مسکرائیے ! آپ شارجہ میں ہیں۔۔۔۔شکور پٹھان

چراغ تلے اندھیرا۔۔۔گھر کی مرغی دال برابر۔۔۔بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں۔۔

سمندر کنارے نئی تعمیر شدہ مسجد سے نکل کر شاید میں نے پہلی بار شارجہ کو دیکھا جہاں میں پچھلے پچیس سال سے رہتا چلا آیا ہوں اور مجھے یہ محاورے یاد آئے۔یہ وہ شہر ہے جہاں میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ عرصہ رہا اور اب بھی رہ رہا ہوں۔

شارجہ اس قدر خوبصورت ہے؟ میں نے کبھی غور سے دیکھا ہی نہ تھا۔ ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ میں شروع سے ہی شارجہ کے خوبصورت ترین علاقوں میں رہتا آیا ہوں۔ اس سے پہلے جہاں میں رہتا تھا میرے گھر کے ہر کمرے سے شارجہ کا خوبصورت ” خالد لگون” نظر آتا تھا۔ بائیں جانب شارجہ کا جدید واٹر فرنٹ ہے جہاں رات کو وقفے وقفے سے پانی، روشنی اور موسیقی کا خوبصورت امتزاج دیکھنے والوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھتا ہے۔ اس سے متصل خوبصورت ” نور مسجد، مجاز پارک اور ‘ تھاؤزنڈ پام پارک غرض ایک طویل وعریض سلسلہ ہے جہاں لوگ باگ تفریح کے لئے آتے ہیں اور جہاں میں آس پاس نظر دوڑائے بغیر صرف مسجد میں آتا جاتا تھا۔

اسی پارک کے ساتھ ہالیڈے انٹرنیشنل ہوٹل اور اس سے جڑی ‘ ماربیلا کلب’ کی ہسپانوی طرز تعمیر کی خوبصورت عمارت ہےجو میرے گھر کے عین سامنے تھی اور جسے لوگ گرجا گھر سمجھتے تھے۔ یہ پارک، مسجد، اور ہوٹل سب سمندر کنارے ہیں۔ یہیں ایک کشتی میں ” ڈھاؤ ریسٹورانٹ Dhow Restaurant ہے جہاں کی موسیقی کی آواز میں اپنے گھر میں سنا کرتا تھا۔ اس کے دائیں جانب ریلنگ کے ساتھ ساتھ ایک اور خوبصورت باغیچہ ہے جو کونے میں بنی چھوٹی سی خوبصورت مسجد کے ساتھ لگے ‘ الخان پل Alkhan Bridge تک چلاجاتا ہے۔ اس باغیچے کے دائیں جانب فرانسیسی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار، شارجہ سوق ہے جس کے دو حصے ایک خوبصورت بالائی گذر گاہ ” Footbridge ” کے  ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ، جس میں نوادرات ، قالینوں اور دستکاریوں کی چھوٹی چھوٹی خوبصورت دکانیں ہیں ۔

اسی مارکیٹ کے دائیں جانب خوبصورت اور وسیع ” اتحاد پارک” اور اس کے درمیان بنی وسیع وعریض ‘ جامعہ الفیصل یعنی خوبصورت ” فیصل مسجد ہے’ جس میں کم ازکم پانچ ہزار نمازی بیک وقت سماسکتے ہیں۔ جمعہ اور عیدیین میں یہ تعداد دس ہزار تک ہوتی ہے۔

خوبصورتی کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے، ابھی تو ایک طرف ” میدان الحکومہ” یعنی گورنمنٹ اسکوائر اور دوسری جانب ، سبزی، گوشت ، پھلوں، کی پرانی مارکیٹ اور پھولوں کی نرسریوں اور پرندوں اور پالتو جانوروں کی “Birds & Pets” مارکیٹ اور دوسری طرف شارجہ کی جدید ترین ” سوق الجبیل ” ہے جس کا تذکرہ بعد میں آئے گا۔ اس سوق الجبیل سے جب الخان کے پل سے ہوتے ہوئے میرے گھر اور شارجہ کے بحیرہ کورنش اور ممزر بیچ کی طرف آتے ہوئے دنیا کی چوتھی سب سے اونچی ” فلیگ پوسٹ ‘ اور بینڈ اسٹینڈ جس کے ایک جانب جزیرہ پارک اور سمندری کھاڑی کی دوسری جانب ‘ محاکمہ ‘ یعنی عدالت عالیہ اور دوسری خوبصورت سرکاری عمارات ہیں جو اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار ہیں ۔ جن کی عقبی شاہراہ جو ساحل کے ساتھ ساتھ ہے جہاں پنج ستارہ ہوٹلوں کی ایک طویل قطار سمندر کے ساتھ ساتھ شارجہ کی بندرگاہ تک چلی جاتی ہے۔

اب یہاں سے مزید آگے بڑھیں تو الخان کے پل سے خالد لگون کا انتہائی خوبصورت نظارہ آپ کا دل موہ لے گا۔ اور یہ خوبصورت کورنش درمیان میں ” قنات القصبہ ” نہر سے جا ملتا ہے جس کے دونوں جانب سفید رنگ کی بنی انتہائی خوبصورت عمارت ، ریسٹورنٹ، قہوہ خانے، خوبصورت مسجد جہاں جمعہ کو انگریزی میں وعظ ہوتا ہے، لائبریریاں، چھوٹے تھیٹر جہاں شارجہ کی ثقافت کے بارے میں دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔

یہ نہر سمندر کے اس کونے سے جا ملتی ہے جو میرے گھر کے عین عقب میں ہے جہاں شارجہ کا مشہور عالم ” ایکسپو سینٹر” واقع ہے ۔ اس نمائش گاہ میں نومبر کے پہلے ہفتے میں دنیا کی تیسری بڑی کتابوں نمائش ہوتی ہے۔ اس کے دوسری جانب شارجہ چیمبر آف کامرس کی محل نما عمارت ہے۔

اب تک میں نے شارجہ کے صرف اس حصے کا ذکر کیا ہے جہاں میں رہتا آیا ہوں۔ اب یہ بھی جان لیں کہ دوبئی میں ملازمت کرنے اور دوبئی کا ویزا ہونے کے باوجود میں شارجہ میں کیوں رہتا ہوں، اور یہ کہ شارجہ اور دوبئی میں کیا فرق ہے۔

دوبئی اور شارجہ ایک دوسرے کے پڑوس میں بستے ہیں بلکہ جڑے ہوئے ہیں، میری رہائش شارجہ میں ایسی جگہ ہے کہ گھر سے نکل کر اگر میں دائیں جانب پیدل چلنا شروع کروں تو پانچ منٹ بعد میں دوبئی کی حدود میں داخل ہوجاتا ہوں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ دوبئی ایک ایسا شہر ہے جس کے لوگوں کی بڑی تعداد شارجہ میں رہتی ہے۔ جبل علی فری زون دوبئی کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور دبئی شارجہ کی اسی فیصد آبادی شاید یہاں کام کرتی ہے۔ ملازمت پیشہ لوگوں کا ٹریفک شارجہ اور جبل علی کے درمیان ہی رواں دواں رہتا ہے۔ شارجہ اور جبل علی کے درمیان چار شاہراہیں ہیں اور ہر سڑک چھ اور سات لین پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک چیونٹی کی چال چل رہا ہوتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دوبئی اور شارجہ میں مکانوں کے کرایوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ شارجہ میں رہائش دوبئی کے مقابلے میں سستی ہے اور دوبئی کی آبادی کا بڑا حصہ شارجہ میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔

مجھے متحدہ عرب امارات میں آئے ہوئے اب چھتیس سال ہونے کو ہیں۔ پہلے دس سال میں دوبئی میں رہا لیکن شارجہ تب بھی کئی لحاظ سےہمیں اپنی جانب متوجہ کئے رہتا تھا۔ اس وقت شارجہ دوبئی کے مقابلے میں قدرے جدید تھا اور یہاں مکانات اور سڑکیں بہتر منصوبہ بندی سے بنے تھے ( اب معاملہ اس کے برعکس ہے) ۔ دوبئی میں کہیں گھاس کا تنکا بھی نظر نہ آتا تھا اور ہم یار دوست اور فیمیلیز مل کر شارجہ ائرپورٹ اور شارجہ کورنش پر بنے گھاس کے قطعوں پر سیر کے لئے آیا کرتے۔ اس کے علاوہ ! الرولہ بازار میں چاٹ چھولے اور ‘ ماما کی مچھلی’ سے بھی لطف اندوز ہوتے۔
اور تب دوبئی میں شاپنگ فیسٹیول کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا اور ہم شارجہ ایکسپو کی سالانہ نمائش دیکھنے آیا کرتے۔ اور جب سن تراسی میں شارجہ میں کرکٹ کا میلہ شروع ہوا تو دنیا نے شارجہ کا نام جان لیا۔ شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم کو سب سے زیادہ ایک روزہ میچز منعقد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

عرب امارات کی آزادی سے پہلے بھی شارجہ کو خصوصی اہمیت اور حیثیت حاصل تھی۔ یہ برطانوی ” رائل ائر فورس ” کا مستقر تھا۔ خورفکان کی بندرگاہ تب بھی اہمیت کی حامل تھی۔ اس کے علاوہ شارجہ کو عرب امارات کے ” ثقافتی دارالحکومت Cultural Capital ” کی حیثیت حاصل ہے، جہاں سارا سال ثقافتی تقریبات جاری رہتی ہیں۔ اسلامی کتب کی ترویج واشاعت کا کام بھی سب سے زیادہ یہیں ہوتا ہے۔ مکتبہ دارالسلام عربی کے علاوہ اردو ، ہندی، فرانسیسی ، ملیالی، بنگالی اور کئی زبانوں میں اسلامی کتب شائع کرتا ہے۔

آزاد خیال اور جدید دوبئی کے مقابلے میں شارجہ میں اسلامی شعارکی پابندی زیادہ ہے۔ یہ ایک قدامت پسند شہر ہے جہاں نہ رنگارنگ شبانہ سرگرمیاں Night Life ہیں نہ ہی شراب خانے ہیں۔ غیرملکیوں کو لباس اور وضع قطع کے لئے مقامی قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ چونکہ پابند شرع مسلمانوں کے لئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے چنانچہ یہاں دوبئی کی بہ نسبت مسلمان اور عرب آبادی کا عنصر غالب ہے۔ یہاں کا مآحول بھی بے حد پاکیزہ اور پرسکون ہے۔

جہاں دوبئی میں ایک نودولتیے اور نمائش پسند کی سی خوبی نظر آتی ہے، شارجہ ایک خاندانی اور قدامت پسند شہر ہونے کا تاثر دیتا ہے جو نمود ونمائش کا قائل نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ایکسپو میں سارا سال خوبصورت نمائشیں لگتی رہتی ہیں۔ کتابوں کے میلے کا میں نے ذکر کیا، اس کے علاوہ بچوں کا Reading Festival ، ملبوسات کی نمائش، زیورات اور گھڑیوں کی نمائش، پرانی مگر قیمتی گاڑیوں Vintage Cars کی نمائش ، تعلیمی نمائش اور صنعتی نمائشیں ، مگر ان کی پبلسٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہر سال فروری کے مہینے میں یہاں روشنی کا میلہ Light Festival سجتا ہے جو کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کی خبر دوبئی تک میں کسی نہیں ہوتی۔ آپ یوٹیوب پر ‘ شارجہ لائٹ فیسٹول’ دیکھیں آپ کو اس کی خوبصورتی کا اندازہ ہوجائے گا۔

شارجہ ڈیز رٹ پارک ” Sharjah Desert Park” ایک جدید ترین پارک ہی جہاں آپ پورا دن گذار سکتے ہیں ۔ اس میں اپنی طرح کا منفرد چڑیا گھر Wildlife Centre ہے جہاں تماشائی تو ائیر کنڈیشن میں ہوتے ہیں اور جانور اور پرندے کھلی فضا میں ہوتے ہیں اور انہیں کسی قید کااحساس نہیں ہوتا،. چڑیا گھر سے متصل بچوں کے لئے Animal Farm ہے جہاں بچے پالتو جانوروں کو اپنے ہاتھ سے کھلا کر خوش ہوتے ہیں۔ اسی پارک میں Natural History میوزیم ہے جو نوجوانوں اور طالب علموں کے لئے بے حد دلچسپ اور کارآمد ہے۔ اس سے متصل Botanical Garden میں رنگ برنگی پھول اور درخت دل ونگاہ کو سرور بخشتے ہیں۔

میں شارجہ ایکویریئم کا ذکر کرنا بھول گیا۔ یہ بھی میرے گھر کے عقب میں الخان کے علاقے میں ہے جسے بڑی خوبصورتی سے اور جدید طریقہ سے بنایا گیا ہے جہاں مختلف چھوٹی بڑی رنگ برنگی مچھلیوں کے علاوہ خونخوار شارک مچھلی بھی آپ اپنے قدموں تلے دیکھ سکتے ہیں۔
میں تو اپنے مہمانوں کو شارجہ کی نئی فش مارکیٹ بھی بطور tourist attraction دکھاتا ہوں۔

شارجہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مختلف اشیاء کی مارکیٹیں ایک ہی جگہ کردی گئی ہیں ۔ اسی طرح میدان حکومت میں بلدیہ، جنرل پوسٹ آفس، لینڈ دیپارٹمنٹ، عدالت، اور دیگر سرکاری عمارتیں ہیں۔ اب بلدیہ کی نئی عمارت بنی ہے جو کہ ایک شاہکار ہے۔ میدان الثقافہ Cultural Roundabout میں بڑے بڑے اور خوبصورت ثقافتی ہال اور لائبریری ہیں۔ تو فرنیچر کی مارکیٹ اور پرانے سامان کی مارکیٹ ، جس کے ساتھ کبھی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ یہاں موبائل فون کی مارکیٹ بلکہ ” موبائل راؤنڈاباؤٹ ” ہے۔ اسی طرح ایک طویل وعریض انڈسٹریل ایریا ہےتو ایک طرف اسکولوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

الرولہ سے ہی متصل ایک سلسلہ قدیم مکانوں ، قلعوں اور میوزیم کا ہے جو کہ Heritage Village کہلاتا ہے۔ یہیں پر آرٹ میوزیم بھی ہے جس سے شارجہ میں شاید ہی کوئی واقف ہے۔
شارجہ ہی میں الزہرا جیسے جدید ہسپتال اور شویفات جیسے اسکول تھے جہاں دوبئی کے امراء اور شرفاء علاج کے لئے آتے اور اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھیجتے تھے۔

شارجہ کا  یونیورسٹی سٹی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شارجہ یونیورسٹی کے علاوہ امریکن یونیورسٹی اور دیگر کئی عظیم الشان تعلیمی ادارےاس خوبصورت اور سر سبز وشاداب اور پرسکون شہر علم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں شارجہ ائیرپورٹ کو جاتی سڑک کسی الف لیلوی شارع کا منظر پیش کرتی ہے۔

الزید میں پھیلے ہوئے باغات اور فارم ہاوسز سے ہماری کئی خوبصورت یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ خورفکان کا ساحل جہاں سمندر کے ساتھ ساتھ پہاڑی سلسلہ چل رہا ہے، مسافی کے میٹھے پانی کے چشمے، کلبا میں سمندر کے کنارے اگے خوبصور درخت Mangroves ، وادی بسنا کا قدیم قلعہ اور نجانے کیا کچھ ہے جس کے بارے میں کوئی ڈھنڈورا نہیں ، کوئی پبلسٹی نہیں کہ یہی خاندانی لوگوں کی طرح باوقار شہروں کی شان ہوتی ہے۔

کبھی آپ آئیں تو میں آپ کو صرف شہر ہی شہر میں اتنی خوبصورت جگہیں دکھا سکتا ہوں کہ شائد ہی دنیا میں کہیں اتنے خوبصورت مقامات ایک ساتھ ہوں۔

لذت وکام دہن کے لئے ایسی کون سی چیز ہے جو پاک وہند اور دنیا میں کہیں اور ہو اور یہاں نہ ہو۔ عربی، ترکی، لبنانی کھانوں کے علاوہ ہندوستانی پاکستانی کھانے نہ صرف جگہ جگہ ملتے ہیں بلکہ نہایت ارزاں قیمت اور صاف ستھرے۔

میرے کراچی کے دوست جاوید کی نہاری، زاہد کی نہاری اور نجانے کون کون سی نہاری کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ ایک بار شارجہ کی ” دہلی نہاری” کھالیں یا پاک غازی یا باب الدیرہ کا حلوہ پوری اور پراٹھوں کا ناشتہ کرلیں اور انگلیاں نہ چاٹتے رہ جائیں تو ۔۔۔ ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو کیا بس آپ آئیے اور اس شہر کو دیکھئے جو اتنی خاموشی اور وقار سے رہتا ہے۔۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ ۔۔۔مسکرائیے۔۔آپ شارجہ میں ہیں ۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply