قلمی مقالہ گستاخیاں۔۔۔۔ایمان ذیشان

” یہ کیا پکایا ہے ” صاحب نے جیسے ہی بطور سالن دال کو کھانے میں دیکھا تو چونکتے  ہوئے اپنی نصف بہتر سے بولے تھے۔۔۔

” دال ہے اور کیا ہے اب گھاس پکانے سے تو رہی ” بیگم تنک كر بولی — جانے کس چیز سے نالاں ہو کر جیسے وہ بھری بیٹھی تھی۔

” بندہ سارا دن باہر گزارتا ہے” سرتاج برہمی سے گویا ہوئے – دال کی رونمائی جیسے اس کی طبیعت پر گراں گزری تھی

“تو میں بھی گھر میں بیٹھ کر سارا دن کنچے نہیں کھیلتی” بیگم دوبدو بولتے کاٹ کھانے کو دوڑی۔۔۔

” کچھ اور ہی پکا لیتی کل بھی تو دال تھی ” سرتاج کو دال   راس نہ آئی تھی سو منہ لٹکایا- اعتراض کا نقطہ بدستور جاری تھا

” ایسے کونسے رانوں چانپوں اور گوشت سے فرج بھری رکھوائی تھی گھر میں-   جنہیں میں نے اپنے میکے والوں کو ہضم کرایا ہو جو اب دال دیکھ کر ناک بھوں چڑھا رہے ہو ”

بیگم نے آگے سے جلی کٹی سنائی۔۔

” خیر تمہارے میکے والے مہینے میں ایک دفعہ گوشت بھی پکا لیں تو معجزہ ہی ہو جائے  گا” سرتاج نے اپنی ہی بات کا لطف لیتے بیگم پر چوٹ کی۔

” ہاں ہاں اور جو تمہاری ماں تین بوٹیوں کو ریشہ ریشہ کر کے دیگچی بھر پانی میں غوطہ مارتے آلو سالن کو قورمہ کا نام دے کر داد سمیٹی تھی وہ بھی سب میں جانتی ہوں ”

بیگم نے چراغ پا ہو کر میاں کے لتے لئے۔۔۔

سرتاج کی غصے سے نتھنے پھول گئے۔۔۔” بخش دو میری ماں کو اب مرحوم ہو کر گزر چکی ” سرتاج سرخ چہرہ لئے بھنائے ۔۔

” ہاں مرحوم ہونے میں اتنی تاخیر کر دی کہ  میری جوانی ہی ان کے ظم و ستم اور  عتاب تلے مرحوم ہو گئی”

بیگم پر رقت آمیز  کیفیت  طاری  ہونے لگی۔۔

سرتاج نے کھری اور سچی بات پر جزبز ہو کر پہلو بدلا- بات سے بات نکال کر بات کو طول   دینے سے بہتر تھا دال ہی ٹھونسی جاتی مگر پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی سخت بد مزاجی عود کرآئی۔۔

” یہ کیسی دال پکائی ہے عجیب ذائقہ ہے” وہ منہ بسور کر بولے

” کل والی ہے شاید گرم ہونے میں ان کی تاثیری بخارات اڑ گئے ”

بیگم نے بےنیازی سے جواب  دیا ، جو سرتاج کے سر پر کسی بم کی طرح پھٹا۔۔

” کل والی باسی دال ” حیرت سے میاں کی آنکھیں ابل ابل  کر باہر نکلنے کو بیتاب تھیں۔

” ہاں تو باسی دال کھانے سے تم گونگے نہیں ہو جاؤ گے؟ اور ویسے بھی آج سارا دن کپڑے دھوئے سو تھک گئی تھی”

بیگم نے تفصیلی روداد سے شوہر کو آگاہ کیا۔۔

کیوں سارے محلے بھر کے کپڑے دھوئے تھے ”
سرتاج چڑ گئے

” کیا مطلب ہے تمہارا تم مجھے دھوبی گھاٹ خاندان والوں کا سمجھتے ہو”

بیگم کو کلس کر تاؤ آ گیا

سرتاج بیوی کی دہشت سے ڈر اٹھے۔ بیگم کے تاؤ نے اس کے ذہن میں اپنے جلالی تاؤ کی یاد تازہ کر دی تھی

” پر تم نے خود ہی تو کہا کہ  سارا دن ” بیگم کے جلال آگے وہ منمنائے ۔

ہاں تو تمہیں کیا لائٹ والوں کی بیہودہ حرکتیں نہیں پتا —بجلی دیں نہ دیں بل وقت پر آ کر منہ پر مارتے ”

لو جی بیگم نے اب کوسنوں کی لپیٹ میں بجلی والوں کو لے لیا۔۔۔

سرتاج بیگم کو گوہر افشانیوں میں مصروف پا کر بد ذائقہ دال سے بیزاری میں منہ بھرنے لگے

چند ثانیوں بعد ————–

” اب چائے ملے گی یا پھر ہوٹل میں منہ مار آؤں” شوہر طعنہ دار لہجے میں گرجے

” مار آؤ ویسے بھی بیوی بچوں پر ایک روپیہ لٹانا تمہیں حرام لگتا ہے. دانتوں تلے پسینہ آتا ہےمگر باہر کھانے پینے کی بات ہو تو سب سے اول تمہاری ہی رال ٹپکنے لگتی ”

بیگم لٹھ مار انداز میں بولنے پر آئی تو ساری طبیعت ہی صاف کر دی

” اففف کہاں سے کہاں بات لے جاتی ہو جاؤ چائے  لاؤ اٹھو”

سرتاج کو آگ لگ گئی تھی بیوی کی بات پر

” ہاے الله”

اچانک بیگم سر پکڑ کر چیخی

” کیا ہوا کیا ہوا ” سرتاج بوکھلا گئے

میں دودھ تو ابلنے کو چولہے پر رکھ آئی تھی ” بیوی بتاتے باہر کو لپکی

“اف یہ عورت ساری زندگی گزر گئی مگر گھر چلانے کا سلیقہ نہ آیا”

سرتاج نے دو حرف ناگواری سے ادا کر کے  پاس پڑا اخبار پڑھنے کو تھام لیا

یکلخت خاموشی میں صدا گونجی

” ہاے الله مر گئی سنئے سنئے ”

ہوائیاں اڑاتا چہرہ لئے بیگم نے منہ کمرے  کے  اندر گھسیڑا

” کیا ہے اب ” سرتاج کو ذرا بھی بیگم کی فنکاری نہ بھائی

” وہ دودھ تو پھٹ گیا ” بیگم بتاتے ہوئے روہانسی ہو گئی

” تو کیا اب میں سوئی دھاگا لے کر پھٹے دودھ کو سی دوں یا ترپائی کر دوں ”

سرتاج جھنجھلائے

“اف ستایا ناس تم مرد تو بولتے ہی فضول ہو” بیگم جملے اچھالتی یہ جا وہ جا

Advertisements
julia rana solicitors london

“اففف یہ عورتیں ” سرتاج طنزیہ بڑبڑا اٹھے اور اخبار میں گم ہو گئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply