• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔مدرسہ جکمکیہ اورال ظہریہ لائبریری/سلمیٰ اعوان۔قسط9

سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔مدرسہ جکمکیہ اورال ظہریہ لائبریری/سلمیٰ اعوان۔قسط9

کنگ سی میں اُس عظیم الشان عمارت کے سامنے کھڑی تھی جو مدرسہ جکمکیہ(Jaqmaqiya) تھا۔ یہ کس قدر خوبصورت فن تعمیر کا حامل تھا۔ یہ مملوک خاندان کے سلطان جکمک کی یادگار ہے۔ داخلی دروازے کی شان نرالی تھی۔ بلندوبالا۔ سٹیلکstalic ٹائیلوں سے سجا لشکارے مارتا۔
اندر دو مقبرے ایک سلطان ال ظہر جکمک اور دوسرا ان کی والدہ ماجدہ کا۔ دونوں مقبرے رنگین سنگ مر مر کی موزیک سے سجے تھے۔ مرکزی ہال کا گنبد بھی کمال کا تھا۔ اور تالاب بھی۔ کبھی تو یہاں درس وتدریس کا کام ہوتا تھا۔ اب تو نوادرات اور کیلی گرافی کا میوزیم ہے۔ یہ دیکھنا اور سراہنا دلچسپ عمل تھا کہ حروف تہجی نے کیسے تدریجی مراحل طے کئے اور کیسے موجودہ صورت تک پہنچی۔
قریب ہی مدرسہ ظہیریہ اور وہیں ال ظہیریہAl Zaheriah لائبریری بھی تھی۔ سچی بات ہے ان دونوں کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ ایسی عظیم اور شاندار کہ کتابوں کو تو دیکھنے کی جو چاہت اور خواہش تھی وہ تو اپنی جگہ مگر اُس کے سیاہی مائل چوبی دروازوں کودستی کندہ کاری نے وہ رعنائی بخشی تھی کہ اِس کمال فن کو داد دئیے بغیر آگے بڑھنا مجھے فن اور فنکار کی ہتک محسوس ہوئی تھی۔

صحن میں چھوٹے سے باغیچہ میں بیٹھ کر کتنی دیر اُن دروازوں اور کھڑکیوں کو دیکھتی رہی۔ جب دل کا رانجھا راضی ہو گیا تب اٹھی اور اندر گئی۔ اپنا تعارف کروایا۔چار بوڑھے اور جوان لڑکے کتابوں کی کیٹا لوگنگ میں مصروف تھے۔ شیشوں والی الماریوں میں تانکا جھانکی کی۔ زیادہ تر عربی میں تھیں۔ فرانسیسی میں تھیں۔ انگریزی میں بھی کئی شیلف بھرے تھے۔
جی چاہتاتھا کوئی کہے اتنی دور سے آئی ہو۔ کتابوں کی شوقین لگتی ہو۔بیٹھو۔ سکون سے انہیں دیکھو۔ اگر کوئی پسند آئے تو پٹ کھول کر نکال لو۔ بیٹھ کر اُس سے باتیں واتیں کر لو۔ ایک پیالی قہوہ پی لو۔
مگرکیسی عجیب بات تھی۔ کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ کھلے ڈلے لفظوں میں کہوں تو یہ ہوگاکہ کسی نے زیادہ منہ ہی نہ لگایا۔ زیادہ بات چیت سے بھی گریز کیا۔

alzahriya
Az-Zahiriyah_Library

Jaqmaqiya

Library

نور الدین زنگی کا مقبرہ بھی زیادہ دور نہ تھا۔ گلی تنگ تھی۔ دو رویہ دکانوں کے سلسلوں اور لوگوں کے ہجوم نے مزید تنگی پیدا کر دی تھی۔ مسجد کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی مزار ہے جس کی کھڑکی بازار کی طرف کھلتی ہے۔ مسجد کو تالا لگا ہوا تھا۔ سلاخوں سے ہی اندر جھانکا تھا۔ سادہ کمرہ جس کے سامنے سیاہ کپڑے پر بڑا سا یا شیخ سلطان نور الدین زنگی لکھا ہوا تھا۔ کتنی دیر سلاخوں کو پکڑے پاگلوں کی طرح اندر دیکھتی رہی۔ عظمتوں کے جس مقام پر وہ فائز تھے یاد کرتی رہی۔
ان کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لگن کی اُس شہرہ آفاق کہانی میں کھوئی رہی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے خواب میں آکر انہیں کہتے تھے۔
”نور الدین میرے جسم کو کچھ لوگ نکال لینا چاہتے ہیں۔“

یہ سچی تاریخی کہانی کتنی دلچسپ اور خوبصورت ہے۔ نور الدین کا نیند سے بیدار ہونا، مضطرب ہونا۔ مسلسل تین دن اسی خواب کی تکرار، مدینے جانا اور مجرم کو گرفتار کرنا۔ یہ ناہنجار یہودی تھے۔
مزے سے چلتے چلتے دائیں بائیں نظارے لوٹتے میں سوچے چلی جاتی تھی کہ کس قدر امیرانہ ثقافتی ورثہ اِن گلیوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اِسی مٹر گشت میں تصویر بنوانے کی ہڑک اٹھی۔ ایک بے حد خوبصورت کلاسیکل عمارت کے مرکزی دروازے پر کھڑے ایک نوجوان کو درخواست کی تو پتہ چلا کہ جس کے سامنے پوز بنا کر تصویر کھینچوا رہی ہوں۔ یہ بلڈنگ قدیم ترین ہی نہیں بلکہ بڑی تاریخ ساز بھی ہے۔ لڑکے نے معلومات کا پٹارہ کھول دیا تھا۔ کیمرہ مجھے لوٹاتے اور خود بھی اُسے سر تاپا دیکھتے اور مجھے دکھاتے ہوئے بولا۔
”یہاں جنرل ایلن بائی Allenby 1918ء کے دنوں میں اکثر ٹھہرتا تھا۔ اس کے کمروں میں بڑے تاریخ ساز فیصلے ہوئے تھے۔ یہ لارنس آف عریبیا کی بھی پسندیدہ جگہ تھی۔ عثمانیہ سلطنت کا سورج ڈوب گیا تھا۔ مشرق کے نئے چہرے نئے روپ نئے وجود تشکیل پا رہے تھے۔ شام کا یہ ٹکڑا فرانس کو تحفےمیں عنایت ہوا تھا۔ اسی ہوٹل وہ لارنس جنرل ایلن بائی سے گلہ کرتے ہوئے کہتا تھا کہ اُسے آخراِن اتحادی منصوبوں سے کیوں لا علم رکھا گیا؟“

میری خواہش پر لڑکا مجھے اندر لے گیا۔ مینجر سے میرے بارے بات کرتے ہوئے اجازت لی۔ اور جب میں اِن خوبصورت غلام گردشوں اور شہ نشینوں میں گھومتی پھرتی تھی تو یہ دنیا، اس کے کھیل تماشے، اس کے کھلاڑی سب ایک لام ڈور کی طرح میرے سامنے دوڑتے پھرتے تھے۔
لڑکا تو از خود ہی میرا گائیڈ بن گیا۔میں نے بھی زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش نہ کی۔ اس کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کو غنیمت جانا۔
”یہ بزوریہ سوق Souq.Al-Bazuriyehہے۔ ہمارے شام کے بہت بڑے شاعر نے اپنے اِن گلی کوچوں اور بازاروں کو اپنی شاعری میں زندہ کر دیا ہے۔“
سنیئے ذرا۔ وہ گنگنانے لگا تھا۔ ساتھ ترجمہ بھی کرتا جاتا تھا۔
میں خود کو سوق بزوریہ میں گم محسوس کرتا ہوں
گویا مصالحوں کے بادلوں پرسوار ہوں
لونگوں،دارچینی اور خوشبوؤں کے بادلوں میں تیرتا ہوا
عرق گلاب سے وضو کرتا ہوں
اور بہت بار اپنے جذبات کے اتھاہ جذبوں کے ہاتھوں
سوق ال اترائن میں بھول جاتا ہوں
نینا چی کے ترکیب اجزائی کو
اور کوکاشینل کی خوشبو کو
لیکن اے دمشق! تم میرے ساتھ کیا کر رہے ہو؟
تم کیسے میری ثقافت کو بدل رہے ہو
اور میرے احساس ذوق کو
میں لیکورائس کے تیز خوشبودار ذائقہ کو بھولتا جارہا ہوں
اور Rachmaninottکے آرکسٹرا کو بھی
شام کے باغ مجھے کیسے بدل سکتے ہیں
کیونکہ میں تو دنیا کا وہ پہلا کنڈکٹر ہوں
جوولو درخت سے آرکیسٹرا
کی رہنمائی کرتا ہوں..

یہیں مدرسہ ال عزیزہ Al-Aziziyaکے صحن میں دو مزار سیریا کے وزیر اعظم اور دوسرا عراق کے گورنر یاسین پاشا کا ہے۔ ان کے قریب ہی تین مزار اور ہیں۔ ترکی میں اُن پر لکھا ہوا مجھے کیا سمجھ آنا تھااگر لڑکا مدد کے لئے موجود نہ ہوتا۔
وہاں ہاشم سے ملنے کا لطف آیا۔ میرا وطنی۔پاکستانی۔ جس کا تعلق ملتان سے تھا اور جو زمانوں سے کینیڈا میں مقیم تھا۔ شام کی سیاحت کے لئے آیا تھا۔ گزشتہ چار دنوں سے وہ حلب میں تھا اور اُس کا کہنا تھا کہ اُسے حلب نے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس کے ساتھ گائیڈ بھی تھا۔
یہاں یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہوا۔میرے والا اعزازی اور ہاشم والا اُجرتی۔ دونوں ایک دوسرے کو معلومات کی مار سے زودوکوب کرنے پرتُلے ہوئے تھے۔
بہرحال ہم نے جانا کہ یہ مزار میجر فتح بے، میجر نوری بے اور ان کے معاون صادق بے کے ہیں۔ یہ اُس پرواز کے شہید ہیں جو پہلی بار استنبول کی قاہرہ کے لئے تھی۔ دمشق کے لوگوں نے پہلی بار اپنے شہر پر اُڑتے کسی جہاز کو دیکھا تھا مگر فلائٹ کو قاہر ہ جانا نصیب نہ ہوا۔ کریش ہوگیا۔ شام کی ایک جھیل Tiberias میں گرا تھا۔ تینوں کی لاشیں دمشق لائی گئیں اور یہاں دفن کی گئیں۔
تو اِب ہوا بازوں کے لئے فاتحہ خوانی کی اور جی جان سے کی۔
مجھے اپنے باپ کی چچا زاد بہن کا شوہر یاد آیا تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے کا زمانہ۔ رائل انڈین ائیرفورس کے پہلے چند مسلمان پائلٹوں میں سے ایک۔ غریب سے والدین کا بیٹا۔ کمیشن لے کر جب ائیر فورس کی وردی میں پہلی بار گاؤں اپنی چودہ دن کی نومولود بچی کو دیکھنے آیا تو پورا گاؤں اُسے دیکھنے بھاگا اور ہر ایک کی زبان پر تھا۔ یہ ولی ہے کیا؟ یہ تو کہیں کا شہزادہ لگتا ہے۔
ہاں بھئی افسری کا حُسن سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ گاؤں کے بعض حاسدوں نے رائے زنی کی۔
جہاز کی مرمت ہوئی تھی۔ اور ٹسٹنگ فلائنگ آفیسر ولی محمد نے کی تھی۔ جہاز جالندھر چھاؤنی کے اوپر ہی فضاؤں میں شعلوں کی نذر ہوگیا تھا۔ ساتھ میں وہ غربیڑوں کا بیٹا ولی محمد بھی۔ اور گاؤں کی عورتیں چھاتی پیٹتی اور ہاتھوں کو کف ِ افسوس سے ملتی کہتی تھیں۔
نظر لگ گئی اُسے۔ نظر لگ گئی۔ یا مرمت شدہ جہازوں کو اُڑانے کی ذمہ داری ہمیشہ نیٹو لوگوں کے حصّے میں آتی ہے۔ ٹیسٹ میں جہاز پاس ہوگیا تو پھر گورا بے شک اڑائے۔ یہاں بھی تو وہی بیٹھے تھے۔ جو ہندوستان کی تقدیر کے مالک تھے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply