زمانے میں برپا چھوٹے چھوٹے سانحات

کہا جاتا ہے کہ شراب سے اس لئے منع کیا جاتا ہے کیونکہ اس کو پینے کے بعد انسان اپنے حواس میں نہیں رہتا۔ ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ جو منہ میں آئے اچھا برا بول دیتا ہے۔ اخلاقیات بھول جاتا ہے۔ تہذیب کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے۔ سور ,سے اس لئے منع کیا گیا کہ وہ غلیظ جانور ہے۔ پاخانہ شوق سے کھاتا ہے۔ ہر جانور سے شہوت پوری کرلینے کی گندی عادت رکھتا ہے۔ آخر کوئی تو حکمت ہے اس طرح کے سب کھانے پینے سے روک دینے کی۔ پھر اسلام تو اور بھی زیادہ تاکید کرتا ہے۔ حرام کھانوں کے علاوہ وہ تو حلال حرام آمدنی پہ بھی بات کرتا ہے۔ خود بھی حلال کھانے اور اپنے بچوں کو بھی رزق حلال کھلانے کی بات کرتا ہے۔ چلیں یہ تو ایک بات ہو گئی۔ چلتے ہیں ایک اور بات کی طرف۔
ہمارے بڑے اپنے گذرے وقتوں کو بہت یاد کرتے ہیں۔ جب سادہ زمانہ تھا۔ سادہ لوگ تھے۔ سادہ زندگی تھی۔ سادہ خوراک تھی۔ بڑی عمر کے لوگ سبھی کے لئے لائق احترام تھے۔ اجنبی بڑا بھی ڈانٹ دیتا تو سب خاموشی سے سن لیتے تھے۔ آج کیا وجہ ہے کہ سگا بیٹا باپ سے تلخ کلامی کرتا ہے۔ ماں کو گالیاں بکتا ہے۔ بہن کی عزت نفس تار تار کر دیتا ہے۔ کوئی تو وجہ ہو گی۔ یہ تیس چالیس برس میں ایسا کیا ہو گیا، کہ اتنا سب کچھ بدل گیا۔ کوئی لحاظ نہیں۔ کوئی تمیز نہیں۔
اس کی اور بہت سی جو وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی وجہ حرام اجزاء اور حرام مال کا معدے کے اندر اتارا جانا بھی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا۔ ایک دفعہ شراب پی لینے سے انسان کو کسی بڑے چھوٹے۔ حیا بے حیائی کی تمیز نہیں رہتی۔ صرف ایک دفعہ اندر جانے پہ شراب ہم پہ ایسا اثر کر دے، تو جب ہم سالوں تک حرام اجزا اندر اتاریں گے۔ سود کی کمائی کھائیں گے۔ حرام فیڈ پہ پلی برائلر اور دیگر اشیاء کھائیں گے۔ رشوت کی کمائی پہ اولاد کو پالیں گے۔ کسی کا حق مار کر اپنے پیٹ بھریں گے۔ تو کیا اس سب کا ہماری فطرت پہ اثر نہیں پڑے گا۔ ہماری سوچ پہ اثر نہیں پڑے گا؟ ہمارے لہجے پہ۔ ہمارے رویے پہ فرق نہیں پڑے گا؟ پڑے گا۔ بالکل پڑے گا۔
نہیں یقین تو اٹھا لیجئے تاریخ۔ حلال اور جائز طریقے سے آنے والی آمدنی پہ پلنے والے اصحاب نے کیسے کیسے واقعات مرتب کئے ہیں۔ سیدنا ابوبکر سے لیکر سیدنا حسین ؑتک۔ شیخ عبدالقادر جیلانی سے لیکر جنید بغدادی تک۔ بخاری سے لیکر شاہ ولی اللہ تک۔ کسی نے بھی۔ کبھی بھی حلال کے علاوہ کبھی ایک لقمہ بھی حلق سے اتارا ہو۔ تبھی آج ہم ان کی ناموس کی بات کرتے ہیں۔ ان کے مقام و مرتبے کو بلند تر جانتے ہیں۔ یہ جو ہماری روحانی اور جسمانی پرورش ہوتی ہے نا۔ ہماری اخلاقی و تہذیبی پرورش ہوتی ہے نا۔ اس پہ تربیت تبھی اثر کرتی ہے۔ جب اندر لقمہ حلال جاتا ہو۔ جب حلال حرام کی تمیز مٹ جائے، تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔ نہ باپ کی تمیز۔ نہ ماں کا خیال۔ نہ بڑوں کا ادب۔ نہ چھوٹوں کا خیال۔ نہ رشتوں کی قدر۔ حیوانیت ہے کہ بس دوڑی چلی آ رہی ہے۔ انسانوں کے روپ میں بھیڑئیے۔ سور۔ درندے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہم تباہ ہو رہے ہیں۔ برباد ہو رہے ہیں۔ مگر اس بربادی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا تو دور ان وجوہات کو جاننا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
اور جب ہم اتنا بھی گوارہ نہیں کرینگے، تو بہنوں کی عزتیں بھائیوں کے ہاتھوں پامال ہونگی۔ بیٹے باپ کا گریبان پکڑیں گے۔ بیٹیاں ماں کو نوکروں سے بھی پرے سمجھیں گی۔ خاندان جیسی پیاری اکائی کا وجود ختم ہو جائے گا، اور ہم بس چپ چاپ اپنے ساتھ۔ اوروں کے ساتھ ہونے والے گندے تماشے کو دیکھتے رہیں گے، اور مزید پستی میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔
رہے نام اللہ کا۔کسی کو برا کہنا یا اوروں کی برائی کرنا مقصود نہیں۔ بس یہ دکھ بیان کرنا مقصود ہے۔ میری بات سے متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔ سلامت رہیں۔

Facebook Comments

بلال آتش
معتدل نظریات اور عدم تشدد کا قائل ہوں اور ایسے ہی احباب کو پسند کرتا ہوں۔ نفرتوں کے پرچار کی بجائے محبتوں کے پھیلاؤ پہ یقین رکھتا ہوں۔ عام سا انسان ہوں اور عوام ہی میں نشست و برخواست رکھتا ہوں اور عوام ہی کی بات کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply