پاکستان کا مستقبل خطرے کا شکار۔۔۔منصور مانی

ذرائع ابلاغ میں جنوری 2018 میں قصور کی 6 سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کرنے کی خبر سامنے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس خبر نے پورے ملک میں کہرام مچا دیا، پولیس نے اس حوالے سے سیکیورٹی کیمروں کی ویڈیو بھی جاری کی، جبکہ ایک خاکہ بھی سامنے لایا گیا۔

اس واقعے کے بعد 1000 کے قریب افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا، اور کئی دنوں کی جستجو کے بعد ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، جس کا ڈی این اے مثبت آیا تھا، ملزم معصوم بچی کا محلے دار تھا۔

اسی طرح ایک واقعہ ایک سال قبل جنوری 2017 میں کراچی میں پیش آیا تھا، جب ایک بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، 6 افراد نے بچی کا ریپ کیا تھا، اس کے بعد گردن پر چھری پھیر کر سیدھے ہاتھ کی نس بھی کاٹ دی تھی، ملزمان نے بچی کو مردہ سمجھ کر ندی میں پھینک دیا تھا.

اس کیس میں 7 افراد کو حراست میں لیا گیا، اُن کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے گئے، بعد میں 82 افراد کو شامل تفتیش کیا گیا، لیکن نتیجہ ابھی تک کچھ نہیں نکل سکا، پولیس آج بھی تفتیش ہی کر رہی ہے، اس واقعے کے 15 دن بعد جب بچی سے گفتگو کی گئی تو وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی کہ “اُس دن میں نے نئی چپل پہنی تھی”۔

بچوں کے ریپ کو دنیا بھر میں اہم مسئلہ مانا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ خطوں میں بھی بچے کہیں مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ 50 لاکھ 15سے 19 برس کی لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایشیا میں 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں یا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بچوں کا ریپ، پیسے کا استعمال

جسم فروشی ایک ایسا ناسور ہے، جو غربت کے شکار علاقوں میں بچوں میں بھی سرائیت کر چکا ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں کا لاوارث ہونا یا آسانی سے دباو میں آجانا ہے، ابتدائی طور پر بچہ کسی نا کسی دباو میں آکر جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے جبکہ بعض کیسز میں بعد میں اس کام کو آمدنی کا ذریعہ سمجھ لیتا ہے۔

ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے بچے بھی اس ناسور کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ ایک لاکھ 70 ہزار بچے سیکس ٹریڈ میں استعمال کیے جاتے ہیں، بد قسمتی سے یہ بچے لاوارث(اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بھی سیکس ٹریڈ میں ملوث بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، بہت سے بچے دوسرے بچوں کے لیے عصمت فروشی کی ترغیب کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

وہ چند ممالک جہاں بچوں کو پیسے دے کر ان کا ریپ کیا جاتا ہے،ان بچوں میں 90 فیصد لاوارث(اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔

وہ چند ممالک جہاں بچوں کو پیسے دے کر ان کا ریپ کیا جاتا ہے،ان بچوں میں 90 فیصد لاوارث(اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔
پاکستان . . . .

غیر سرکاری تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بھی بچے جسم فروشی میں ملوث ہیں، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے کہ غربت،ان کا لاوارث ہونا، جبری مشقت اور محنت مزدوری اس میں شامل ہیں۔

اس چیز کا زیادہ تر شکار وہ بچے ہیں جو گلی ،محلوں یا پھر ہائی ویز پر واقع ہوٹل اور چائے خانوں میں مختلف نوعیت کی محنت مزدوری کرتے ہیں، ان میں زیادہ تر ان برادریوں کے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی اکثریت ان سے کام کرواتی ہیں، ساحل کی رپورٹ کے مطابق ٹرک اڈے اور ڈرائیورز بھی اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں، بچوں کے ساتھ جنسی فعل سر انجام دینے والے زیادہ تر ڈرائیورز اور نچلےدرجوں کے سیکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ اُن کا اپنے گھر سے دور ہونا بتایا جاتا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم ساحل نے کراچی، لاہور، سکھر، کوئٹہ، روالپنڈی اور پشاور کے ٹرک اڈوں اور بس ٹرمینلز پر ایک سروے کیا، جس میں 168 بچوں سے سوالات کرکے نتائج مرتب کیے گئے۔

سروے کے مطابق وہ بچے جن کو پیسے دے کر ان کا ریپ کیا جاتا تھا، ان میں 44 فیصد پشتون، 21 فیصد پنجابی، 10فیصد سرائیکی ،9فیصد سندھی اور 16 فیصد دیگر زبان بولنے والے مزدور بچے شامل تھے۔

غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 47 فیصد بچے کبھی اسکول گئے ہی نہیں جبکہ 32 فیصد بچے پرائمری یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کر پائے تھے، باقی ماندہ 21 فیصد بھی انتہائی ابتدائی تعلیم کے بعد دوبارہ کبھی درس گاہ نہیں گئے۔
چائلڈ پورنو گرافی

اربوں ڈالر کی پورنو گرافی انڈسٹری میں چائلڈ پورنوگرافی کا حصہ 100 ارب ڈالر سالانہ (100 کھرب روپے سے زائد) سے زیادہ لگایا جاتا ہے، فحش فلمیں بنانا (پورنوگرافی) امریکا سمیت کئی ممالک میں قانونی ہے، لیکن چائلڈ پورنو گرافی کی کسی بھی ملک میں اجازت نہیں، اس کے خلاف بھر پور اقدامات بھی بعض اوقات نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے چائلڈ پورنو گرافی دنیا بھر میں فروغ پا رہی ہے۔

کئی ممالک میں انٹرنیٹ پر بچوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کا مواد آزادانہ طور پر موجود ہے، ان میں تمام خطوں کے ممالک شامل ہیں۔

ایک مثال جاپان سے لی جا سکتی ہے، جہاں چائلڈ پورنو گرافی کی تقسیم کاری (ڈسٹریبیوشن) کے حوالے 387 سے مقدمات درج ہیں، جبکہ چائلڈ پورنوگرفی پیش کرنے اور بنانے کے حوالے سے 724 مقدمات درج ہیں، اور اس حوالے سے اب تک درج کیے جانے والے مقدمات کی تعداد تقریباً 1142 ہے۔

میکسیکو چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے دنیا بھر میں بد ترین صورتحال کا شکار ہے، اعداد وشمار دل دہلا دینے والے ہیں، چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی آپریشن میں 12 ممالک میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کے 60 افراد کو گرفتار کیا گیا جن ممالک میں اس حوالے سے آپریشن کیا گیا، ان میں میکسیکو،امریکا،ارجنٹائن، برازیل، چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، اسپین، گوئٹے مالا، پیراگوئے، ارگوئے اور وینز ویلا شامل تھے۔

آسٹریا کے تفتیش کاروں کے مطابق دنیا بھر کے 77 ممالک ایسے ہیں، جہاں انٹرنیٹ سے چائلڈ پورنو گرافی کا مواد ڈاون لوڈ کیا جاتا ہے، یہ تفتیش کار یہ بھی سامنے لائے کہ پورنو گرافی کا زیادہ تر مواد ایسٹ یورپ میں فلمایا جاتا ہے اور برطانیہ میں ویب پر ڈالا جاتا ہے، جبکہ ویب سائٹ روس کی ہوتی ہیں اور اس کا ہوسٹ آسٹریا ،امریکا یا روس کا کوئی سرور ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈاون لوڈ کی کم سے کم قیمت 89 ڈالر ہوتی ہے ، 24 گھنٹے کے اندر 8000 سے زیادہ کلک وصول کرنے والی ویڈیوز کو ویب سائٹ 48 گھنٹے کے اندر بند کر دیتی ہیں۔

تفتیش کاروں نے اپنی تحقیق میں مزید انکشاف کیا کہ پورنو گرافی کے مواد کا 51 فیصد حصہ امریکا جب کہ 20 فیصد روس سے حاصل کیا جاتا ہے۔
چائلڈ پورنو گرافی اور پاکستان

چائلڈ پورنو گرافی کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو ترجیح دی جانے لگی ہے، جس کی ایک وجہ ان ممالک میں درپیش امن و امان کی صورتحال اور سستا ہونا ہے، اس سلسلے میں نیپال، بنگلہ دیش، ہندوستان، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔

چائلڈ پورنوگرافی کے نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان میں بھی موجود ہیں، سرگودھا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چند بچوں کو ناروے لے کر جا رہا تھا، یہ شخص چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث تھا، ڈان اخبار کے مطابق اس شخص کے قبضے سے 65000 ہزار وڈیو کلپس اور تصاویر برآمد ہوئی تھیں، چائلڈ پورنو گرافی کے نیٹ ورک مبینہ طور پر لاہور، کراچی، قصور، شیخوپورہ، راولپنڈی، مانسہرہ، ہری پور، جعفر آباد اور سرگودھا میں موجود ہیں، تاہم اس حوالے سے کبھی باقاعدہ تفتیش وتحقیق نہیں کی گئی۔
پاکستان میں بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات جو فلمائے گئے—اعدادوشمار ایچ آر سی پی
پاکستان میں بچوں کا ریپ

یکم جنوری 2018 سے 20 جنوری 2018 تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے چندواقعات سامنے آ چکے ہیں، جو کے قصور ، سانگھڑ، مردان اور ٹنڈو آدم میں ہوئے، یہ وہ واقعات تھے جو اخبارات اور سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آئے۔

سانگھڑ میں 5 سال کے بچے کا گینگ ریپ کیا گیا، واقعے کے مبینہ ملزمان بھی گرفتار ہوئے، دوسرا واقعہ ٹنڈو آدم میں پیش آیا، جہاں ایک بچی کا ریپ ہوا، واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد ایک ملزم اور ملزمہ کو گرفتار کیا گیا، تیسرا واقعہ قصور میں 6سالہ بچی کے ساتھ پیش آیا، جس کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا، جب کہ مردان میں بھی بچی ریپ کے بعد قتل ہوئی۔

کسی بھی قسم کی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچے مجرموں کا ایک آسان شکار ہوتے ہیں ، پاکستان میں ہر سال بچوں کے ریپ، اور ریپ کے بعد قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

پاکستان میں ریپ کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمر اوسطاََ 5 سے 11 سال ہوتی ہے۔
2017میں بچوں کا ریپ

2017 کے یہ اعداد و شمار غیر سرکاری تنظیم ساحل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے حاصل کیے گئے ہیں، تاہم یہ معلوم رپورٹس پر مشتمل ہیں جبکہ مکمل نہیں ہیں، اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
بچوں کا ریپ ، صوبائی شرح (2017)
بچوں کے ریپ حوالے سے شہروں کی درجہ بندی (2017)

سال 2017 کے مکمل اعداد و شمار ابھی میسر نہیں ،ان پر ابھی کام جاری ہے، معلوم اعداد و شمار کے مطابق 1441 بچوں کا ریپ کیا گیا، 15 واقعات ایسے تھے جن میں ریپ کو باقاعدہ فلمایا بھی گیا، ریپ کے بعد 31 فیصد بچوں کو قتل کر دیا گیا، 66 فیصد واقعات دیہی جبکہ 34 فیصد واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے۔

بچوں سے ریپ کے مقدمات میں 3215 افراد کو نامزد کیا گیا یا وہ اس میں کسی نہ کسی حوالے سے ملوث پائے گئے، ان افراد میں ، ایک بڑی تعداد بچوں کے جاننے والوں، مذہبی یا لبرل سمجھے جانے والے لوگوں، پڑھے لکھے افراد سمیت سیکیورٹی اہلکاروں پر مشتمل تھی۔
2016میں بچوں کے ریپ کے واقعات
صوبوں کی شرح

غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق 2016 میں بچوں کے ساتھ مجموعی طور پر ریپ اور تشدد کے 4139 واقعات ہوئے، جن میں بچوں کے اغوا کے بعد ریپ کے واقعات بھی شامل ہیں، جب کے 100 بچےریپ کے بعد قتل بھی کیے گئے۔

2016 میں خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں ایک گینگ پکڑا گیا، جو کہ بچوں کو اغوا کرنے کے بعد اُن کو مختلف لوگوں کے ساتھ جنسی افعال پر مجبور کرتا تھا، جب کے پنجاب کے شہر کوٹ ادو میں بھی ایسا ہی ایک گروہ پکڑا گیا، جو کہ بچوں کو اغوا کر کے اُن کے ریپ کی ویڈیوز بناتا تھا، لاہور اور سرگودھا میں بھی ایسے ہی کچھ عناصر سیکیورٹی اداروں کی گرفت میں آئے، جن سے 26 بچوں کو بازیاب بھی کیا گیا۔

سندھ میں بدین سے 2 آدمیوں کو گرفتار کیا گیا، جو 11 سے 15 سال کی لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے ریپ کی ویڈیوز بناتے تھے اور اس کے بعد انہیں قتل کرکے دفنا دیتے تھے، دونوں ملزمان نے 5 لڑکیوں کے ریپ کا اعتراف کیا۔

سال 2016 میں 6759 افراد بچوں کے ریپ میں ملوث پائے گئے۔
شہروں کی درجہ بندی (2016)
10 سال کا جائزہ

بچوں سے ریپ کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، گذشتہ 10 برس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کئی حقائق سامنے آتے ہیں۔
2008 سے 2017 تک بچوں کے ریپ اور قتل کے واقعات

یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کچھ مخصوص شہروں میں ہی اس قسم کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں۔
6شہروں کے اعداد و شمار

پاکستان کے 6 بڑے شہروں کے اعداد و شمار جہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے.

بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث افراد کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو سکتا ہے، بچوں کو سب سے زیادہ خطرہ بہرحال واقف کاروں سے ہے، جو بچوں کو بہلا پھسلا کر انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

2008 سے2017 تک کے اعداد و شمار سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ تقریباً 1100 خواتین بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث رہیں یا سہولت کار کا کردار ادا کیا۔

پنجاب مسلسل گذشتہ 15 سال سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں سب سے آگے ہے، اس کے بعد سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا نمبر ہے، چاروں صوبوں کے مختلف بڑے شہروں میں ہر سال اوسطاََ 15 سے 50 بچوں کا ریپ ہوتا ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر روالپنڈی میں سب سے زیادہ بچوں کے اغواء کی وارداتیں ہوتی ہیں۔
بچوں کے ریپ میں ملوث افراد
پاکستان اور پورنو گرافی

گذشتہ برس سوشل میڈیا پر بہت شور تھا کہ پاکستان کے شہری پورن سرچ کرنے میں سب سے آگے ہیں، تحقیق کے اُصول کے مطابق اس خبر پر یقین نہیں کیا جا سکتا تھا، اس کی بنیادی وجہ خبر کی کہیں سے بھی کسی بھی قسم کی تردید یا تصدیق کا نہ ہونا تھا، دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ جس بلاگ یا ویب سائٹ کو بنیاد بنا کر خبر شائع کی گئی، وہ غیرمعروف اور غیرمستند تھی۔
2017 میں پورن سرچ ممالک کے لحاظ سے

اس سائٹ کے مقابلے میں بھارت کے خبر رساں ادارے انڈین ٹائمز یا برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ پر بھروسہ کر سکتے ہیں، جن کی شائع کی گئی فہرست کے مطابق پاکستان پہلے 20 ممالک میں شامل ہی نہیں تھا، یہ تحقیق دنیا کی 3 بڑی فحش مواد کی ویب سائٹس کی واچ لسٹ کے مطابق شائع کی گئی تھی، ان ہی ویب سائٹس کا ڈیٹا باقی پورن ویب سائٹس بھی استعمال کرتی ہیں، گزشتہ سال کے ساتھ ساتھ 2016 میں بھی فراہم کی جانے والی فہرست کے مطابق پاکستان پہلے 20 ممالک میں شامل نہیں تھا۔
بچوں کے ریپ کے محرکات

بچوں کے ریپ کرنے والوں کی نفسیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، امریکا کی دی نیویارک سوسائٹی فارچائلڈ ابیوز کی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر ہیلتھ اینڈ مینٹل ہائی جین ڈاکٹر میری ایل کہتی ہیں کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات کو حتمی طور پر بیان کرنا مشکل ہے، ایک جنسی حملہ آور کسی بھی وجہ سے متحرک ہو سکتا ہے، اس کی بائیولوجکل وجوہات بھی ہوتی ہے، حملہ آور کی نفسیات منتشر ہوتی ہیں، اسے بچوں کے چہرے متوجہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر میری ایل مزید بتاتی ہیں کہ جنسی حملے کا شکار بھی کسی دوسرے بچے کو شکار بنا سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورن دیکھنا بھی اس جانب متو جہ کر سکتا ہے۔

وہ دیگر وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نشے کے شکار افراد، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ انتقاماً اس چیز میں ملوث ہو سکتے ہیں، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود آپ کسی ایک بھی وجہ کو اہم یا بنیادی وجہ نہیں کہہ سکتے۔

چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث افراد بھی بچوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں، عمومی طور پر یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور اور بچے کے کسی واقف کار کو اُکسا کر اس کام پر لگا دیتے ہیں۔
سیکس ایجوکیشن

کیا سیکس ایجوکیشن اس کا حل ہے؟ امریکا میں جہاں سیکس ایجوکیشن کا رواج ہے، وہاں بھی بچوں پر جنسی حملے عام ہیں، پاکستانی معاشرے میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کو کس طرح سے روکا یا کم کیا جائے، یہ قابل بحث موضوع ہے، تو کیا پاکستان میں بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جانی چاہیے؟ اگر ہاں، تو کس طرح سے؟ اور کس طرح کی؟ اس حوالے والدین اور تعلیمی ماہرین کو سوچنا ہو گا.

بنیادی سیکس ایجوکیشن والدین سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا، اگر کوئی نظام بنایا جائے، جس میں والدین اور اساتذہ کو یہ چیز سکھائی جائے کہ کس طرح ثقافتی ، مذہبی اور اخلاقی اقدار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچوں کو بنیادی معلومات فراہم کی جائیں، تو بچہ کم از کم خطرے کو تو بھانپ سکتا ہے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ایک سوال ہیں، جس کا جواب سوچنا ہے، کیوں گذشتہ سالوں سے متواتر ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے؟ کیوں مخصوص شہروں میں یہ واقعات ہو رہے ہیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، پاکستان کا مستقبل بھی مستقل خطرے کا شکار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ ڈان

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply