کیلنڈر کا نیا صفحہ /ڈاکٹر مختیار ملغانی

دوسرے مذاہب کی نسبت عیسائیت میں یہ خصوصیت نسبتاً زیادہ پائی گئی کہ اس نے اپنے خلاف اٹھتی قوتوں کو آزادی دے کر اپنے ہی زوال کی رفتار تیز تر کر دی، مروج کیلنڈر اس کی ایک بہترین مثال ہے، قدیم ادوار میں کائنات کے مختلف ماڈلز کی بحث پر جب پہلی دفعہ کسی کائناتی مرکز کا تصور سامنے آیا تو محققین کی کثیر تعداد نے زمین کو کائناتی مرکز قرار دیا کہ زمین ساکن ہے اور باقی تمام وجود مختلف فاصلوں پر اس کے گرد حرکت کر رہے ہیں، اسے Geocentric ماڈل کہا جاتا ہے، ( زمین-Geo ). فیثا غورث کے نزدیک کائناتی مرکز آگ ہے اور باقی تمام وجود اسی آگ کے گرد حرکت کرتے ہیں، اس فلسفے نے زمین کو متحرک ضرور کیا لیکن سورج کو ساکن نہ کر سکا، چوتھی صدی قبلِ مسیح میں ارسطو نے ان تمام ماڈلز پر عرق ریزی کے بعد اسی Geocentric ماڈل کو پسند کرتے ہوئے رائے دی کہ زمین ہی کائنات کا حقیقی مرکز ہے، کرہ ارض کے گرد ان کے مطابق مزید نو کرے موجود ہیں، پہلے سات میں مخلتف سیارے بشمول چاند زمین کے گرد حرکت کرتے ہیں، آٹھویں پر تمام ستارے جبکہ نویں کرے پر ان آٹھوں کروں کو زمین کے گرد متحرک رکھنے والی کوئی طاقت براجمان ہے، یہ طاقت کون اور کیسی ہے، اس بارے انہوں نے بحث نہیں کی، تیسری صدی قبلِ مسیح میں یونان کے ریاضی دان Aristarchus نے اس ماڈل کو چیلنج کرتے ہوئے پہلی دفعہ Heliocentric کا نظریہ پیش کیا ( سورج- Helio ), جس کے مطابق زمین متحرک اور سورج ساکن ہے، یہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے بتایا کہ ستاروں کا زمین سے فاضلہ سورج کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور نظامِ شمسی میں موجود تمام سیارے سورج کے گرد حرکت کرتے ہیں، افسوس کہ ان کی رائے پر کان نہ دھرے گئے۔
عیسائی پادری ارسطو و دیگر کی اسی رائے پر قائم رہے کہ زمین ساکن اور سورج متحرک ہے کہ ان کے نزدیک یہی کتابِ مقدس کی تعلیمات ہیں، پادریوں کے اس نظریے پر تنقید کرنا جان سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا۔
عیسائیوں کے دو بڑے تہوار ایسٹر اور کرسمس ہیں، کرسمس جنابِ مسیح کی پیدائش اور ایسٹر ان کی سولی کے تین دن بعد ان کے دوبارہ زندہ ہونے کی خوشی منانا ہے، ایامِ صوم ایسٹر سے پہلے کے چالیس دن ہیں۔ غالباً چوتھی صدی عیسوی میں کتابِ مقدس میں موجود موسمی اور آسمانی نشانیوں کی بنیاد پر ان تہواروں کی تواریخ جولیان کیلنڈر کے مطابق طے کر دی گئیں، جولیان کیلنڈر قیصر روم جولی سیزر کے دور میں پینتالیس قبلِ مسیح میں نافذ ہوا، یہ کیلنڈر زمین کے ساکن اور سورج کے متحرک یعنی Geocentric نظریے پر قائم تھا۔ اس وقت اس طرف توجہ نہ دی گئی کہ موسمی و آفاقی نشانیاں جولیان کیلنڈر Geocentric کے مطابق نہیں بلکہ Heliocentric کے مطابق نمودار ہوتی ہیں، پندرھویں صدی عیسوی میں کیلنڈر کی تواریخ اور مقدس نشانیوں کے درمیان پندرہ دن کا فرق آن ظاہر ہوا۔
چرچ نے اس دراڑ کو محسوس کرتے ہوئے محققین پر تواریخ و آیات کو ایک صفحے پر لانے کی بھاری ذمہ داری عائد کی، محققین سرجوڑ کر اس فیصلے پر پہنچے کہ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب کتاب کے خلاف جا کر سورج کو ساکن اور زمین کو متحرک قرار دیا جائے، چرچ مشکل میں آن پڑا کہ ساکھ بچانے کا کوئی راستہ سامنے نہیں، Heliocentric کو مانیں تو کتاب کو جھٹلانا پڑے گا، کتاب ہر قائم رہیں تو وقت کی دراڑ پھیلتے ہوئے عام آدمی کو چرچ سے دور کر سکتی ہے، دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ ،سورج ساکن ہے، والے نظریے کو بنیاد بنایا جائے لیکن اسے قیاس آرائی پر مبنی ریاضیاتی تجرید اور ستاروں کی غیر منطقی چال قرار دیتے ہوئے زور اسی بات پر دیا جائے کہ حقیقت میں زمین ہی ساکن ہے۔ اس ذمہ داری میں سب سے زیادہ حصہ کوپرنیکس کا ہے ، بالآخر 1582 عیسوی میں پوپ گریگوری نے ، سورج ساکن ہے، کی بنیاد پر بنے کیکینڈر کی منظوری دی جو آج تک قائم ہے، اسے گریگورین کیلنڈر کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت گلیلیو کی عمر لگ بھگ اٹھارہ سال تھی۔
پندرہویں صدی کے آخر تک ٹیلی سکوپ کے اصولوں سے فلکیات دانوں واقف تھے جس کی ابتداء برطانوی فلکیات دان نے کی تھی (نام یاد نہیں)، سولہویں صدی میں پورپ اس آلے سے تفصیلی متعارف ہوا، اسے جادوئی پائپ کا نام دیا گیا، اگرچہ اس کا مقصد آفاقی رازوں کو جاننا تھا لیکن لوگ اسے دوسروں کے گھروں میں تاجک جھانک کیلئے استعمال کرتے، ایسے ہی جیسے گن پاؤڈر چین میں ایجاد ہوا اور مقامی لوگ اسے آتش بازی کیلئے استعمال کیا کرتے، اس کا مؤثر استعمال مغرب میں جا کر ہوا۔
جرمنی کے فلکیات دان سیمون مائیر نے پہلی دفعہ ٹیلی سکوپ کے ذریعے مختلف سیاروں کی تفصیلات دریافت کیں لیکن اسے پبلک کرنے سے خوفزدہ رہے کہ چرچ کی اجارہ داری حائل تھی، انہوں نے اپنی دریافتیں قریبی دوستوں کے ساتھ خط و کتابت تک محدود رکھیں، ان کے برخلاف اٹلی سے تعلق رکھنے والے گلیلیو اس قدر محتاط نہ تھے، اسی سال کے آخر میں گلیلیو ٹیلی سکوپ کی مدد سے آفاقی رازوں کو جانچتے ہوئے ان کے فکری پہلوؤں کی بجائے سماجی اور تجارتی اہمیت پر مرکوز ہوئے، قابل اساتذہ کی مدد سے انہوں نے ٹیلی سکوپ کی کوالٹی کو بہتر بنایا، ساتھ ساتھ شہرت و دولت کے حصول کیلئے بھی کچھ ماہرین کی مدد لی، مضبوط ٹیلی سکوپ نے مضبوط سماجی روابط کو بڑھانے میں مدد دی، اگلے سال گلیلیو نے پہلی کتاب شائع کی، شاہوں سے لے کر پادریوں تک گلیلیو کے تعلقات استوار ہوئے، عوام الناس نے گلیلیو کی ذہانت اور محنت کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا، شہرت اور دولت ان کے گھر کی باندی تھیں، اگرچہ گلیلیو نے کچھ نیا دریافت نہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں تھا ۔
گلیلیو لیکن اس سب کے باوجود غیر معمولی شخصیت تھے ، جو چیز ان کے ہاتھوں سرزد ہوئی اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے، میوزیکل نوٹس کو دیکھتے ہی موسیقار ان نوٹس ہر مبنی موسیقی کو ذہن میں سن سکتا ہے، عام آدمی کی میوزیکل نوٹس پر نظر صرف خاموشی ہی کو جنم دے گی، اسی طرح آفاقی رازوں کو ماہرِ فلکیات یا ریاضی دان مخصوص حسابی علم سے جانچتا ہے جبکہ عامی شخص اسے نظروں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، گلیلیو نے عوام الناس کو صرف میوزیکل نوٹس ہی نہیں دکھائے بلکہ آلۂ موسیقی پر باقاعدہ یہ نوٹس بجا کر دکھائے ، نہ تو یہ نوٹس ان کے تھے نہ ہی آلۂ موسیقی ان کی ایجاد ہے، لیکن نوٹس اور آلے کو عوامی سطح پر باقاعدہ بجا کر سمجھانا ان کا حقیقی کارنامہ ہے۔
( تمام دوستوں کیلئے نئے سال کی آمد پر نیک تمنائیں)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply