سائبر سیکس۔۔۔ثمینہ تبسم

میں اُس کو غور سے
حیرت سے سُنتی ہوں
بڑے سے
ہر سہولت سے سجے گھر میں
وہ اپنے ساتھ رہتی ہے
وہ کہتی ہے

“کسی بھی شام کے بھیگے اندھیرے میں
وہ اپنی شدت پسند جذبات سے
بہکی ہوئی آواز میں
مُجھ سے یہ کہتا ہے
” میں آ جاؤں؟”
تو سر سے پاؤں تک
میں اک سحر آلود سی مستی میں
یکدم ڈُوب جاتی ہوں
میں اپنے نرم تکیوں میں
اُسے محسُوس کرتی ہوں
میری جلتی ہوئی آنکھوں کو بند کر کے
فقط آواز سُنتی ہُوں
میرے دن بھر کی وحشت سے
تھکے ٹُوٹے بدن پہ
اُس کے میٹھے لفظ
اک جادُو جگاتے ہیں
اُسے معلُوم ہوتا ہے
کہ میری کیا ضرورت ہے
وہ میرے درد کو
ساری تھکن کو
بھوک کو
لفظوں سے ایسے ڈھانپ لیتا ہے
کہ میں اُس رات خُود کو
پھر سے زندہ سا سمجھتی ہوں
وہ مُجھ کو زندگی دیتا ہے
مُجھ سے کُچھ نہیں لیتا ”

Advertisements
julia rana solicitors london

میں حیرت سے پھٹی آنکھوں سے
کانوں میں دھڑکتے دل کی گہرائی سے
اُس کی بات سُنتی ہُوں
سماجی دائروں
پابندیوں
کی قید سے آزاد ہو کر
سوچتی ہوں کہ
اگر تنہائی کے مارے
بدن کی بھوک کا روزہ
کسی آواز کی دُنیا میں جا کر کھولتے ہیں تو
بھلا اس میں بُرا کیا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply