کالے ہاتھی

دو بھاری حجم دار پَٹّوں پر مشتمل پھاٹک جس کی لکڑی وقت کی بے اعتنائی اور موسموں کی شدت سے سیاہ ہو چکی تھی۔ خشکی اور دھوپ سے انچ انچ فاصلے پر عموداً پھٹی ہوئی سیاہ لکڑی پر ٹھسے ہوئے زنگ آلود کیل اور ان پر بھنبھناتے ہوئے بے تحاشہ بِھڑ ،کالج کے عقب میں موجود اِن سنسان اور بے آباد کوارٹروں کے چوکیدار تھے۔ یہ کوارٹر کم و بیش آٹھ دس سال پہلے آباد تھے، جدھر کالج پروفیسرز کی رہائش تھی۔ جگہ جگہ اگے ہوئے اَکّ کے پودے، پہاڑی کیکر، گھٹنوں تک اونچی اگی ہوئی گھاس، قسم قسم کے خاردار بوٹے اور ان میں جَالوں سے بُنی ہوئی مکڑیوں کی پیچیدہ فنکاریاں، اس جگہ کو مزید پروحشت بنانے کیلئے کافی تھیں۔ مکڑیوں کے علاوہ ان کوارٹروں میں کِرلوں، چمگادڑوں، نِیولوں اور چھوٹے موٹے سنپولیوں کی بھی بھرمار تھی۔ جو دن بھر ایک بِل سے نکل کر دوسری بِل، دوسری سے نکل تیسری بِل کی طرف قصد باندھتے نظر آتے تھے۔
پھاٹک کا ایک پٹ چٹخ کر کھلتا ہے اور کالج کی وردی میں ملبوس تین لڑکے بِھڑوں سے بچتے بچاتے اندر داخل ہوتے ہیں۔ ان لڑکوں کا کام کلاس سے پُھٹّا لگا کر باقاعدگی سے یہاں باقی مخلوقات پہ حکمرانی جتانے آنا تھا۔ ان میں سے ایک بِھڑوں کا نشانہ بنا کر بڑا سارا گتا پھاٹک پہ مارتا ہے اور بلند نعرہ لگاتا ہے، “مار دئیے، دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں، بلکہ پورے پانچ بَگّے فرنگی، مار دئیے”
اس ہلڑ بازی اور شور میں ایک سرخ ہونٹوں والا نِیولے کا بچہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا، سبھی نے آستینیں چڑھا لیں اور پتھر اٹھا لئے۔ نِیولے کے بچے نے بھاگ کر قریب ہی ایک کِرلے کی بِل میں پناہ لی۔
چوہے ان کے ڈر سے سانپوں کی کھو میں گھس گئے، سانپوں نے بوکھلاہٹ میں نِیولوں کی بل کا رخ کیا۔ چمگادڑوں کے غُول کوارٹروں سے نکل کر چیلوں کے آماجگاہوں کے پاس جا لٹکیں۔ مطلب آپس کی دوستی دشمنی کی تمیز کئے بغیر جس کو جِدھر جائے اَماں ملی وہیں کے ہو لیے۔ تمام انواع و اقسام کے چھوٹے، بڑے، لمبے، چوڑے، بھاگنے والے، رینگنے والے اور اڑنے والے جاندار جب روپوش ہوئے تو تینوں لڑکے ایک کوارٹر کے تَھڑے پر آن بیٹھے، جس کی دیوار پر پرنسپل انوار احمد خیزی کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی
“دیکھ شندھو کیسی امن اور شانتی کر دی تیرے بھائی نے” شعیب سگریٹ سلگاتے ہوئے فاتحانہ انداز میں بولا اور شندھو کے بستے سے سپرٹ لیمپ نکال کر فرش پر رکھا اور بلاوجہ جلا دیا
“گھنٹے کی امن اور شانتی کی تو نے، اس سلطنت میں تمام خطرناک سُورمے صرف میں نے کاٹے ہیں، یاد نہیں پچھلے ہفتے ڈنڈا مار کے چمگادڑ گرا لی تھی، تین نیولے اور ایک زندہ گُو چاقو سے چِیر کر چار بنا دیں تھیں” شندھو نے اپنی بہادری بھگاری۔
“یار کیا چیں چیں لگا رکھی ہے، پروفیسر کے تھڑے پہ بیٹھے ہو، ادھار کی سگریٹیں پی رہے ہو، کیمسٹری لیب سے چوری کیا ہوا سپرٹ لیمپ سینک رہے ہو، میری مانو پچھلے سال کی طرح اس دفعہ بھی کوئی بڑا چمتکار دکھاتے ہیں، آخر کب تک لیب سے دو ٹکے کے پائپ، قیفیں اور لیمپ اٹھا اٹھا کر یہاں کِرلوں اور چمگادڑوں پہ حکومت کرتے رہو گے” ذکی اپنے بستے پر سر ٹکا کر لیٹتے ہوئے بولا
“مطلب، پاپ انیائے”شعیبی اور شندھو یک زبان بولے
“یار مجھے ڈر لگ رہا ہے، کہیں اس دفعہ بھی راہگیر نہ اچک لیں، محنت ہم کریں اور اڑا کوئی اور لے جائے”شعیب بولا ہی تھا کہ ذکی نے ٹوکتے ہوئے مشورہ دیا “اس دفعہ سارا کام شام ڈھلنے سے پہلے پہلے کریں گے
“ہاں! یہ ٹھیک ہے۔تو اس دفعہ پھر سے مہان سلطنت کیلئے کالے ہاتھی اکٹھے کئے جائیں” شندھو نے جوشیلے انداز میں مکا ہوا میں لہراتے ہوئے اعلان کیا
“ابے کالے ہاتھیوں پہ اس سال پہرہ بھی بہت سخت ہے، پچھلے سال تو صرف ایک سٹینڈ کیپر تھا، اس دفعہ سالے تین سٹینڈ کیپر ہیں”شعیبی نے تشویش کا اظہار کیا۔
“بیٹھ گئے جھاگ کی طرح، کِرلے ڈڈو مار کے مہا راجے بنے بیٹھے تھے، اب ذرا اپنے ابو جی کا پلان چیک کرو” ذکی سیدھا ہو کر بیٹھا اور کوئلے سے فرش پر کالج کا نقشہ بنا کر دونوں کو پلان سمجھانے لگ گیا
——-السلام علیکم! خالد انکل، کیسے ہیں آپ؟” شعیب نے نہایت مودبانہ انداز سے ورکشاپ میں داخل ہوتے سلام کیا
“وعلیکم السلام! او کاکا اس دفعہ کس کا سائلنسر اٹھا لائے ہو، کباڑ خانہ ختم کر دیا ہے میں نے، چلو نکلو شاباش” خالد مستری تاروں والے برش سے پنکچر ٹیوب چھیلتے ہوا بولا
“نہیں انکل ایسی کوئی بات نہیں ہے، میں تو بس ٹیوشن سے واپس جاتے ادھر سے گزر رہا تھا ،سوچا سلام کرتے جاوں، اچھا میں چلتا ہوں، سام علیکم،شعیب میمنایا اور وہاں سے کھسک گیا۔
ابے سالو! کس کس کو سامان بیچا ہوا ہے، کچھ یاد تو رکھا کرو، وہ کھوسٹ کباڑیا مجھے دیکھتے ہی سب جان گیا، جیسے پہلے ہی کسی نے بتا کر بٹھایا ہو" شعیب دونوں پر غرا رہا تھا۔
یہ کس بکری کو بھیج دیا سودا کرنے کیلئے، ڈرپوک، کاہل۔ جاتے ہی منمنانا شروع ہو گیا ہو گا۔۔۔ شندھو یہ کام اب ہم دونوں کو ہی کرنا پڑے گا، تو المست وہیل والوں کو پہلے یہ دونوں رم بیچ کے واپس آ، میں پھر کالے ہاتھی کا حساب لگاتا ہوں۔۔۔ ذکی نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا اور سائیکل شندھو کے حوالے کر دی۔
———–
شام آٹھ بجے سے پہلے پہلے تینوں ایک سہراب سائیکل المعروف کالا ہاتھی اور پرنسپل کی گاڑی کے دو رم بیچ کر، اس کشٹ کا نو ہزار روپے محنتانہ جیبوں میں ٹھونس کر لوہار پلی کے نزدیک الحمداللہ ہوٹل پہ مٹن کڑاہی کا انتظار کر رہے تھے۔
“اوئے چھوٹے، میز تیرے ابا جی نے صاف کرنی، ٹھنڈا پانی کا جگ لا کے رکھ، رائیتہ سلاد کدھر گیا، روٹی گرم آنی چاہئیے، کڑاہی میں ایکسٹرا مکھنی ڈلوا”شعیب رعب دار آواز میں بیروں پہ حکم چلا رہا تھا۔
لوہار پلی اور اس سےجنوب میں بڑی نہر سے ملحقہ بازار طوائفوں کے کوٹھوں اور بازار حسن کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ شہر بھر سے سستے قمار باز، سستی بوتل نوش اور سستی عیاشی ڈھونڈھنے والے ادھر کا رخ کرتے تھے۔ لوہار پلی سے شمال کی طرف نکلنے والی دو طرفہ سڑک شہر کی مصروف ترین فوڈ سٹریٹ تھی جہاں مہنگے اور سستے ڈھابوں پر دن بھر کی ستائی ہوئی عوام اکٹھی ہو جاتی تھی ۔
معمول کے مطابق ہوٹلوں کے باہر کافی رش تھا، میزوں کرسیوں پر گاہک بیٹھے اپنے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے۔ اچانک کچھ سیکنڈوں کے وقفے سے فوڈ سٹریٹ پر تین دل دہلا دینے والے زوردار دھماکے ہوئے، غبار اور دھوئیں کے غولوں تلے خون میں لت پت لوگ آہ و بکا کرنے لگے۔ کچھ جہاں بیٹھے تھے وہیں ڈھیر ہو گئے۔ خون کی یہ واردات اتنی اچانک تھی کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ کچھ ہی دیر میں ریسکیو کے اہلکار بکھرے ہوئے انسانی اعضاوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان زخمیوں کو اٹھا رہے تھے جن میں زندگی کی ذرا بھی رمق باقی تھی۔ ہوٹل کا ایک کم سن بیرا اور شندھو بھی اس دھماکے میں شدید زخمی ہو گئے۔ شندھو کی حالت انتہائی نازک تھی۔ جائے دھماکہ سے نکل کر آئی ہوئی لوہے کی ایک تیز دھار گھومتی چپ نے اس کا گلا اور چہرے کا داہناں حصہ کتر کر رکھ دیا تھا۔
ہسپتال میں شندھو نے ساری رات موت کے بستر پر کاٹی، اس کے ماں باپ اور عزیز اس کی زندگی کیلئے دعائیں مانگتے رہے۔ اور صبح چار بجے وہ دنیا چھوڑ گیا۔
شعیب اور ذکی ساری رات پتھریلے بنچ پر سہمے بیٹھے رہے جنہوں نے انتہائی قریب سے رات انسانی کشت و خون کی ہولی دیکھی تھی اور صبح انتہائی قریبی دوست کی جان ضائع ہوتی محسوس کی۔ ذکی اٹھ کر وارڈ میں داخل ہوا اور کمسن بیرے کے بیڈ کے پاس بیٹھ گیا جو پَٹّیوں میں لپٹا ہوا گہری بے ہوشی سو رہا تھا۔ ساتھ ہی اس کی لاغر ماں مجسم و بے حرکت بیٹھی تھی۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا، کہ ہم زندگیاں لینے والے نہیں، زندگیاں دینے والے بنیں گے۔
ذکی نے اپنی جیب ٹٹولی، نو ہزار روپے نکال کر کمسن بچے کے سرہانے تلے دبائے اور وارڈ سے باہر نکل نکل گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply