انٹرنیشنل سپیس سٹیشن ۔۔۔۔ محمد شہزاد قریشی

انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کو پہلی بار نومبر 1998 میں ٹکڑوں کی صورت میں خلا میں پہنچایا گیا۔ پھر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک اسٹیشن بنایا گیا جس میں 6کے قریب لوگ اپنا کام کرسکتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے 18 ممالک نے بھی اس سپیس سٹیشن میں اپنا اکیوپمنٹ اور لوگ بھیجنا شروع کردئیے۔ بالآخر 2011 میں دنیا کا مہنگا ترین خلائی  پروگرام مکمل ہوا، اس دوران خلائی  سٹیشن کو جوڑنے اور فعال کرنے کا سارا کام خلا میں ہی سرانجام دیا گیا اس سپیس سٹیشن کی لاگت کا تخمینہ 160 ارب ڈالرز لگایا جاتا ہے امریکہ، کینیڈا، روس، جاپان جرمنی سمیت 18 ممالک اس سپیس سٹیشن کا حصہ ہیں۔۔ اس میں یورپیئن سپیس ایجنسی کے ممالک بھی شامل ہیں۔۔

اسکے ماڈیلوز دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے میں روس کا ماڈیول ہے اور دوسرے حصے میں امریکہ اور دیگر ممالک شامل ہیں اب تک 18 ممالک کے 230 سائنسدان اس سپیس سٹیشن پر جاچکے ہیں اس میں موجود سولر پینلز کی مدد سے اس سپیس سٹیشن کو بجلی فراہم کی جاتی ہے یہ سٹیشن زمین سے 402 کلومیٹر بلندی پر موجود رہتا ہے اور 90 منٹ میں زمین کا ایک چکر پورا کرتا ہے۔۔ اس دوران اسکی سپیڈ 28 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس سپیس سٹیشن کا حجم ایک فٹ بال گراؤنڈ کے برابر ہے اس سٹیشن میں آکسیجن سولر پینل اور پانی کے باہمی ملاپ سے پیدا کی جاتی ہے۔۔ یہاں پینے والا پانی بھی کافی عجیب اور wired طریقوں سے حاصل کیا جاتا ہے زمین کے گرد اس چکر میں خلاباز ہر 45 منٹ کے وقفے سے سورج کو طلوع اور غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔ اس سپیس سٹیشن سے واپسی ریشین Soyuz TMA نامی ایک کیپسول نما جہاز سے ہوتی ہے جو تین آسٹروناٹس کو روسی ریاست کرغستان میں لینڈ کرواتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناسا کے مطابق 2024 کے بعد یہ سپیس سٹیشن خلابازوں کے بغیر ہی اپنا کام کرتا رہے گا جبکہ 2028 کے بعد اس کے کمپوننٹ کام کرنا چھوڑ دیں گے اس سپیس سٹیشن کی مدد سے اب تک ہزاروں تجربات کیے جاچکے ہیں جن میں اس بات کا تعین کیا گیا کہ خلا میں انسان کیسے کام کرسکتا ہے۔ اور مختلف قسم کی گریوٹی انسان پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں، لمبے عرصے تک خلا میں رہنے سے اسکی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply