کیا قرآن ظنی الدلالۃ ہے؟۔۔۔۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی

 شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا!

اگر قرآن ظنی الدلالہ ہو تواس کی لا ریب فیہ ھدی للمتقين اور بلسان عربی مبین، میزان، تبیان اور فرقان کی حیثیت متاثر ہوتی ہے. ایک مسلمان جو قرآن سے یقینی رہنمائی کا طالب ہے، یقین اور رہنمائی دونوں سے محروم ہو جاتا ہے. متلاشیان حق کی اسی تشنہ لبی اور رہروان شوق کی بے بضاعتی کو یقین و ایمان کی سر سبز و شاداب وادیوں میں لے جاکر زلال صافی کی الوہی آبشاروں سے سیراب کرنے کے لیے، ایک نقطہ نظر یہ اختیار کیا گیا کہ قرآن تمام تر قطعی الدلالۃ  ہے. پھر اس پر بحث، دلائل اور مکالمہ میں اتنی بوقلمونی پیدا ہو گئی کہ یہ حدبندی پامال ہوتی نظر آنے لگی کہ قطعی الدلالہ کی سرحد کہاں سے کہاں تک ہے اور ظنی الدلالۃ  کا دائرہ کہاں سے شروع ہوتا ہے.

مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے استاد مولانا حمید الدین فراہی کے تتبع میں یہ زاویہ نظر اختیار کیا کہ قرآن سارے کا سارا قطعی الدلالۃ  ہے، لیکن اس نقطہ نظر کے دیگر اسباب بھی ہیں جو درج ذیل ہیں :

   1 _مولانا کے مراجع اساسی میں ایک تفسیر مفاتیح الغیب یا تفسیر رازی بھی ہے. تفسیر رازی کی خصوصیات میں سے یہ امر بھی ہے کہ وہ معتزلہ کے عقلی دلائل بہت شرح و بسط سے بیان کرتے ہیں اور اشاعرہ کی طرف سے ان کے جوابات دیتے ہیں جو بالعموم معتزلہ کے اعتراضات کی طرح چاق و چوبند نہیں ہوتے. رازی کو اس دوران میں یہ دقت بھی پیش آتی ہے کہ قرآن کی قطعی آیات اشاعرہ کے دلائل سے ہم آہنگ نظر نہیں آتیں____رازی نے اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ رویہ اختیار کیا کہ آیت قرآنی کی اشعری فکر کے مطابق تاویل کر دیتے اور کہتے کہ قرآن ظنی الدلالہ ہے.____گویا اشعری فکر و فلسفہ کو اساس قرار دے کر قرآنی نصوص کو اس سے ہم آہنگ کیا جاتا اور اس کے لیے قرآن کے ظنی الدلالہ ہونے کی آڑ لی جاتی.

 2_ قرآنی آیات کی تفسیر میں ایک عمومی رجحان یہ رہا ہے جو پچھلے سالوں میں وبائی شکل اختیار کر گیا ہے کہ کسی بھی خبر واحد کو روایت و درایت کی کسوٹی اور علماء اصول کے معیارات پر پرکھے بغیر، اس کے ذریعے قرآن کے قطعی الثبوت، قطعی الدلالہ حکم کی تخصیص، تقیید تاویل اور استثنا وغیرہ کرکے قرآن کے حکم کو بے اثر کر دیا جاتا ہے. جس کی وجہ سے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کے قطعی، واضح، متعین اور متواتر حکم کو defeat دی جارہی ہے. بلکہ گاہے ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس کسی بھی طرح شائستہ نہیں کہا جا سکتا. مثلاً قرآن کی رو سے رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے اور قرآن کی رو سے ہی رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے. گویا دو سال کی عمر کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو تی لیکن رضاعت کبیر کی ایک خبر واحد کی روشنی میں جواں سال مردوں کو دودھ پلا کر محرم بنا لینے کے عمل کی نسبت بعض مقدس ہستیوں کی طرف کی گئی ہے.، حالانکہ حنفی فقہاء عظام نے ان نسبتوں کا غلط ہونا دلائل سے ثابت کیا ہے. اس نوعیت کی روایات کی بنا پر ایک طرف دین دار طبقہ قرآن کے حکم کو کسی بھی حدیث سے رد کرنا درست سمجھتا ہے اور دوسری طرف بے دین لوگ اسلام کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھریلو ملازمین، فیکٹریوں میں مخلوط مزدوروں تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کے لئے اسلام نے جواں سال مردوں کو دودھ پلا کر محرم بنانے کا راستہ کھولا ہے.

انہیں وجوہ کی بنا پر مولانا اصلاحی نے قرآن کے ظنی الدلالہ ہونے کا دریچہ بند کر دیا.

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر اس موضوع پر مذاکرہ و بحث کے دوران عجیب لطیفے پڑھنے کو ملے تاہم انہیں زیر بحث لائے بغیر اصول فقہ کی رو سے یہ امر ذہن نشین رہے کہ قرآن نے جن مصطلحات کی کمیت و کیفیت بیان نہیں کی مثلاً صلاہ، زکوۃ، سرقہ اور ربا وغیرہ یہ ظنی الدلالۃ  نہیں بلکہ مجمل ہیں اور سنت نے ان کی تبیین کر دی ہے. نیز مناہج اجتہاد میں مدارج دلالات کا تعلق بھی زیر بحث ظنی الدلالہ سے نہیں ہے کیونکہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ اجتہادی دلالات کے نتیجے میں حاصلِ ہونے والا حکم منصوص کی طرح نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے.

زیر بحث ظنی الدلالۃ  کا تعلق قرآن کے ان الفاظ و تراکیب سے جن کے عربی زبان و لغت میں ایک سے زائد معانی ہیں، سنت نے ان میں سے کسی معنی کو متعین نہیں کیا. صحابہ کرام نے قرآن کے اولین مخاطب اور اہل زبان ہونے کے باوجود ان الفاظ کے معانی میں اختلاف کیا ہے. وہی چند الفاظ جو میرے خیال میں ایک درجن بھی نہیں ہوں گے ظنی الدلالۃ  ہیں، ان کے علاوہ باقی سارا قرآن بلا شبہ قطعی الدلالۃ  ہے.

اس نوعیت کے مشہور الفاظ حسب ذیل ہیں :

1_ قروء (2:228) قرء کی جمع ہے. اس کے معنی حیض اور طہر دونوں کے ہیں. قرآن کا حکم ہے کہ مطلقہ عورت دوسری شادی سے پہلے تین قروء انتظار کرے. قروء کا معنی سنت نے متعین نہیں کیا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں دونوں آراء موجود تھیں. یہی اختلاف آگے ائمہ مجتہدین میں بھی چلا.

2_ لامستم النساء (4:43)لمس کا حقیقی معنی چھونا اور مجازی معنی جنسی عمل ہے. اس آیت میں صحابہ کی ایک جماعت نے حقیقی اور دوسری نے مجازی معنی مراد لیا.

3_ لاتقربوا الصلاة……… یہ آیت اس اعتبار سے بہت دلچسپ ہے کہ اللہ  نے خود ہی آیت کے پہلے حصے میں الصلوۃ سے نماز اور اگلے جملے میں مسجد مراد لی.

4_لا یضار کاتب ولا شہید (2:282) یہ جملہ معروف اور مجہول دونوں اعتبار سے درست ہے.

5_الا الذین تابوا (24:5) اس آیت میں واضح نہیں کہ کیا توبہ کرنے والے کا صرف فسق ختم ہوگا یا اس کا سوشل سٹیٹس بھی بحال ہو جائے گا.

6_واشہدوا ذوی عدل منکم (65:2)آیت میں گنجائش ہے کہ طلاق کے بعد کے تمام مراحل کے لیے گواہی کو ضروری قرار دیا جائے یا صرف رجوع کے لیے یا امر کو استحباب پر محمول کیا جائے.

یہ چند مثالیں ہیں جن کاتعلق عربی الفاظ وتراکیب سے ہے. تلاش سے کچھ اور مثالیں بھی مل سکیں گی لیکن ان آیات کے ظنی الدلالہ ہونے کی خوبی یہ ہے کہ ان میں سے جو مفہوم بھی لیا جائے الوہی ہدایت کے وسیع دائرے کے اندر ہی تنوع اور بوقلمونی کی خوبصورتی کا مظہر ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر سید طفیل ہاشمی معروف اسلامی سکالر اور استاذ الاساتذہ ہیں۔ آپ تدریس کی اس روایت کے امین ہیں جو سوال اٹھانا، سوچنا اور مکالمہ کرنا پسند کرتی تھی۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply