اپنے ہی ملک میں زباں نابلد(2)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سڑک بہتر ہو گئی تھی۔ ہم ایک قصبہ پہنچ گئے تھے مگر ہمیں کوئی دو کلو میٹر دور گاؤں پیر بابا بٹئی پہنچنا تھا جو پہنچ گئے۔ اسحاق تو یہ کہہ کے کہ رات کی نماز کے بعد آؤں گا، چلا گیا۔ ہم سے وہاں کھڑے لوگ ہاتھ ملانے لگے۔ ایک عجیب سی بساند آ رہی تھی۔ ہم تنگ گلی میں مڑے۔ بدرو میں پانی بہہ رہا تھا مگر بساند وہاں سے نہیں اٹھ رہی تھی۔
راشد نے ایک سیڑھیوں کی جانب اشارہ کیا۔ بہت سیدھی اور تنگ قدمچوں والا زینہ تھا۔ مجھ جیسے پیر مرد کے لیے دشوار مگر ایک جانب چڑھتے ہوئے پکڑنے کو ڈنڈا لگا ہوا تھا۔ اوپر پہنچے تو بڑا سا چپس والا صحن۔ زینے کے ایک جانب ہاتھ منہ دھونے کو واش بیسن تھا اور ساتھ ہی ایک در جو لا محالہ غسل خانہ تھا۔
ساتھ ایک برامدہ جس میں کم عرض اور جھدرے بان والی دو چارپائیاں تھیں جن پہ دیوار کے ساتھ تکیے لگے ہوئے تھے جن میں سے پھول کاڑھےسفید غلاف والا تکیہ بظاہر میلا تھا اور ایک جگہ سے میل نمایاں تھی۔ البتہ گاؤ تکیوں پر میل خورے غلاف تھے۔
برآمدے کے ایک طرف کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر حبس تھا۔ راشد نے وہاں ہم دونوں کے بیک پیک رکھے اور کھڑکی اور دروازہ کھول دیے۔
میں اسی میلے سفید تکیے کے ساتھ کمر ٹکا کے پاؤں لٹکا کے ڈھیلا ہو گیا اور راشد نے غسل خانے میں جانے کو در کھولا تو سامنے ٹونٹی تلے ایک درمیانی میلی سی سفید بالٹی دکھائی دی۔ میرا دل دھک سے بیٹھا مگر میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ بھائی گاؤں ہے۔
راشد نے نکل کر کہا کہ سر فریش ہو لیں۔ غسل خانے میں گیا تو وہ اوپر کے زینے تلے بنا تنگ سا غسل خانہ تھا جس کے کھلے حصے کے جانب ہلکے نیلے رنگ کا دیسی کموڈ تھا۔ ایک طرف کی دیوار پر نصب کھونٹی سے استعمال شدہ کپڑے لٹکے ہوئے تھے، دوسری جانب کی دیوار میں اوپر ایک چھوٹی سی جالی دار کھڑکی تھی جو بیت الخلاء کی بو سے پوری طرح نہیں نمٹ پا رہی تھی۔ چند مکھیاں تھیں بلکہ وہ تو دروازے کے باہر بھی تھیں۔
باقی کھلے حصے میں نہانے کا سینیٹری ویر تھا مگر شاور غائب۔ بالٹی کے تو کنارے باہر سے میلے تھے مگر اس میں رکھے نہانے کے چھوٹے ڈونگے کے کنارے اندر باہر سے نیم سیاہ تھے۔
میں پتلون پہنے تھا۔ کھڑے کھڑے مثانہ ہلکا کیا۔ دل بہت خراب تھا۔ باہر نکلا، خالی پانی سے ہاتھ دھوئے چونکہ گلابی رنگ کے صابن کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا، آئینے کے سامنے بنے لکڑی کے عمر رسیدہ دھرنے پر پڑا تھا۔ میں نے ہاتھ دھوتے دھوتے راشد سے کہا کہ نیا صابن اور ایک صاف تولیہ منگوا دو۔
چپل مانگ کے جوتے اتارے۔ کمرے میں جا کے شلوار قمیص پہنے۔ نکلا تو ایک نوجوان نیا صابن رکھ اور صاف چھوٹا تولیہ غسل خانے کے ساتھ گڑی کیل پہ ٹانگ چکا تھا۔ منہ ہاتھ دھویا اور کمرے میں جا کے زمین پر بچھے قالین پہ گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا۔
کچھ دیر کے لیے راشد گھر چلا گیا۔ اس کا چھوٹا بھائی باہر چارپائی پہ بیٹھا رہا تاکہ اگر مجھے کچھ چاہیے تو وہ لے آئے مگر مجھے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ دس، پندرہ منٹ بعد میں باہر نکل کے بیٹھ گیا کیونکہ موسم خوشگوار ہو چکا تھا۔ پھر اونچے دیوار کے پردے سے سرسبز پہاڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں۔
راشد کے دو بھائی، ٹرے اوں میں افطاری کا سامان اور ساتھ ہی کھانا لا کے کمرے میں دستر خوان بچھا کے اس میں چننے لگے۔ راشد بھی پہنچ گیا۔ میں نے اس سے مناسب کموڈ نہ ہونے کا گلہ کیا۔ بس سر ایسا ہی ہے، اس نے کہا۔ اتنے میں کوئی مرد نمازی ٹوپی پہنے سیڑھیوں سے بلند ہوتا دکھائی دیا۔ میں نے راشد سے پوچھا، تمہارے والد ہیں۔ وہ جی کہہ کے کھڑا ہو گیا ساتھ ہی میں بھی بلند ہوا۔ جماعت اسلامی والوں کی سی داڑھی والے، شریف مرد دکھائی دیتے اس کے والد پہنچے بہت تپاک سے ملے اور مہمان پہنچنے کا، بہت مناسب الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔
افطار کے بعد میں نے نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ راشد کے ایک بھائی نے ایک جانب میرے لیے جا نماز بچھا دیا۔ دوسری جانب راشد کے والد امین خان صاحب ایڈووکیٹ کے لیے جانماز سیدھا کیا گیا۔ میں نے قصر پڑھی، انہوں نے پوری نماز ادا کی۔ کھانا کھایا۔ لڑکے دستر خوان سمیٹ لے گئے۔ راشد نے بتا دیا تھا کہ وہ نو بھائی ہیں۔ باقی بیٹوں کے بارے میں منکسرالمزاج اور شریف النفس امین صاحب نے بتایا۔ ہم بہت دیر باتیں کرتے رہے بلکہ میں امین صاحب کی باتیں سنتا رہا۔ وہ مجھے اپنے والد اور اپنی زندگی کی جدوجہد اور کامیابی کے بارے میں بتاتے رہے۔ میں اپنی دنیاوی مادی ناکامیوں کا کیا ذکر کرتا۔
پھر ہم دونوں کے لیے علاحدہ علاحدہ دور دور جا نماز بچھا دیے گئے اور ہم نے پورے چاند کی چاندنی اور خنک فضا میں عشاء کی نماز اور تراویح پڑھیں۔ میں نے قصر اور کم تراویح رکعتیں انہوں نے مکمل نماز اور بیس رکعت تراویح۔ ایک بار پھر امین صاحب سے گفتگو رہی کہ راشد نے توقف کا فائدہ اٹھا کر کہا۔ دن میں ہم نے کیا جانا، روزہ ہوگا۔ ابھی باچا صیب سے ملنے جاتے ہیں۔ میں نے ان سے بات کر لی ہے۔ ان کے والد نے بھی کہا کہ اچھا ہے ہو آؤ۔ انہوں نے مجھے بھی فون کیا تھا کہ آپ کے ہاں معزز مہمان پہنچ رہے ہیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply