریاستی پالیسی بدلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ پاکستانی عوام اور بالخصوص پشتون آبادی حافظ سعید اور مسعود اظہر کے قیمتی انڈوں سے بہرہ مند ہوتے رہیں گے۔ اور ان کی لمبی عمروں کے لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ، قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں مزید ۷۰ سے ۸۰ ہزار افراد تک اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہٰذا دنیا کو اگر واقعی میں افغانستان کی فکر ہے تو کشمیر کا مسئلہ حل کر دے۔جب تک کشمیر، پاکستان نہیں بنتا افغانستان جلتا رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply