• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پی ٹی ایم،نئی بوتل میں پرانی شراب۔۔۔۔عمیر فاروق

پی ٹی ایم،نئی بوتل میں پرانی شراب۔۔۔۔عمیر فاروق

کچھ تو وہ تھے جن کو مجبوری حالات نے رونے نہ دیا،
کچھ وہ تھے جنہوں نے رونا دھونا ہی کاروبار بنا لیا۔
اور کچھ وہ ہیں جن کو رونا آتا ہی نہیں۔
سچ پوچھیں تو کسی سیاسی جدوجہد میں رونے دھونے سے مجھے نفرت ہے۔ جو روتا ہے وہ سیاسی جہدوجہد ہی نہیں بلکہ گھٹیا درجے کا ڈرامہ ہے۔
خواب صرف اسلامسٹوں کے ہی کراچی کرچی نہیں ہوئے لیفٹ میں بھی یہی ہوا۔ اور ان میں یہ بندہ بھی شامل ہے۔

صاحبو !رو کے دکھا دینا بہت آسان ہے روتے مداری کو پیسہ پھینکنے والے بھی کچھ مل جاتے ہیں۔ اپنی انا اور  خبط عظمت کی بھی تسکین ہوتی ہے این جی اوز کسی پراجیکٹ کے بہانے کچھ نہ کچھ جیب میں بھی ڈال دیتی ہے۔
لیکن خود اپنی چارپائی کے نیچے لاٹھی پھیرنا، اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا محاکمہ سب سے مشکل کام ہے۔ لیکن کہا نا کہ رونا نہیں  آتا اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ سمجھتا ہوں۔

سیاسی جہدوجہد کو سنجیدہ ہونا چاہیے ۔ پرخار راہ گزر کا شکوہ فضول اور رونا دھونا اپنی ناکامی کا عذر لنگ تراشنا ہی ہے۔ مسلسل تجزیاتی سوچ ہمت ہارے بغیر !

خیر تفصیل اس تمہید کی کچھ یوں ہے کہ جب میٹرک پاس کرکے کالج داخل ہوا تو اسلامسٹ طلبہ تنظیموں کی بھرمار تھی لیکن بندہ تو سکول دور سے ہی افغان جنگ کو جہاد ماننے سے منکر تھا۔ روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی دلیل کا جواب ہمیشہ یہ دیتا تھا کہ اس صورت میں براہ راست سوویت یونین سے گارنٹی لے لی جائے اور اپنی جان اس جنگ سے چھڑائی جائے۔
تب ایک سینئر بلکہ بہت سینئر طالب علم سے ملاقات ہوئی جو کیمونسٹ تھا اور کالج اپنی طلبہ تنظیم کو منظم کرنے آیا تھا۔ گپ شپ شروع ہوئی۔ مارکس کی جدلیاتی مادیت، صنفی، سماجی، معاشی مساوات، استحصال کا خاتمہ کمزور طبقات کی حمایت وغیرہ ایسے بہت سے آئیڈیلز تھے جن سے متاثر ہوا اور اس استاد کے گروپ میں اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا۔
تب ضیا کا دور بہاراں تو بیت چکا تھا لیکن آج کا کرپشن یا جمہوریت کا استعارہ ان دنوں ضیا شہید کے مشن کی تکمیل پہ گامزن تھا لہذا مارکسزم پہ کتابیں ڈھونڈنا دشوار تھا سو استاد صاحب کی زبانی یا ان کے پمفلٹس سے ہی نظریاتی رہنمائی ملتی تھی۔

جب کچھ عرصہ بیت گیا تو اگلا سبق شروع ہوا اور یہ سبق تھا قومیتی جہدوجہد کا۔
بتاتا چلوں کہ میرے ضلع بہاولنگر میں نہ صرف ہم مقامی ریاستی لوگ آباد ہیں بلکہ ایک بہت بڑی تعداد انڈیا اور مشرقی پنجاب کے مہاجرین کی بھی ہے اور ان کے علاوہ وسطی و شمالی پنجاب سے آنے والے رقبوں کے الاٹی بھی شامل ہیں۔ یہ سب لوگ مقامی ریاستی لوگوں سے تعلیمی ،سماجی اور معاشی طور پہ زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
ہماری پسماندگی کے بارے میں استاد صاحب کی وضاحت یہ تھی کہ دراصل آپ لوگ بہت ترقی یافتہ ہیں  لیکن آپ کو اپنی قومی شناخت کا احساس نہ تھا جس کی وجہ سے یہ باہر سے آنے والے غیرملکی آپ کے ذرائع پیداوار پہ قابض ہوگئے اور آپ کو محروم کرڈالا۔ اسکا واحد حل یہ ہے کہ غیرملکی قابض کو باہر نکال کے اپنے ذرائع معیشت کا قبضہ خود حاصل کرو۔

مجھے اس پہ اعتراض ہوا۔۔ میرا تعلق مقامی زمیندار فیملی سے ہے اور میں  مقامی سماج کی حرکیات کو تب بھی اپنے استاد سے زیادہ سمجھتا تھا۔ میرا استدلال تھا کہ یہ تھیوری نہ صرف منفی اور تباہ کن ہے بلکہ زمینی حقائق کے بھی خلاف ہے۔
میں نے استاد کو نام لیکر مقامی آبادیوں کا بتایا کہ جہاں جہاں مقامی لوگوں کے ساتھ آنے والے زیادہ تعداد میں موجود ہیں وہیں وہیں ہمارے مقامی لوگ انکی دیکھا دیکھی تعلیم ، معیشت ، کاروبار اور فی ایکڑ پیداوار میں آگے بڑھ چکے ہیں بلکہ ان میں اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے کا بھی رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ اور جہاں جہاں ہماری مقامی آبادی زیادہ ہے وہاں وہ اتنی ہی پسماندہ ہے۔
یہ سوال قومی شناخت کا سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ سماجی پسماندگی کا ہے اور اس کا حل علیحدگی نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ انٹی گریشن میں پوشیدہ ہے تاکہ ہمارا جمود ٹوٹے کوئی بھی علیحدگی جمود کو زیادہ طاقتور کرے گی اور ہمارا جاگیردار و ملا اس پسماندگی کو مزید تقویت دے گا۔

استاد کا کہنا تھا کہ میرا نظریہ تھیوری کے خلاف ہے جبکہ میرا استدلال تھا کہ جو تھیوری پریکٹس پہ مثبت کی بجائے منفی نتائج لائے وہ تھیوری ہی مسترد کردینی  چاہیے۔

وہ قائل نہ ہوئے اور کچھ عرصہ بعد میں نے بھی اعتراض یا سوالات اٹھانا بند کردیے۔ اب میں صرف مشاہدہ کررہا تھا اور جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ آخر ہمارا لیفٹ پاکستان میں ناکام کیوں رہا ؟
کیا ناکامی کی وجوہات خارجی تھیں؟ اسٹیبلشمنٹ وغیرہ یا اندرونی تھیں کہ عوام نے ہی انکو ناقابل عمل جان کر مسترد کردیا؟
تب نظریاتی ٹریننگ کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا اور یہ تھا فوج دشمنی کا۔
اس وقت میں خاموش تھا سو یہ سمجھا گیا کہ میں بھی نظریاتی رٹے باز ہوں اور استاد کا دیا گیا شربت ہضم کرچکا ہوں۔ ادھر میں متجسس تھا اس مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کے لئے کہ آخر ہمارے ہاں کا لیفٹ ساری دنیا سے الگ ہے کیوں اور یہ ناکام کیوں رہا ؟
کیونکہ دیگر دستیاب مطالعہ جو بھی کرسکا اور ممکن ہوا اس کی روشنی میں نہ تو مارکسزم اور نہ ہی لیفٹ کوئی اتنا رجعت پسندانہ اور منفی نظریہ نظر آتا تھا جو ہمارے ہاں بیچا جارہا تھا۔

اس لئے اب میرے سوالات کا انداز مختلف تھا اس لئے اب میں اعتراض کرنے کی بجائے ہاں میں ہاں ملا کر کُریدنا چاہتا تھا کہ آخر اب فوج دشمنی کی وجہ کیا ہے جبکہ ضیا تو گزر گیا اور اگر پالیسی پہ کوئی اعتراض ہے تو نواز اور ن لیگ پہ ہو۔ فوج تو گئی گزری کہانی بن چکی اور اس کی بنیاد پالیسی ہے یا خود یہ ادارہ ہی انکو کھٹکتا ہے؟

استاد نے ایک دن سرشاری میں اس طرف توجہ دلائی کہ پاک فوج کا براہ راست انڈین فوج سے ٹکراؤ بہت ضروری ہے۔ پوچھا کہ اس کا ہمیں کیا فائدہ ؟
جواب ملا کہ تب یہ فوج تباہ ہوجائے گی۔
اگر فوج تباہ ہوگئی تو ہمیں کیا ملے گا ؟ میرا سوال۔۔۔
جواب تھا کہ اسی فوج نے ملک کو متحد رکھا ہوا ہے اس کے بعد کوئی روکنے والا نہ ہوگا کہ ہم اس ملک کے جتنے مرضی حصے کرلیں۔
یہ جواب میرے اونٹ کی کمر پہ آخری تنکہ تھا صلح پسند طبیعت کے باوجود غصے سے اٹھا اور کامریڈ کو کھری کھری سنا دی کہ سب کچھ آپ کی سستی بوتل نہیں کہ وہ چار آنے میں مل جائے خدا حافظ
کامریڈ استاد اس کے بعد بہت جلد جدوجہد ترک کرکے اپنے آبائی شہر واپس چلا گیا جو الگ کہانی ہے۔

بندہ خود اس کے ابتدائی ردعمل میں لبرلزم کی طرف گیا لیکن بہت جلد یہ بھی منکشف ہوا کہ امریکہ لبرلزم کو صرف اپنی خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پہ برت رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سابقہ کامریڈ دھڑا دھڑ این جی اوز میں بھرتی ہوکر مشرف بہ لبرلزم ہورہے تھے۔ اس زمانہ میں طالب علم کو بھی این جی او میں گھیرنے کی ناکام کوشش ہوئی جسکی کہانی پھر سہی۔

ْنائن الیون کے فوری بعد بندہ یورپ میں تھا اور حقیقتاً یہ یورپ ہی تھا جہاں نئے سرے سے مارکسزم میں دلچسپی پیدا ہوئی اور حقیقی لیفٹ سے تعارف ہوا۔
افسوس کہ ہمارے ہاں ہر جدید سیاسی نظریہ رجعت پسندوں کے ہاتھ چڑھ کر ذلیل ہی ہوتا رہا ان کے ذاتی مفادات عوام کو پسماندہ اور گمراہ ہی کرتے گئے۔

آج جب فیسبک  پہ روز کسی نئی سیاسی تحریک کو دیکھتا ہوں تو ابتدا میں ہی کچھ چیزیں چیک کرلیتا ہوں۔ وہ پرانی کہانی آج بھی نئے روپ میں سنانے کی کوشش ہوتی ہے تو انجام بھی پرانا ہی ہوگا نیا کہاں سے ہو ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

پی ٹی ایم نئی بوتل میں پرانی شراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ باٹم لائن پہ انکی جدوجہد بھی علیحدگی اور فوج دشمنی کی ہی ہے۔ اس تسلسل کو صرف طالبان ہی توڑ سکے انہوں نے فوج دشمنی کا مذہبی تکفیری نظریہ پیش کیا اور آجکل افغانستان مقیم ہیں۔ ادھر پی ٹی ایم جتنی بھی لبرل ہے وہ بتیس ہزار مِسنگ پرسنز کے بہانے ان طالبان کو بحال کرانے کو جدوجہد کررہی ہے۔
ہمارا لیفٹ جو مرضی رو دھو لے حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنی جہالتوں کی وجہ سے ناکام ہوا، کوئی سازش اس کے پیچھے نہ تھی۔
ناکامیاں صرف اپنی کمزوریوں اور جہالتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں ان کے پیچھے سازش ڈھونڈنا محض تن آسانی ہے۔
وہ جنہوں نے رونے کو اپنا پیشہ بنا لیا مداری کی طرح
لیفٹ کو کسی ادارے یا خود اپنے ہی ملک کے خلاف ردعمل کی نفسیات سے آزاد ہونا ہوگا کیونکہ ردعمل کے شکار کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ہے انکی تازہ پوزیشن کم ہنسنے والی ہے کہ ضیا دشمنی سے لیکر آج ضیا کی معنوی اولاد کی جی حضوری تک آ پہنچے ؟
مجھے بتا تو سہی کہ اور زوال ہے کیا ؟

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply