جناب عثمان قاضی گزشتہ برس نومبر میں ملتان لٹریری فیسٹیول کے مدعوین میں ایک اہم مقرر کے طور پر تشریف لائے۔ فیسٹیول تو دھند کے سبب نہ ہو سکا لیکن اس بہانے قاضی صاحب سے تا دیر گفتگو رہی۔ میں نے ایک دیرینہ درخواست ان کی خدمت میں دہرائی کہ وہ کسی ایک موضوع پر مبسوط تحریر رقم فرمائیں۔ جس پر انہوں نے اپنی کتاب “سفر و حضر” کی اشاعت کی نوید سنائی. گو یہ ان کے پہلے سے شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے مگر اس کتاب کی وجہ سے ایک تو تمام مضامین کتابی شکل میں محفوظ ہو گئے ہیں بلکہ ہم جیسے قدیم الاطوار لوگوں کے لیے بھی اسانی ہو گئی کہ اب یہ تحریریں سکرین کے علاوہ بھی پڑھی جا سکیں گی۔
قاری صاحب کا شمار ہمارے ان فاضل دوستوں میں ہوتا ہے کہ جن کا علم کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے۔ وہ مذہب، لسانیات، ثقافت، ادب، سیاسیات اور سماجیات کے متعدد موضوعات کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ ان کا یہ علم کسی ذہنی کباڑ خانے کی زینت نہیں ہے بلکہ ان کے غیر معمولی حافظے کے سبب ان کی گفتگو اور تحریروں میں اپنا ایک بے ساختہ اظہار خود بخود بناتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اس سب سے زیادہ اہم بات قاضی صاحب کی شخصیت میں جو مجھے بے پناہ متاثر کرتی ہے وہ ان کے مزاج کی بالیدگی ہے۔ حصول علم ان کے لیے بالکل وہی حیثیت رکھتا ہے جو ہمارے کلاسیکی دانشوروں کے مزاج کا خاصہ تھا۔ علوم کے مختلف شعبوں کو کھنگال کر پڑھنا، سرسری اور تاثراتی معلومات کی گہرائی میں موجود مضمرات کو بھی دیکھنے کی کوشش کرنا، اور مختلف شعبہ ہائے علم سے استفادہ کے بعد کسی ایک بڑی تصویر کو تشکیل دینے کی کوشش کرنا۔ اور اس سب کا مقصد روزی، روٹی، پیشہ ورانہ ترقی، شہرت اور فیس بک لائکس سے بالکل ماورا صرف اور صرف حصول علم۔ حد درجہ تک پہنچی ہوئی انکساری اور تواضع کے ساتھ۔
طاقت کے مراکز کے لیے یہ ہمیشہ ضروری رہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے علم و دانش کو سیم و تھور صرف قرار ہی نہ دیا جائے بلکہ معاشرے میں موجود دانش کو سیم و تھور بنا کر بھی دکھایا جائے۔ سو ہمارا معاشرہ اس سیم اور تھور سے اگر لدا اور لتا ہوا ہے تو اس کے پیچھے پاور سینٹرز کی برسوں کی محنت شامل ہے۔ ایسا بلا سبب نہیں ہوا کہ لکھنے والے اٹھتے بیٹھتے کتابوں کے نام کی جگالی کرتے ہوئے تو دکھائی دیں مگر پاور سینٹرز کی جانب سے پیش کردہ سپانسرڈ دوروں کی غرض و غائت نہ جان پائیں۔ ظالم اور مظلوم کا فرق طاقت کے گماشتے دھندلا دیں اور بڑے بڑے کتب خانوں کے مالکان کو کانوں کان خبر نہ ہو اور وہ انتہائی حماقت امیز معصومیت کے ساتھ پاور سینٹرز کے ماؤتھ پیس بن جائیں۔ بین الاقوامی پاور سینٹرز کی تشکیل کردہ اس دنیا میں قاضی صاحب جیسے لکھنے والے جو علم کی گہرائی کے ساتھ ساتھ طاقت کی عملداری پر بھی نظر رکھتے ہوں یقیناً نعمت سے کم نہیں ہیں۔
“سفر و حضر” میں ایک فلم “مالک” پر قاضی صاحب کی تحریر ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیے کہ انہوں نے کس طرح بڑے مفکرین کے نام اور کتابوں کے حوالے دیے بغیر گہرائی سے طاقتور کے بیانیے کے اثر و نفوذ پر گفتگو کی ہے۔ انہی مضامین میں ان لکھنے والوں کی کاوش پر محاکمہ بھی شامل ہے جو سائنسی طرز فکر اور استدلال کے جواب میں مذہبی اخلاقیات کو لا کھڑا کرتے ہیں جیسے سیکولرزم کے مقابلے میں قران کو لے آیا گیاتھا۔ ( اور جس طرح الحاد کے مبلغین اب مذہبی فرقہ بازوں کے ساتھ مناظروں میں مصروف ہیں) یہاں نہ سائنس اہم ہے اور نہ مذہب۔ یہاں قابل ذکر چیز اگر کوئی ہے تو وہ یہ موازنہ ہے جو علمیاتی اعتبار سے دو ناقابل موازنہ شعبوں کو ایک دوسرے کے مقابل لے آتا ہے۔
اپنی جس تحریر میں وہ غزوہ ہند اور ریاست مدینہ پر گفتگو فرما رہے ہیں یہاں آپ ان کے متنوع علم کے ساتھ ساتھ بہت وضاحت سے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح غزوہ ہند پر ہونے والی گفتگو کے سیاسی پس منظر کو اجاگر کرنے کی غیر مناظرانہ اور کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ تحریر صرف مذہبی مدرسوں کے فارغ تحصیل لکھ سکتے ہیں اور نہ سماجیات اور سیاسیات کی شناور۔۔ ایسی تحریر لکھنے کے لیے ان تمام علوم کی یکساں واقفیت اور ان میں ارتباط قائم کرنے کی صلاحیت درکار ہے۔
اسی طرح دو قومی نظریہ پر دو قسطوں پر مشتمل تحریر کو دیکھیے۔ ہم میں سے اکثر نے اس موضوع کو بارہا پڑھا ہے اس پر اختلاف رائے سے بھی ہم واقف ہیں اور اس امر سے بھی آگاہ ہیں کہ اس نظریے نے کب جنم لیا۔ اس کی پیدائش کے اسباب اور اغراض کس وقت کے کون سے سیاسی مقاصد تھے۔ لیکن اس کے باوجود قاضی صاحب کے یہ دو مضامین اپنے استدلال میں ایک جامعیت اور تازگی رکھتے ہیں۔
اس کتاب کا جو پہلو اسے دیگر کتابوں سے ممتاز بناتا ہے وہ اس میں شامل وہ تحریریں ہیں جن میں قاضی صاحب نے ان ملکوں اور علاقوں کے احوال بیان کیے ہیں جہاں وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے سبب قیام پذیر رہے ہیں۔ یہ تحریریں سفرنامے نہیں ہیں۔۔ کیونکہ ان میں اپ کو جھوٹی سچی کہانیوں کا ملغوبہ نہیں ملے گا۔ اس صنف کے لیے میرے پاس کوئی نام نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ چند مصنفین نے اس طرح کی رپورتاژ لکھی ہیں۔ مگر یہ رپورتاژ بھی نہیں ہیں۔ شام کے معذور، دمشق کے باب صغیر، عربوں کے نام، دمشق کا کرسمس، بیروت کے ویلنٹائنز ڈے، ابن بطوطہ کے مولد اور شام کے رمضان جیسی درجنوں تحریریں آپ کو صرف ان مقامات کے “جغرافیے” سے ہی نہیں بلکہ ان کے “معاشرتی علوم” سے بھی آگاہ کرتی ہیں۔
اس مجموعے میں شامل ہر تحریر اپنی جگہ ایک مکمل اکائی اور پُر حکمت معلومات کا خزانہ ہے۔ تا ہم اس کتاب کے شائع ہونے کے باوجود ہم اپنے دیرینہ مطالبے سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہیں کہ قاضی صاحب کو اپنی مرضی کے چند اہم موضوعات پر مفصل لکھنا چاہیے۔ ایک اور گزارش یہ بھی ہے کہ اچھا ہو کہ آئندہ ان تحریروں کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ اشاعت بھی لکھ دی جائے تاکہ تحریر کا پس منظر جاننے میں آسانی ہو۔

میں ذاتی طور پر اردو اکادمی کوئٹہ اور ڈاکٹر فیصل ریحان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے قاضی صاحب کے مضامین کو انتہائی اہتمام کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں