سلگتے بلوچستان کا ہمدرد کون؟۔۔۔۔کاظم بلوچ

بلوچستان جس کا نام آتے ہی ذہن و گمان میں پسماندگی، درماندگی، لاچارگی، بھوک و افلاس کا خاکہ ابھرتا ہے۔ جہاں آج کے تیز رفتار ترقی کے دور میں بھی ایک سماجی، معاشی طور ایک گُھپ اندھیرے، سناٹے و خوف کا راج ہے۔ گو کہ یہاں کے مختلف معدنی وسائل و ساحل کا اس وقت پورے خطے اور دنیا میں چرچہ عام ہے۔ جہاں اگر ماضی کے اوراق کو پلٹا جائے تو تو ایک بھیانک ماضی جس میں خون ریزی عدم اعتماد، پس ماندگی سیاسی و جمہوری نظام سے اکتاہٹ، سراسیمگی کے دریچے کھلتے ہیں، جن کا تسلسل آج بھی سیاسی سماجی و معاشی اعتماد کی کمی کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اس وقت بلوچستان، بلوچ مخلوق کا اس خطے کا اصل ہمدرد، اصل خیر خواہ، اصل درد وار کون ہے، جو اس خطے میں سیاسی، سماجی، معاشی پسماندگی کی جنگ اور اس خطے میں فکر و زانت شعور کی آبیاری کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ جدوجہد کس طرح اس خطے، یہاں کے بسنے والے باسیوں اور اس نظام کے لیے بار آور ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ متحرک سیاسی و سماجی جدوجہد کر کے اپنے لوگوں کو مجموعی مسائل سے نکالنے کی، بقا کی سیاسی و جمہوری بقا کی جنگ قلم اور سیاسی سوچ سے مسلح ہو کر لڑی ہے اور آج اس ملک کے ایوانوں میں اس ملک کے قانون و آئین کے تحت جہد مسلسل کے ذریعے حصہ بن کر لڑ رہے ہیں۔

ہاں ہم بات کرتے ہیں بلوچستان کی جہاں اس وقت پس ماندگی کا راج ہے۔ بلوچستان کا کونہ کونہ ایک گھونٹ صاف پانی، صحت کے حوالے سے ایک پینا ڈول کی گولی، ایجوکیشن کے حوالے سے ایک اسکول اور ایک ٹیچر کا منتظر ہے اور آج بھی اکیسویں صدی میں اس وطن کے بیٹے ایک وقت کی روٹی اور پازوار سے محروم ہیں۔ جس کا تعلق اس ریاست کے اختیار داروں اور اس ریاست کے قائم کردہ پالیسی ساز اداروں سے ہے۔ جہاں الیکشن اور ووٹ کے ذریعے نمائندے چنے جاتے ہیں جو اس صوبے کے مفلوق الحال لوگوں کو ترقی دینے کے ذمہ دار ہیں۔

بلوچستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس خطے، اس وطن اور اس سرزمین سے مخلص رہنے والے سیاسی رہنماؤں کو ہمیشہ ان ریاستی اداروں سے دور رکھا گیا ہے جہاں ان اداروں میں بیٹھ کر شعور سے لیس نوجوانوں کو اپنے لوگوں کی خدمت کا موقع ملتا جو ایک عدم اعتماد کی فضا ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس کے اس صوبے پر مختلف اشکال میں اس کے اثرات پڑے ہیں۔ اس صوبے سے مخلص سیاسی قیادت جن پر اس صوبے کا عوام کا اعتماد ہے، ہمیشہ اس قیادت کو سیاسی طور دیوار سے لگانے کی کوشش رہی ہے تاکہ اس صوبے کی اصل مخلص سیاسی قیادت کو زیر عتاب رکھ کر انہیں صوبے کی سیاسی، سماجی و عوامی خدمت سے دور رکھا جا سکے۔

یہاں نیپ کی عوام دوست حکومت رہی جسے برطرف کیا گیا۔ یہاں سردار اختر جان مینگل کی حکومت رہی جسے توڑا گیا۔ یہاں حقوق کی جمہوری جنگ میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نوجوانوں کو پابندِ سلاسل کیا گیا، جس کا اصل ماخذ اس سرزمین اس صوبے یہاں کے عوام سے مہر و محبت تھی۔ وسائل و ساحل سے مالا مال صوبے کے عوام آج انتہائی غربت، پسماندگی، معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور صوبہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہیں اس صوبے، یہاں کے عوام کے مسائل و مصائب سے کوئی غرض نہیں جو ہمیشہ روایتی طور بلوچستان کے عوام پر مسلط رہے ہیں، جنہوں نے اس صوبے پر حکمرانی کی ہے اور جن کی غلط سیاسی، معاشی و معدنی فیصلوں کے عذاب اس صوبے کے عوام بھگت رہے ہیں۔

2018 کے گذشتہ الیکشن کے بعد بلوچستان میں ایک کٹھ پتلی صوبائی حکومت بلوچستان کے عوام پر عذاب کے طور پر نازل ہو چکی ہے۔ اس نو مہینے میں بلوچستان کے عوام کو مزید پسماندگی، درماندگی کی جانب دھکیلا گیا ہے۔ جہاں اس نااہل و نالائق صوبائی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے اس صوبے کے اَسی ارب روپے لیپس ہو چکے ہیں۔ جو ایک غریب صوبے کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ جس کے نااہل اختیار داران ان پیسوں و فنڈز کا اس صوبے کے عوام کے لیے بہتر استعمال نہ کر سکے اور ان نو مہینوں میں صوبائی حکومت محض ٹوئیٹر پر حکومت چلا رہی ہے جہاں بلوچستان میں سوشل کمیونیکیشن اور ٹوئیٹر کا استعمال دو فیصد سے بھی کم ہے۔

اب جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کے طور موجود ہے اور مختلف سیاسی، سماجی و معاشی مسائل کو نمایاں کر رہی ہے جہاں ایک قانون ساز ادارہ پہلی بار متحرک نظر آ رہی ہے جس سے کلوننگ شدہ گروہ باپ کے اختیار داران کو اپنی نااہلی و نالائقی چھپانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔

ماضی قریب سے لے کر 2018 کے الیکشن کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی نے سیاسی حکمت عملی اور یہاں کے مفلوک الحال لوگوں کی مختلف مشکلات کا سامنے رکھ کر چھ نکات مرکزی سرکار کے سامنے پیش کر دیے کہ یہ چھ نکات سے بلوچستان کے مسائل کو کچھ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ جس پر معاہدہ ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کو نیشنل اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دیا گیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے وزارت و مراعات لینے کے بجائے آزاد بینچز پر بیٹھ کر ہمیشہ اس صوبے، اس ملک کے مظلوم طبقات اور اصولوں کی بات کی اور اصولی سیاسی فلسفے پر کار بند ہوکر حق گوئی کی صدا بلند کرتے رہے، جو آج تک جاری ہے۔

نیز بلوچستان میں اپوزیشن میں رہ کر صوبائی اندھی حکومت کو آئینہ دکھاتی رہی ہے، اب جب کہ ملک کی سیاسی فضا مختلف محاذ پر بدلتی جا رہی ہے اور مرکزی سرکار مختلف اپویشن جماعتوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہونے جا رہی ہے جس کے بعد بلوچستان میں باپ کی حکومت پر جان کی بنی ہوئی ہے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ کے مختلف بیانات جو بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کی حوالے سے اشارے ہیں اس پر جام کمال، سرفراز بگٹی اور لیاقت شاہوانی جیسے لوگ سیخ پا ہو کر سوشل میڈیا میں آ کر سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں، جو ان کی سیاسی ناکامی کو ظاہر کر رہا ہے۔

جب تک بلوچستان میں حقیقی سیاسی قیادت یہاں کے عوام سے مخلص کیڈر کو موقع نہیں ملتا، نام نہاد کرپٹ لوگوں کے جم غفیر سے اس صوبے یہاں کے عوام اور یہاں کے پسماندہ لوگوں کی خدمت نہیں ہو سکتی، نہ ہی یہاں امن و امان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جب کہ باپ جیسی جماعتیں اس صوبے میں مزید انتشار کا سبب بن رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس صوبے میں ترقی و مسائل حل کرنے کی صلاحیت اس صوبے سے مخلص قوم دوست قیادت کے پاس ہے، جو در اصل صوبے کے یہاں کے لوگوں کے ہم درد ہیں اور بلوچستان کے ستر سالہ سیاسی، سماجی، معاشی مسائل اور امن و امان کو بحال کر سکتے ہیں اور یہاں کے نوجوانوں کا سیاسی اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ باپ اور اس قبیل کی جماعتوں کا مقصد لوٹ مار کرپشن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان جیسی جماعتوں کی وجہ سے بلوچستان میں دور دور تک ترقی کا گمان نہیں، نہ یہاں کی سیاسی قیادت حقیقی سیاسی جماعتیں اور نوجوان ان جیسے لوگوں پہ کوئی اعتماد رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے بلوچستان روز بروز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply