کرکٹ کا خمار اور سیاست۔۔۔ساجد ڈاڈی

پاکستان کی سیاست اور حکومتوں پر اکثر کوئی نہ کوئی رنگ حاوی رہتا ہے۔اگر بات خاکی رنگ کی ،کی جائے تو یہ رنگ خوب جوبن پر رہا۔جب کبھی یہ رنگ غائب بھی ہوا تو پس پردہ اپنے کمالات ضرور دکھاتا رہا۔تقریبا ً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسی رنگ کے زیرسایہ پروان چڑھیں اور آگے چل کر اس رنگ سے باغی بھی ہوتی گئیں۔جیسے جیسے ایوان اقتدار کی مسند پر بیٹھی یہ جماعتیں خاکی رنگ کے تسلط سے نکلنے کی کوشش کرتیں خاکی رنگ پھر ابھر کر سامنے آتا اور نافرمانوں کو روندتا ہوا،قانون کی رکاوٹیں توڑتا ہوا ایوان اقتدار پر آدھمکتا۔غالب گمان ہے کہ پرویز مشرف کے جانے کے بعد اب خاکی رنگ کے ابھر کر سامنے آنے  کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں لیکن پس پردہ اب بھی یہ رنگ اتنا ہی طاقتور اور فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جتنا کہ کبھی پردے کے سامنے رکھتا تھا۔

دوسرا رنگ جمہوریت کا ہے۔اس رنگ میں رنگے جانے کے تمام دعویدار اول الزکر رنگ کی بہاروں کا نتیجہ ہیں پھر آہستہ آہستہ ان کے سر سے سائبان ہٹتے گئے۔کڑی دھوپ سے مقابلے کے لئے انہیں جمہوریت ہی آخری پناہ گاہ سجھائی دی اور یہ اسی کی وراثت کے دعویدار ہیں۔

گزشتہ الیکشن میں ہمیں کچھ ایسے رنگ پردے پر نظر آئے جو مختلف رنگوں کے امتزاج کے ساتھ ساتھ کرکٹ کا رنگ بھی سموئے ہوئے تھے۔انتخابی نشان بھی بلا تھا۔عمومی طور پر انتخابی نشان سے ہی دہشت ہونے لگتی ہے۔شیر اور تیر تو ویسے ہی انسانی جان کے دشمن ہیں لیکن بلے کو بھی کسی کا سر پھاڑنے کے لئے ایک ہی وار درکار ہوتا ہے۔یہ رنگ برنگی جماعت پی ٹی آئی تھی جو خاکی رنگ کی آمیزش کی وجہ سے اس قدر ابھری کہ وزارت عظمی کا ہما انکے سر سجا۔امید تھی کہ اس ذمہ داری کا بوجھ کھیل اور سیاست کو علیحدہ کردیگا اور ماضی کا کرکٹ کپتان سیاست کو سیاست کے اصولوں،سوجھ بوجھ اور تدبر کے تقاضوں کے مطابق نبھائے گا۔لیکن بد قسمتی سے یہ نہ ہوسکا۔کپتان ہر ایشو کو کرکٹ کی نظر سے دیکھنے لگا۔کوئی اوپننگ بیٹسمین کہلایا تو کوئی فیلڈر،امپائر بہرحال وہ ہی ٹھہرے جن کا رنگ خاکی تھا۔امپائرز کی پہلی خواہش یہ ہی تھی کہ اوپننگ بیٹسمین بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے کیونکہ معیشت کا دارومدار اس اوپننگ بیٹسمین پر ہی تھا۔

امپائرز کی خواہش کے برخلاف جب اوپنر کی کارکردگی انتہائی غیرمعیاری رہی تو پویلین میں بیٹھے کپتان کو امپائرز نے غضب ناک ہوکر گھورنا شروع کردیا۔کپتان نے اوپنر کو مزید کچھ وقت کے لئے کریز پر رہنے دیا۔امپائر جانتے تھے کہ اوپنر لولی لنگڑی معیشت کو اب اپاہج بنانے جارہا ہے لہذا کپتان کو آخری اشارہ کردیا گیا جس کی تعمیل کرتے ہوئے اوپنر کو کہا گیا کہ وہ مطلوبہ نتائج دینے کا اہل نہیں لہذا اسٹمپ کو چھوڑ کر پھینکی جانے والے گیند پر بولڈ ہو کر واپسی کی راہ لے۔اوپنر اب آؤٹ ہوچکا ہے اور کرکٹ کی اصطلاح میں اب کہا جائیگا کہ آنے والا بیٹسمین “ون ڈاؤن” پوزیشن پر کھیلنے آیا ہے۔کرکٹ کی حد تک تو یہ بات قابل قبول ہے لیکن سیاسی میدان میں اس کے نتائج کس قدر بھیانک ہوسکتے ہیں اسکا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے کہ کپتان کرکٹ کے سحر سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرے کہ اب وہ کپتان نہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا وزیراعظم ہے۔یہاں بیٹنگ کے لئے ٹاس نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اپنی مرضی سے فیلڈنگ کی جاسکتی ہے۔البتہ امپائرز کا کردار دونوں جگہ تقریبا یکساں ہے۔نہ تو ان کے فیصلوں کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی آنکھ دکھائی جاسکتی ہے۔امپائر مرضی کا مالک ہے نو بال سے صرف نظر کرجائے اور وائیڈ بال پر ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔ہر اپیل پر انگلی کے اشارے سے آئوٹ قرار دے دے۔آپ وہاں بھی امپائرز پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے اور نہ یہاں پر۔

Advertisements
julia rana solicitors

خان صاحب اگر واقعی یہ کرکٹ میچ ہوتا تو ہم بڑے باحوصلہ لوگ ہیں شکست برداشت کرجاتے۔دو دن طبیعت اداس رہتی پھر بھول جاتے۔آخر ننانوے کا فائنل ہار کر بھی ہم زندہ ہیں۔ہم میں کوئی باب وولمر بھی نہیں جو کرکٹ کی شکست پر جان کی بازی ہار جائے۔لیکن خان صاحب ہماری قوت برداشت اس وقت جواب دے جاتی ہے جب ناقص حکومتی پالیسی کی وجہ سے غریب آدمی کی آمدن اور ضروری اخراجات کا توازن بگڑ جاتا ہے۔جب ملک کے معاشی حالات روزگار کے مواقع ناپید کرتے ہیں۔جب ادویات غریب کی پہنچ سے دور ہوکر پیاروں کی اموات کا سبب پیدا کرتی ہیں۔پھر معاشرہ فساد کی جانب سرکنے لگتا ہے افراد حصول زر کے ناجائز طریقے اپنانے لگتے ہیں جس سے امن وامان کی صورتحال ابتر ہوجاتی ہے اور معیشت کے ستون اس قابل نہیں رہتے کہ بوجھ اٹھاسکیں۔خدارا ایسی کسی صورتحال سے پہلے مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کا انتظام کرلیجئے وگرنہ یہ سیلاب اتنا منہ زور ہے جو تمام تخت وتاج بہا کر لے جائیگا اور آپ کرکٹ کے ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح بلا اور پیڈ سمیٹ کر گھر کی راہ نہ لے سکیں گے۔یہ مملکت کے مستقبل اور اس سے جڑے کروڑوں عوام کی تقدیر کا معاملہ ہے جہاں نقصان کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

Facebook Comments

ساجد ڈاڈی
فیس بک پر "اقبال جرم" کے نام سے موجود ہیں۔سیاسی معاملات پر اپنا نقطہ نظر برملا پیش کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply