• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مظلومین کربلا، ناصبیت اور چونچ میں رکھا پانی کا ایک قطرہ – محمد عامر ہاشم خاکوانی

مظلومین کربلا، ناصبیت اور چونچ میں رکھا پانی کا ایک قطرہ – محمد عامر ہاشم خاکوانی

مشہور مورخ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں صحابہ کے دور کی جنگوں ، جنگ جمل، صفین کے حوالے سے امام شافعی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ امام فرماتے ہیں، خدا نے ہماری تلواروں کو ان کے خون میں بھیگنے سے محفوظ رکھا تو ہمیں اپنی زبانوں‌کو اس میں آلودہ ہونے سے بچانا چاہیے۔

یہ ویسے اہل سنت کا مشہور عقیدہ ہے۔ اہل سنت صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی باہمی جنگو‌ں‌کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں، کہ کہیں کسی صحابی کے خلاف کلمہ منہ سے نکل جائے۔ اگرچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو متفقہ طور پر چوتھا خلیفہ راشد تسلیم کیا جاتا ہے، تاہم ان کے خلاف نبرد آزما ہونے والے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو باغی نہیں سمجھا جاتا، خطائے اجتہادی کی رعایت دی جاتی ہے۔ ابن خلدون نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ ان دو شخصیات کے مابین جنگوں‌کے حوالے سے اگر کچھ اختلاف تھا تو وہ صرف اسی نسل میں تھا، اس سے اگلی نسلوں‌میں یعنی پوری امت مسلمہ اس پر یکسو ہوگئی کہ جناب علی کرم اللہ وجہہ امام عادل تھے۔

جہاں‌تک کربلا کا تعلق ہے۔ امام مظلوم کی شہادت، اہل بیت اطہار کے ساتھ جو ظلم یوم عاشور سے پہلے، اس سیاہ دن اور اس کے بعد ہوا، اس کی مثال تاریخ اسلامی میں نہیں ملتی۔ نواسہ رسول نہایت بےدردی، سنگ دلی سے شہید کر دیے گئے، نہایت وحشیانہ انداز میں سیدنا کے جسم مبارک کو کچلا گیا اور سر مبارک نیزے کی انی پر بلند کر کے پہلے بدبخت، مردود ابن زیاد کے دربار میں‌ لے جایا گیا اور پھر یزید کے دربار میں جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور سیدہ زینب و دیگر اہل ارکان اہل بیت کو لے جایا گیا۔ یوم عاشور کی دلدوز، جگر چیر دینے والی لہو رنگ روداد چاہے کسی بھی تاریخ‌کی کتاب میں‌ پڑھی جائے، انسان دہل جاتا اور آنکھیں بہنے لگتی ہیں۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے ناصبین کا ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے جو یزید کے اس ظلم عظیم کا دفاع کرتا، مختلف حیلوں‌ بہانوں سے اسے بچاتا اور بعض تو ایسے بھی ہیں‌ جو اسے حضرت کہہ کر پکارتے ہیں۔ اللہ اکبر۔ جس کی فوج نے اللہ کے آخری رسول کے جگر گوشے، جنت میں‌ جوانوں‌ کے سردار کو انتہائی بہیمانہ انداز سے قتل کیا، اس گروہ کو بچانے کی تاویلیں گھڑی جائیں۔ کاش ایسے لوگ اپنے بیٹوں کے نام یزید رکھنے کی جرات کریں اور روز حشر اپنا انجام یزید کے ساتھ کرنے کی دعا مانگیں۔

میں دلائل اور بحث مباحثے میں‌ جانے کے بجائے صرف ایسے لوگوں‌ سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ صرف یہ تصور کریں کہ 10 محرم کی اس شام اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزری ہوگی؟ جب ظالم، لعین اور مردود لشکری سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک کو تلواروں، تیروں اور نیزوں سے چھلنی کر رہے تھے، وہ سر جس پر ان کے نانا بوسے دیا کرتے، زلفوں‌ میں انگلیاں‌ پھیرتے اور پیار سے اپنے سینے سے لگاتے تھے، اسی جسم پر آہنی تیر، نیزے اور تیز دھار تلواریں گر رہی تھیں۔ اسی سر مبارک کو جب شمر منحوس و مردود اور بعض روایات کے مطابق سنان بن انس نے گردن سے کاٹ کر الگ کیا تو روضہ مبارک میں‌ زلزلہ نہیں آ گیا ہوگا؟ لب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان قاتلوں‌ کے لیے کیا الفاظ نکلے ہوں گے، کسی کو ان میں کوئی شک ہوسکتا ہے۔ پھر جب ظلم کی انتہا مزید انتہا میں‌ بدل گئی، جسم مبارک پر گھوڑے دوڑائے گئے، شہدا کے لاشے بغیر مدفون کچلے گئے، خیموں‌ کو آگ لگائی گئی اور پاکباز بی بیوں کو اسیر بنایا گیا، اس وقت ہمارے آقا، تاجدار مدینہ پر کیا گزری ہوگی؟ کیا ہم میں سے کسی میں اتنی جرات ہے کہ وہ اپنا شمار اس گروہ کے ساتھ کرنے کا تصور کرے، قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھی کہلانا پسند کرے؟

ایک منٹ کے لیے فرض‌ کر لیں کہ یزید بےگناہ تھا، اس کا کوئی قصور نہیں‌ تھا، اس نے ابن زیاد کو یہ حکم دیا تھا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے شایان شان سلوک کیا جائے۔ اسی یزید کو جب اس سانحہ کا علم ہوا تو اس نے کیا کیا؟ کیا ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ بطور مسلمان اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا امیدوار بننا ہے اور جو ظلم عظیم اس کے گورنر ابن زیاد سے سرزد ہوگیا، اس کے بعد ابن زیاد کے ساتھ یزید کے لیے بھی رحم اور معافی کے تمام امکانات ختم ہو چکے۔ کیا یزید نے ابن زیاد کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ اس کی گردن مار کر قصاص حسین لیا؟ جواب نفی میں‌ ہے۔ یزید نے ایسا کچھ نہیں‌کیا۔ ہمارے سامنے مختلف روایات ہیں۔ہم یزید کی مخالف روایات مسترد بھی کر دیں، تب بھی کوئی ایسی مستند روایت نہیں جس سے ظاہر ہو کہ یزید کو قتل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کوئی شرمندگی، ندامت ہوئی ہو، اس نے قصاص حسین لیا ہو، اپنے اس بدبخت گورنر کو کیفر کردار تک پہنچایا ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہمارے پاس یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یزید ظالم اور حقیقی قاتل حسین تھا۔ اگر وہ چاہتا تو اتنا بڑا سانحہ کبھی رونما نہ ہو پاتا۔

یہ حقیقت ہے کہ کربلا کے سانحے کے بعد امام مظلوم پر ہونے والے ظلم کے حوالے سے امت مسلمہ میں یکسوئی اور اتفاق رائے ہی پایا گیا، حتیٰ کہ اموی دور میں بھی اس کا دفاع ممکن نہیں‌ ہو سکا۔ ابن خلدون ہی نے اپنی تاریخ میں امام احمد بن حنبل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے صاحبزادے نے ان سے پوچھا کہ آپ کی یزید کے بارے میں کیا رائے ہے؟ امام احمد بن حنبل نے جواب دیا، جس شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرایا ہو، اس کے بارے میں کیا رائے ہوسکتی ہے؟ فرزند نے پوچھا، پھر آپ نے کبھی یزید پر لعنت کیوں‌ نہیں بھیجی؟ امام نے جواب دیا، ’’بیٹے جب سے تم نے ہوش سنبھالا، کبھی میرے منہ سے کسی کے لیے لعنت کے الفاظ نکلتے سنے ہیں۔‘‘ یعنی دوسرے الفاظ میں چونکہ میں نے کبھی لعنت بھیجی ہی نہیں، اس لیے یزید کے لیے لعنت کے الفاظ استعمال نہیں‌ کیے، ورنہ قاتل حسین ہونے کے ناتے وہ ملعون ہی ہے۔

مجھے کوئی بھی پوسٹ‌ تحریر کرتے ہوئے اتنی کوفت اور افسوس نہیں ہوا، جتنا اس بلاگ کے لکھنے میں ہو رہا ہے۔ یعنی اب ہمیں قاتلین حسین کی مذمت کے لیے بھی دلائل ڈھونڈنے ہوں گے، ہمت کر کے لکھنا پڑے گا۔ ناصبیت کبھی اتنی طاقتور بھی ہوسکے گی، اس کا تصور تک نہیں تھا۔ حیف در حیف کہ ہم قتل حسین کا افسوس بھی نہ کر پائیں، ملعون قاتلین حسین پر لعنت بھی نہ بھیج سکیں اور فقہی موشگافیوں‌ میں‌ پڑ جائیں، امام عالی مقام کی حیران کن شجاعت، ایثار اور عظیم قربانی کے لیے اجتہادی گنجائش جیسی اصطلاحات برتیں۔
اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے ۔
آج شام ہی میں نے اس پر ایک پوسٹ کی تھی، اسے ساتھ ملانا مناسب رہے گا۔
……………………………………………………..
اے اللہ میرے صدق پر گواہ رہنا
میں اگر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں ہوتا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے لڑتے ہوئے مرنا پسند کرتا. اگر میں حسین رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوتا تو حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں میں سر کٹانے پر فخر محسوس کرتا. اے اللہ میں تجھ سے ان دونوں کی جماعت میں اٹھائے جانے کا سوال کرتا ہوں. آمین

امام عالی مقام کی شہادت ہمارے تاریخ کے چند انتہائی افسوسناک اور دلدوز واقعات میں سے ایک ہے۔ میرے جیسے گناہگار تو اس قابل بھی نہیں کہ امام مظلوم کے لشکر کے سپاہی ہونے کا دعویٰ کر سکیں۔ ہم ان کے غلاموں کے غلام، ان کے قدموں کی خاک۔ یہ آرزو مگر دل میں جنم لیتی ہے کہ کاش ہم بھی اس لہو رنگ شام کومقتولین امام میں شامل ہوتے، ہماری لاشوں کو پامال کیا جاتا، خیموں میں آگ لگتی، ہمارے بچوں کی گلے کاٹے جاتے، اور روز آخرت بیدار ہونے پر رب تعالیٰ کو ہم کہتے کہ تیرے حبیب کے نواسے کا ساتھ دیتے ہوئے ہم پر یہ گزری، تیرے دین کی سربلندی کے لیے یہ کرب اٹھایا، اے ہمارے رب! اس قربانی کو قبول کر۔ کاش کہ ایسا ہو پاتا۔ ایسے خوش نصیبی، سعادت ہمارے مقدر میں نہ تھی، یہ آرزو تو ہم دل میں پال سکتے ہیں، اپنے سردار کی جماعت میں اٹھائے جانے کی دعا تو کر سکتے ہیں۔

خدا اس منحوس ساعت سے محفوظ رکھے جب امام عالی مقام  کے اقدام کو خروج کہیں، اس وقت سے پہلےمیری زبان گنگ ہوجائے، ہاتھ شل ہوجائیں، قلم لکھنا چھوڑ دے، جب جنت میں جوانوں کے سردارکی بےمثال جرات، شجاعت اور قربانی کا اعتراف کرنے کے بجائے ظالموں کے حق میں دلائل تراشے جائیں، ان کے لیے رعایتیں نکالی جائیں اور کربلا کے مقتولین کی عظیم قربانی کے لیے اجتہادی گنجائش کا زمرہ تخلیق کیا جائے۔ اللہ ایسی سنگ دلانہ فقہی دانش پر رحم فرمائے۔ آمین
……………………………………………………..
پس نوشت: سچ تو یہ ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے ساتھی، میری، آپ کی، ہم سب کی گواہی، وکالت سے بےنیاز ہیں۔ جو بلند ترین مقام ان شہداء کو مل گیا، کوئی اور اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ تحریر دراصل میری گواہی نہیں، اپنے عجز بیان کا اندازہ ہے۔ یہ تو دراصل اس چڑیا کی پیروی کرنا مقصود ہے، روایت کے مطابق جو اپنی چونچ میں‌ پانی کے قطرے بھر کر آتش نمرود کو بجھانے کے لیے پھینکتی رہی، تاکہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچایا جا سکے۔ یہ چونچ میں رکھا پانی کا وہی قطرہ ہے۔ رب تعالیٰ سے اس امید کے ساتھ کہ وہ نیت کو دیکھتے ہوئے اس ناکارہ کی یہ تحریر قبول فرمائے اور روز آخرت میرے جیسے غلاموں‌ کے غلام کا معاملہ اپنے آقا کے ساتھ کردے ، ان کے صدقے اس گناہگار پر بھی رحم فرمائے۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(بشکریہ دلیل ڈاٹ پی کے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply