کشمیری شال اور ایک کتاب۔۔۔۔رابعہ الرَبّاء

ہم تین لوگ تھے
تین لوگ تھے
اور ایک کتاب تھی
ایک کتاب تھی
اور
کتاب پہ تین تصویر یں تھیں
تین مصنف تھے
ایک تکون تھی۔۔
مگر کرسیاں چار تھیں
میں نے اسے تحفہ عزت کے طور  پر ایک کشمیری شال دی
موسم خنک تھا۔۔۔۔
وہ غمگین تھی
اس نے کتاب ہاتھ میں لی
اور اس کو بہت حسرت سے چھوتی رہی
چھوتے چھوتے کبھی پلٹ کر اس کی تصویر دیکھتی
جو یہاں نہیں تھی
بس ہم تین تھے
اس نے شال اپنےشانوں  پر اوڑھ لی
اور پھر کتاب کو دیکھتی رہی
کتاب کو چھوتی رہی
دل میں نجانے کس احساس نے طوفان بپا کر رکھا تھا
آنکھیں شبنم ہو گئیں
ہم تین تھے
اور ایک کرسی خالی تھی
اس نے خواہش کا اظہار بہت حسرت سے کیا
کاش
اس چوتھی کرسی پہ وہ ہوتی
وہ ہوتی تو کتاب کا حق ادا ہوتا
اس نے خواہش کی کہ اگلی بار اس کرسی پہ وہ ہو گی ۔۔۔
اسی خواہش میں اس کی نیلی آنکھیں جھیل بن گئیں
کسی کی حسرت کا درد
اس کے دل میں تیر رہا تھا،
وہ کتاب کو چھوتی بار بار چھوتی۔۔۔
کیا تم دونوں اس کے بِنا یہ کتاب لکھ سکتے تھے؟
کیا اس کے بِنا یہ سفر دریا سے سمندر کو جا سکتا تھا؟
کیا اس کے بِنا آج یہ منظر ادھورا نہیں ہے؟
اس کے بِنا یہ کرسی خالی ہے؟
وہاں وہ کس کرب میں ہے
ہم اس کے بِنا یہاں مل بیٹھے ہیں
اس کی باتیں کرتے ہیں
باتیں وجود تو نہیں ہوتا
وہ تحفہ جو میں لے گیا تھا
وہ اس میں مزید سمٹ گئی۔۔۔
نہیں
میں یہ آئس کریم تب کھاؤں گی
جب یہ چوتھی کرسی پہ وہ ہوگی
ہم تین تھے
تم بھی تین تھے
مگر
یہ تین
اس تین کے بنِا نا مکمل تھے
جو کتاب کے پیچھے صفحے پہ مسکرا رہے تھے
مجھے چوتھی کرسی کی تنہائی  کا درد ہے
میری آنکھ میں خواہش سرد ہے۔۔
اے کتاب والی
تیری تصویر، تیری تقدیر، تیری خالی کرسی
سب یہاں تیرے منتظر ہیں
تجھ بن اب۔۔۔!
یہ شام اداس ہے
میں اداس ہوں کتاب اداس ہے
جس کی خالق ہو کر بھی
تو نے اسے چھو کر نہیں دیکھا
اب آجا۔۔
بلا رہا ہے ہر نم نظارہ
ہم تین ہیں
مگر تین ہیں
تین تیرےبِنا نا مکمل ہیں۔۔
تم تین ہو مگر تم بن یہ دو نا ممکن ہیں
اب ممکنات نا ممکنات کی زنجیر توڑ
آ، اور اپنی کتاب سے اپنا تعلق جوڑ
سب تجھ بن ادھورا ہے
سب تجھ بن ادھورا ہے
تین سجدے، تین قبول۔ تین طلاق، تین رکعت وفا کی ہیں۔۔۔
ہم تین تجھ کو بلا رہے ہیں
تیرے لفظ تجھ کو ستا رہے ہیں
ہم تین
تجھ کو بلا رہے ہیں
ہم تین تجھ کو
بلا رہے ہیں۔۔۔!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply