ملکہ۔۔ملکہ ہو تی ہے۔۔جہا ں بھی ہو۔۔

اپنی بیٹی کو اسکول کے گیٹ سے اندر بھیج کر میں با ہر نکل ر ہی تھی کہ میر ی نظر اس پر پڑی ۔۔آ ج اتنے بر سوں بعد میں اسے سکو ل کے آ گے کھڑا د یکھ کرمیں حیر ان رہ گئی ۔۔۔ وہ دو بچوں کو ہا تھ ہلا ہلا کر خدا حا فظ کہ ر ہی تھی۔۔۔میں نے سو چا شا ہد میر ی غلط فہمی ہے۔۔مگر جب اسے اپنی طر ف شنا سا نظر وں سے تکتے د یکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی ہے۔۔جس میں دس بر س پہلے ملی تھی۔۔وہ اب اس حا ل میں یہا ں کیسے ؟
یہ سوال مجھے بے چین کر گیا۔۔جیسے وہ جا نے کو مڑی تو میں بھا گ کر اس کے پا س پہنچی اور پھو لتی ہو ئی سا نسوں کو سنبھا لتے ہو ئے سلا م کیا۔۔ اس نے مسکر ا کر جواب دیتے ہو ئے میرا حا ل بھی پو چھ لیا۔۔جواب دیتے ہو ئے میں نے کہا آ پ کو میں یا د ہو ں تو وہ عجیب انداز میں ہنسی اور کہا آ پ کو میں کیسے بھو ل سکتی ہوں۔
۔مجھے اپنے ذ ہن میں آٹھتے ہو ئے بہت سے سوالوں کے جواب چا ہیے تھے سو میں نے اسے کہا یہا ں قریب ایک پا رک ہے وہا ں چل کر بیٹھ کر بات کر تے ہیں وہ بھی بلا کسی حجت کے ما ن گئی۔۔گھا س پر بیٹھتے میں کن اکھیوں سے اس کی طر ف دیکھا تو سو چا وہ آج بھی اتنی ہی خو بصو رت تھی جتنی کہ دس سال پہلے تھی۔۔بلکہ اب وہ پہلے سے ذیا دہ دلکش لگ ر ہی تھی۔۔۔اس نے میر ی شا دی اور بچوں سے با ت چیت کا آغا زکیا۔۔میں نے جو اب دیتے ہو ئے کہا کہ اللہ کا شکر ایک بیٹی ہے ۔۔اس نے میر ے پو چھنے سے پہلے اپنا بھی بتا دیا کہ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔۔ماں جیسی پیا ر کر نے والی ساس ہے، با پ جیسا شفیق سسر ہے، بہنوں کی طر ح ضد ی دو نندیں ہیں۔۔اور سب سے بڑھ کر ایک عز ت کر نے وا لا شوہر ہے۔۔یہ سب کہتے ہو ئے اس کی آنکھیں چمک ر ہی تھی۔۔میں بہت بے چین تھی کہ جو میں پو چھنا چا ہتی ہو ں وہ کیسے پو چھوں۔۔مگر شاید اس نے میر ی آنکھوں میں مچلتے سوال کو پڑھ لیا تھا۔۔جب ہی بہت آرام سے بو لی تم یہ جا ننا چا ہ رہی ہو کہ مجھ جیسی لڑ کی کو یہ سب ملا کیسے۔۔میں نے ہلکی سی گردن ہلائی۔۔

میری ملا قا ت ملکہ حسن سے دس سا ل پہلے ایک شا دی میں ہو ئی تھی۔۔وہ واقعی اپنے نا م کی طر ح حسن سے مالا مال تھی۔۔ پا ؤں میں گھنگروں با ندھے اس نے ایسا شا ندار رقص پیش کیا کہ سب واہ واہ کر آٹھے۔۔اس شا دی میں میری اس سے اچھی دعا سلا م ہو گئی تھی اس کی وجہ شا ہد اس کی بے تحاشہ خو بصو رتی تھی۔۔پھر اس کے بعد میرا اس سے کبھی رابطہ نہ ہوا۔۔کیو نکہ وہ اس با زار سے تعلق رکھتی تھی جہا ں دن سوتے اور راتیں جا گتی تھی۔۔اور ہما رے معاشر ے میں ایسے لوگوں سے میل ملا پ کو بہت گند ی نظر سے دیکھا جا تا ہے۔۔مگر آج دس سال بعد اسے ایسے دیکھا تو حیران رہ گئی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس نے اپنے با رے میں بتا نا شر وع کیا کہ یہ تو تمھیں پتہ ہے کہ میں با زار حسن کی رانی تھی جہا ں دن سوتے اور را تیں جا گتیں تھی۔۔ایسا کو ئی کو ٹھا نہ تھا جہاں میر ے حسن کے چرچے نہ ہوں۔۔۔ہر کو ئی میر ی ایک جھلک دیکھنے کو بے تا ب رہتاتھا۔۔میں اپنے حسن کا بھر پور فا ئدہ بھی اٹھاتی تھی اور منہ ما نگی رقم گا ہگوں سے لیتی تھی۔۔۔میں اپنی مستی میں مست تھی ۔۔میں نے کبھی نما ز نہیں پڑھی تھی اور خدا سے بھی کبھی کچھ ما نگنے کی ضر ورت نہ پڑھی کیو نکہ بن ما نگے ہی اتنا کچھ مل گیا تو پھر خدا کو کون یاد کرتا۔۔۔میں دن رات بس اپنا آپ کو سجا نے سنوارنے میں مگن ر ہتی کیو نکہ میر ی خوبصو رتی ہی میرا سب سے بڑا ہتھیارتھی۔
زندگی بڑ ی پر سکون جا ر ہی تھی کہ اچا نک ایک دن اس بندے نے آ کر میر ی پر سکو ن زندگی کو منتشر کر دیا۔۔
ہو ا کچھ یوں کہ میں ہر روز کی طر ح سج دھج کر جب رقص کرنے آئی تومحفل میں صرف ایک بند ہ تھا۔۔میں حیران تھی کہ ملکہ حسن کے رقص میں ایک بند ہ مگر ماما برکت نے یہ کہ کر میر ی سا ری حیرانی دور کر دی کہ اس بندے نے آج پورے کوٹھے کی قیمت دی ہے اور تم صرف اس کے سا منے رقص کروں گی میں دل میں تو خو ش ہو ئی کہ چلو ایک ہی دن سہی مجھے ہزاروں غلا غت بھر ی نظر وں سے تو نجا ت ملے گی۔
میں نے جیسے رقص شروع کیا اس نے اٹھ کر میرا ہا تھ پکڑ لیا جو میرے لیے نئی با ت نہ تھی میر ا ہا تھ تو ہر روز ایک نئے ہاتھ میں ہوتا تھا۔۔مگر ایک با ت نئی تھی کہ جب اس نے میرا ہاتھ پکڑا تو مجھے اس کی آنکھوں میں ہوس نظر نہ آ ئی۔ میں با زار حسن کی ملکہ تھی مجھے کون کیسے دیکھتا ہے اور کیا سوچتا ہے ۔۔میں ہا تھ کی گر می سے سمجھ جا تی تھی۔۔مگر آج معا ملہ کچھ الٹا لگ ر ہا تھا ۔۔میں نے سوچا د یکھوں تو سہی تیل کی دھار کہا ں تک ہے۔۔۔میں نے اس کے سا منے ایک دو ادائیں دکھا ئی تو تعر یف کرنے کے بجا ئے اس بندے کے رو ئیے نے مجھے حیران کر دیا۔ جب اس نے کہا اپنے دوپٹے کو سر پہ لو اور میرے پاس بیٹھو۔۔۔یقین ما نو ایسا لگ رہا تھا جیسے کاٹو تو بد ن میں لہو نہیں۔۔
میں چپ چا پ دو پٹہ سر پر لیتے ہو ئے اس کے پا س بیٹھ گئی۔۔کچھ دیر کی خا موشی سے وہ مجھے ٹکٹکی باندھے د یکھتا ر ہا ۔۔اس کے اس طر ح د یکھنے سے مجھے الجھن ہو نے لگی کہ آ خر یہ بندہ چا ہتا کیا ہے۔۔اس نے ان الفاظ کے سا تھ خا موشی توڑی کہ مجھ سے شا دی کروں گی اس کے جملے نے گو یا مجھے سکتہ کر دیا ہو۔۔میں غصے میں جواب کے لیے اسے کچھ کہنا چا ہا تو زند گی میں پہلی بار ملکہ حسن نے اس شخص کی آنکھوں میں اپنے لیے وہ چیز دیکھی جو اسے کبھی کسی کی نظروں میں دکھا ئی نہ دی۔ وہ تھی عز ت ۔۔لوگوں کی آ نکھوں میں ہوس ،غلاغت،تعریف، مسکے تو میں نے بہت د یکھے تھے مگر عز ت آ ج پہلی با ر کسی آنکھوں میں نظر آئی تھی۔۔جس نے میر ے لب سی دیے تھے۔۔اپنے آپ کو بہلا تے ہو ئے کہ شاید مذاق ہو۔ میں نے کہا آپ کو علم بھی ہے کہ آ پ نشے میں کیا کہہ ر ہے ہیں۔۔وہ اٹھ کھڑا ہو ا اور جا تے ہوئے بس اس نے یہ کہا کہ نشہ ہے یا ہوش مجھے پتہ نہیں مگر آ ج سے 15دن تک میر ا انتظار کرنا۔ اگر میں نہ لوٹا تو پھر تمھا ری زندگی تم اپنی مر ضی سے جینا۔ وہ یہ کہہ کر رکا نہیں۔۔اس کی اس با ت نے مجھے ششدر کر دیا۔۔۔ اور جب میرے ہا تھ پر میر ے آ نسو گرے تو میں نے پہلی بار بے یقینی سے آسمان کی طر ف دیکھا اور سو چا کہ لو گ ٹھیک کہتے ہیں کہ خدا ہے۔۔۔
وہ چلا گیا میرے پورے جسم پرکپکپی طا ری تھی۔۔ماما بر کت اور با قی لو گ بھا گ کر آئے کہ کیا ہو ا ۔۔ہر کو ئی اپنے اندازے لگا رہا تھا کو ئی کہہ رہا تھا کہ نظر لگ گئی ہے ۔۔کسی کو جادو ٹونے کی پڑ ی تھی ۔۔۔مگر میں عجیب سی بے یقینی کی کیفیت سے گزر ر ہی تھی۔۔کہ جو ہوا وہ سچ تھا یا خواب۔۔۔
میں پہلی بار جب جا ئے نماز پر کھڑی ہوئی تو مجھے نماز ٹھیک سے آتی بھی نہیں تھی مگر پتہ نہیں میں کیا پڑھ رہی تھی ۔۔جیسے ہی میں نے دعا کے لیے ہا تھ اٹھا ئے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ما نگوں کیا کیو نکہ مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ کہا ں تھا۔۔۔بس سجدے میں پڑ ی میں یہی کہہ ر ہی تھی اللہ پا ک آپ ہیں ۔۔اور شہ رگ سے قر یب ہیں ۔۔میں اتنا روئی کہ روتے روتے میر ی ہچکی بند ھ گئی۔۔مگر میں سجدے سے نہ اٹھی یہاں تک کہ ماما بر کت اور میر ی دوسری ساری سکھیاں میر ے رونے کی آ واز سے میر ے سر پر پہنچ گئیں ۔۔۔ مجھے ایسے پا گلوں کی طر ح روتا دیکھ وہ سب بھی پر یشا ن تھے۔۔رات یوں ہی روتے روتے جانے کس پہر میر ی آنکھ لگ گئی۔۔۔صبح سورج کی روشنی سے میر ی آنکھ کھلی تو رات والا سارا وا قعہ میری نگاہوں میں گھوم گیا۔۔نا شتے پر ماما برکت کو ساری با ت بتا دی تو وہ اتنے زور سے ہنسی کہ مجھے شرمندگی ہو نے لگی کہ میں کوئی بہت ہی غلط با ت بو ل گئی ہوں۔۔۔ وہ بو لی 47سا ل عمر ہے میری اور میں نے ایسے بہت سے عاشق رات کی تا ریکی میں بڑ ے بڑے دعوے کر تے دیکھے ہیں مگر سویرا ہوتے ہی ان کی عا شقی کا بھوت اتر جا تا ہے اور ان کو ہم رنڈیا ں نظر آ نا شر وع ہو جا تی ہیں۔۔تو بھی بھول جا اور اپنا خیا ل رکھ آج شا م کو ایک بہت بڑا بز نس مین آنے والا ہے۔۔بے شما ر دولت ہے اس کے پا س منہ ما نگی قیمت لوں گی ۔۔آ ج تو سمجھو وارے نیا رے ہو جا ئے گے ہمارے۔۔پہلی با ر مجھے ماما برکت کی با توں میں کوئی د لچسبی نہ تھی میں تو کچھ اور سوچ ر ہی تھی ۔۔ماما بر کت جا نے لگی تو میں نے اچا نک کہا میں 15دن تک کو ئی بھی فنکشن نہیں کروں گی۔۔میرے لہجے کی پختگی نے ماما بر کت کو چپ کروا دیا۔۔مگر وہ جاتے جا تے بس اتنا بو لی کہ 15دن بعد ایک بہت بڑا مجرا ہو گا جس میں اتنے سالوں بعد ایک با ر پھر ماما بر کت پا ؤں میں گھنگرو با ند ھے گی اور نا چے گی۔۔۔
وہ یہ با تیں کر تے بے طر ح رو ر ہی تھی میں نے نر می سے اس کے کند ھے پر ہا تھ ر کھا اور دلاسہ دیا۔۔۔
اس نے پھر سے بتا نا شر وع کیا کہ پتہ ہے میر ے دن رات سجدوں میں گز نے لگے اور میں اللہ سے رو رو یہی التجا کر نے لگی کہ میر ے اللہ مجھے سر خر و کرنا۔۔۔روتے بلکتے 15 دن گزر گئے۔۔آج میر ی امید نے دم تو ڑ دیا۔۔شام کو میں نے تیا ر ہو کر بس ایک نظر آسمان کی طر ف دیکھا اور با ہر کی طر ف پیر بڑھا تے ہو ئے سوچا کہ ماما بر کت ٹھیک کہتی ہیں کہ شا دی اور گھر کا خواب ایک رنڈی کو دیکھنے کا کو ئی حق نہیں۔۔آ نسوؤں کو پیچھے د ھکیلتے چہر ے پر مسکر اہٹ سجا ئے میں جب اندر داخل ہو ئی تو میرے پا ؤں کے نیچے سے ز مین کھسک گئی ۔۔کیو نکہ وہ اکیلا نہیں بلکہ نکاح خواں اور گواہوں کے سا تھ موجود تھا۔۔لیٹ آنے پر ہا تھ جوڑ کر معا فی مانگتے ہوئے اس نے ہا تھ آگے بڑ ھا کر کہا مجھ سے شا دی کرو گی تو میں بے اختیا ر سجدے میں گر گئی۔۔ماما بر کت نے مجھے سنبھا لتے ہوئے اس کے پہلو میں بٹھا دیا۔۔اور نکا ح کی تقریب میں ایک دوسرے کو قبو ل کرنے کے بعد میں ماما با کت کے گلے لگ کے بلک بلک روئی۔۔اور ماما برکت سمیت سب کو ٹھے والوں نے پہلی بار ایک طوائف کو زندگی کے نئے سفر پر اس کے ہمسفر کے ہمر اہ کر دیا۔۔۔
نئے گھر میں داخل ہو تے وقت میں نے سو چا کہ یہ ایک طو ائف نہیں بلکہ ایک سلطان اپنی رضیہ کو عزت بنا کر گھر لے آیا ہے۔۔
نئے گھر میں سب لوگوں نے شروع میں تو مجھے قبو ل نہیں کیا۔ وہ وقت ہم دونوں کے لیے ایک کٹھن امتحان تھا اور اللہ نے ہم دونوں کو سر خرو کیا اور ٓاہستہ آہستہ حالات بد لتے گئے۔۔مجھے گھر والوں نے اپنا لیا تھا۔۔زند گی کے سفر میں اگر کبھی میر ا حو صلہ پست ہو تے لگتا تومیں سو چتی کہ میں اس شخص کو کیسے شرمندہ ہو نے دوں جس نے مجھے پیا ر تو دیا مگر اتنی عز ت دے دی کہ اب اگر یہ زند گی اس کے واسطے ہار بھی جا ؤں تو پروا نہیں۔۔سلطان نے ہر جگہ میر ا حوصلہ بڑ ھا یا۔۔ہر قد م پر میرا ساتھ دیا۔۔کبھی بھولے سے بھی ان کی یا ان کے خا ندان کی زبا ن پرمیرا ما ضی نہ آیا۔۔۔اللہ کا شکر ہے کہ اب سکون ہے ۔۔عزت ہے ۔۔میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔۔
مگر اس کے آخر ی لفظ آج بھی با ز گشت بن کر گو نجتے ہیں۔۔کہ میں تو ایک طوائف تھی ۔۔اس جگہ سے تھی جس کا لو گ او نچا نا م لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔۔اگر مجھے اس معا شر ے نے عز ت دی تو وجہ میرا شو ہر بنا۔۔ایک مر د چا ہے تو عو رت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔میر ی مثال تمہا رے سا منے ہے۔۔۔میں آج جو کچھ ہوں ایک مرد کی وجہ سے ہوں ۔۔اور میں کل بھی جو کچھ تھی اس کہ وجہ بھی مرد ہی تھے۔۔۔یہ مر د اگر چا ہے تو عورت کو آسمان پر بٹھا دے اور چا ہے تو ز مین کی خا ک بنا دے۔۔میں کل بھی ملکہ تھی اور آ ج بھی ملکہ ہو ں بس فر ق یہ ہے کہ کل کی ملکہ با عث ند امت تھی ۔۔آ ج کی ملکہ با عث فخر ہوں۔۔۔
وہ یہ سب کہہ کر اٹھی اور جانے سے پہلے اس کے ایک فقر ے نے میر ی آنکھوں کے بہتے آنسووں میں اضافہ کردیا ۔۔اس نے کہا پتہ ہے میں جتنی بھی عبادت کر لوں ،نوافل پڑھ لوں،روزے ر کھ لوں مجھے پھر بھی اللہ کے سا منے جا نے سے شر م آتی ہے ۔۔جا نتی ہو کیوں ۔۔وہ اس لیے کہ میں کیا تھی اس نے کیا بنا دیا۔۔ ایک گندی غلاغت بھر ی زند گی جی ر ہی تھی اس نے عز ت بخشی۔ا ور بنا ما نگے وہ سب دے دیا کہ اب دن رات کی عبا دت بھی شکرانے کے کیے کم ہے ۔۔۔۔

Facebook Comments

عاصمہ روشن
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ روشن نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کی ڈگری کیساتھ ساتھ اردو میں بھی ماسٹر کیا ہے اور ابھی ایم فل کی طالبہ ہے -پڑھنے اورلکھنے کی کوشش بچپن سے ہیں- غیر سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور اس وقت شعبہ صحافت سے وابستہ ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply