کیا ذکر کربلا ایک قصہ گوئی ہے؟۔۔ نور درویش

ذکر کربلا کو قصہ گوئی کہنے اور بقا و ترقی سے متصادم فکر سمجھنے والے حضرات کی رائے اپنی جگہ، لیکن مجھ جیسے کروڑوں لوگ اس ذکر کو اپنی زندگی کی آخری سانس تک سننا چاہیں گے اور بحیثیت ایک آزاد انسان، میں اپنا یہ حق استعمال کرنا چاہوں گا۔ جس پر یقینا آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔

آج آپ کو کربلا کا ذکر نئی نسل کی بقا و ترقی کی راہ میں رکاوٹ نظر آریا ہے، کل کو کسی کو حج کے ارکان میں جمود اور بے مقصدیت نظر آجائے گی اور پرسوں کوئی روزے کو طبی لحاظ سے مضر قرار دے دے گا اور شاید کوئی کسی روز آپ کو قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے پر سفاکیت کا تمغہ پہنا دے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ 1400 برس قبل رائج ہونے والی نماز تراویح پر کوئی یہ کہہ کر اعتراض کردے کہ نئی نسل کو بقا و ترقی چاہیے، افطار کے بعد یہ طویل مشق نہیں۔ اس پر نظر ثانی ہونی چاہیئے۔ قوی امکان ہے کہ کوئی دعوت تبلیغ کے پورے نظام اور نصاب پر اعتراض کرکے اسکے مقصد پر سوال اٹھا دے اور انسانیت اور نئی نسل کی فلاح میں اسکے کردار کی نفی کردے، تو؟ یقینا آپ کو برا محسوس ہوا ہوگا یہ پڑھ کر، مجھے بھی لکھتے ہوئے تکلیف ہوئی۔

 دراصل واقعہ کربلا کی بے شمار جہتوں کے علاوہ ایک جہت یہ بھی ہے کہ یہ جو آج نماز روزے حج ذکاتیں اور قرآن کی تلاوتیں موجود ہیں، یہ سب اسی واقعے کا نتیجہ ہیں جسے ذبح عظیم کہتے ہیں۔ امام حسین (ع) خود نشاندہی کی تھی کہ انکے قیام کا مقصد اس دین کو بچانا ہے جسے یزید کی صورت خاتمے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔

بات فقط اتنی ہے جناب کہ ہمیں “عدل” کے لفظ کو سمجھ کو ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا ہوگا، ورنہ ہم ظالم کہلائیں گے اور اسی طرح مشرق کا موازنہ مغرب سے کرتے پھریں گے۔ دلیل اور جذبات ساتھ ساتھ چلتے ہیں، نظام قدرت ہے کہ جس سے محبت رکھتا ہے اس کے غم میں روتا ہے اور غمگین ہوتا یے۔ کیا آپ مجھے میری فطرت کے خلاف عمل کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں؟

عالمی جنگوں میں جو تباہی ہوئی، ہر برس اسکی یاد منانے کیلئے امریکہ اور دیگر یورپی ملک روس میں جمع ہوتے ہیں، 9/11 میں مرنے والے ہزاروں امریکیوں کو یاد کرنے کیلئے ہر برس لوگ اس جگہ جمع ہوتے ہیں، ہولو کاسٹ کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسکے خلاف بات کرنے پر بھی سزا ہے، لاکھوں یہودیوں کے قتل کو کوئی بھولنے کو تیار نہیں، عیسی ابن مریم (ع) کو صلیب پر چڑھایا گیا تو صلیب ایک مذہب کا مقدس نشان بن گئی، جاپان میں ناگا ساکی اور ہیرو شیما کو کوئی نہیں بھولا۔ ان میں نے کس نے کہا کہ ان تاریخی سانحات کی یاد منانے سے انکی ترقی اور بقا میں رکاوٹ پیدا ہوگی؟ انہوں نے تو بلکہ ان واقعات کو یاد رکھنے کو اپنی بقا سے مشروط کیا۔ پھر یہ ذکر کربلا سے اتنا بیر کیوں؟ کہیں وجہ کچھ اور تو نہیں؟ ذرا ایمانداری سے پوچھ کر دیکھئے خود سے۔

حقیقت یہ ہے کہ واقعہ کربلا اور بالخصوص امام حسین (ع) کی شخصیت نے انسانی حقوق کے علمبرداروں سے لیکر بڑے بڑے عالمی رہنماؤں تک، سب کو متاثر کیا۔ کربلا نے جس طرح ایک مسلمان کو اپیل کیا، اسی طرح ایک ہندو کو، ایک عیسائی کو اور دیگر عقیدوں کے ماننے والوں کو متاثر کیا۔ شاعروں نے اس واقعے سے درد اور کرب کشید کیا اور لازوال شعر کہے۔ میر انیس و میرزا دبیر سامنے آئے۔ ان سب نے اس تحریک اور اس واقعے کی انسانی تاریخ میں اہمیت کا اقرار کیا۔ کسی کو اس واقعے کی یاد منانے میں نقص نہ نظر آیا۔

اربعین امام حسین (ع) کے چہلم کو کہتے ہیں۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پابندیاں ختم ہوئیں تو ہر برس نجف سے کربلا تک لاکھوں لوگ پیدل سفر کرتے ہیں۔ ان میں چھوٹے بچوں سے لیکر جوان بوڑھے معذور سب شامل ہوتے ہیں۔ تقریبا 76 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ ایثار، عقیدت، محبت اور خلوص کے جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اسے سوشل میڈیا نے اب پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ یہ سب قصہ گوئی نہیں ہے، عصر حاضر کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

 کروڑوں کا مجمع ایک چھوٹے سے شہر میں جمع ہوجاتا ہے اور یک زبان ہوکر ایک واقعے کو یاد کرکے حق کی فتح کا اعلان کرتا ہے۔ اس مجمع کو “Largest Gathering on Earth ” کہا جاتا ہے۔ یہ سب قصہ کہانی نہیں ہے۔ یہ تاریخ انسانی کا ایک اہم ترین پہلو ہے جسکی یاد محض رسم نہیں بلکہ سینہ در سینہ چلنے والی ایک مربوط تحریک ہے۔ یہ کسی ایک علاقے کی رسم نہیں، ایک عالمگیر تحریک ہے۔ آپ کے غیر متوازن موازنے نہ اس کا اثر کم کر سکیں گے اور نہ اس کی مرکزیت۔

 اس کروڑوں کے مجمع میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں، انجینئر بھی، دانشور بھی، سائینسدان بھی اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل بھی۔ یہ سب کربلا کو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ سمجھ کر آتے ہیں۔ یہ دلیل پر بھی یقین رکھتے ہیں اور جذبات پر بھی۔ یہ “عدل” کا مفہوم سمجھتے ہیں، اسی لئے ظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ آپ کیوں خاموش ہیں؟

محرم کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ کو اگر کسی کے ذکر کربلا کے انداز پر اعتراض ہے تو آپ اسے یہ سوچ کر نظر انداز کر دیں کہ اسے بھی میرے کسی نظریہ یا طریقے سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اپنے اس اعتراض کو غیر ضروری موازنے میں چھپا کر یہ ظاہر مت کریں کہ ذکر کربلا تو محض ماضی کے ایک واقعے کی غیر ضروری تکرار ہے۔

جس رسول (ص) کے ذریعے آپ تک یہ دین پہنچا ہے، یہ اسکے خانوادے کے قتل عام کا ذکر ہے، ایک پس منظر ہے اس پورے سانحے کا۔ کتنے چہرے بے نقاب کرتا کے یہ واقعہ۔ کیسے اسکا ذکر نہ کیا جائے؟ یہ واقعہ تو دراصل یاد دلاتا ہے کہ کہیں کوئی بہت بڑی غلطی ضرور ہوئی جو جس کا نتیجہ کربلا میں ظاہر ہوا۔ کیسے نہ ذکر کریں؟

دنیا طبیعی موت مرنے والے اپنے رہنماؤں کو ہر سال یاد کر کے روتی ہے، اور ہم بیدردی سے بھوکا پیاسا قتل ہونے والے نواسہ رسول (ص) کا ذکر یہ سوچ کر ترک کر دیں کہ اب قاتل و مقتول دونوں دنیا میں نہیں رہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ انصاف ہے یا قاتل کی وکالت؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply