مسیحائی پر انگلیاں کیوں اٹھارہے ہیں؟۔۔۔۔۔ وقار اسلم

اپنے ہر کسی ہی کے لئے بےحد پیارے ہوتے ہونگے لیکن ایک باپ کے لئے اس کے جگر کا ٹکڑا اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اس کی بیٹی اس کے گھر کی رونق اس کو عطاء کی گئی رحمت وہ بیٹی جس کی اٹھکیلیاں جس کے  ننھے ننھے قدم ابھی زمین پر لگنے تھے جس کی شوخ و چنچل صدائیں اس کے باپ کے دل کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے ربط پارہی تھیں، اسے اس کے باپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے دور  کر دیا گیا ۔پہلے پہل بچی کومہ میں گئی اور پھر ڈاکٹر کی غفلت کے نتائج اتنی دور تک جاری رہے کہ ننھی کلی جسے ابھی ماہیت زندگانی سے آشنا ہونا تھا جس نے بڑے ہوکر جوانی ڈھلتے باپ کی خدمت بجا لانی تھی وہ زندگی اور موت کی دوڑ میں اپنی زندگی کی کچھ آخری سانسیں بھی ہار گئی اور دار فانی سے کوچ کر گئی۔ وہ باپ جو اپنی بچی کے لئے جس طرح بلکتا رہا اس کی کسی نے نہ سنی اور اس کی اپنی لہلہاتی بچی جو رمق سے جھول رہی تھی اور اس کا بے بس والد شدید تکلیف میں بے بسی کی کیفیت دل میں لئے چیختا رہا اور اس کو مافیاز تنک مزاج سمجھ کر دھمکاتے رہے۔ نشوہ نامی بچی جس کی عمر نو ماہ تھی ، وہ دارالصحت اسپتال میں ڈائیریا کے مرض میں ایڈمت ہوئی تھی ، کہ اس کی حالت بگڑ گئی ، اسپتال نے تصدیق کی کہ بچی کو غلط انجکشن کی وجہ سے اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ نشوہ ایک ہفتے تک وینٹی لیٹرپراسپتال میں ہی ایڈمٹ رہی اور جس رات وینٹی لیٹر ہٹایا گیا تو بچی پیرالائز ہوچکی تھی۔

وقار اسلم کی مکالمہ پر اب تک پبلش ہوئی تمام تحاریر کا لنک

بچی کی حالت میں بہتری کی کوئی امید ظاہر نہیں کی جارہی تھی، واقعے کے ردعمل میں اہل علاقہ نے علاقے میں پوسٹرز لگاتے ہوئے دارالصحت اسپتال کو دارالموت قرار دیتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ یہاں علاج نہ کروائیں۔

واقعے کے ردعمل میں پاکستان ایئر لائنزنے اپنے اسٹاف کو ہدایات بھی جاری کی تھیں کہ وہ اپنے اور اہل خانہ کے علاج معالجے کے لیے دارالصحت نامی اسپتال جانے سے گریز کریں ۔یاد رہے کہ کراچی کے دارالصحت اسپتال انتظامیہ نے انجیکشن کے اوور ڈوز کی غلطی تسلیم کر لی تھی ، انتظامیہ کا کہنا تھا کہ   متعلقہ ملازم کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، بعد ازاں غفلت کے مرتکب ملازمین کو حراست میں بھی لیا گیا تھا تاہم اسپتال کے مالک عامر چشتی کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔

بچی کے والد قیصر علی پر ایس پی گلشن اقبال طاہر نورانی نے دھمکیاں بھی دی تھیں کہ وہ مقدمہ واپس لے لیں ، جس کی پاداش میں اے آئی جی کراچی امیر شیخ نے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔  نشوہ کی حالت انتہائی تشویشناک تھی، لیاقت نیشنل کے ڈاکٹروں نے دعاکا کہہ دیا تھا۔واضح رہے کہ مجرمانہ غفلت پر غلطی کے اعتراف کے باوجود دارالصحت اسپتال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی تھی اور اس ہسپتال کے مالکان پر ان کی طاقت کی عنکوبت اس ہی طرح چڑھی رہی، 9 ماہ کی نشوا بدستور لیاقت نیشنل اسپتال کے آئی سی یو میں زیر علاج تھی جدھر وہ موت کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دارالصحت اسپتال کے مالک عامر چشتی ایم کیو ایم کے ایک رہنما کو لے کر لیاقت نیشنل اسپتال پہنچ گئے تھے ، اس موقع پر عامر چشتی کے ہمراہ دارالصحت اسپتال کی انتظامیہ بھی موجود تھی۔ذرائع کے مطابق عامر چشتی اور دیگر نشوا کے والد قیصر علی سے صلح صفائی کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کررہے ہیں، عامر چشتی صلح صفائی کے معاملے پر معاوضہ دینے کے لیے بھی تیار تھے لیکن بچی کے بےکس والد کی یہ ہی التجائیں تھیں کہ اس کی بچی کے ساتھ یہ چکا ہے لیکن باقی لوگوں کو گریز کرنا چاہیے یہ تو شہر قائد تھا بات آگے آگئی لیکن قصبوں دیہاتوں میں ایسے سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں جو سب کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ قارئین راقم نے ناجانے کتنے ہی ایسے مسائل کو بچپن سے اب تک براہ راست دیکھا ہے اور ہسپتال تو شاید مشاہدے میں کچھ زیادہ ہی رہے ہیں کسی کی والدہ کسی کے والد ان کی عمر چاہے کتنے سال مرضی ہوگئی ہو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پھر سے جی اٹھیں ان کا سایہ سر پر سلامت رہے کچھ پرائیویٹ ہسپتال مریض کا وقت پورا ہوجانےکےبعد بھی وینٹی لیٹر پر رکھ کر اوور بلنگ کئے جاتے ہیں اور اس آڑ میں پہلے سے ہی ہمت شکستہ لواحقین پر کمائی کی خاطر نعش اٹھواتے ہوئے بھی بوجھ ڈالتے ہیں۔ مریض کو بچانے میں ڈاکٹرز بھی اپنی پوری سعی کرتے ہیں کہ مشیت تو بلاشبہ خدائے لم یزل کی ہی ہوتی ہے اور وہی صحت سے بہرہ مند کرتا ہے۔میری والدہ مرحومہ مسرت بیگم میرے بچپن سے علیل رہیں اس لئے ہسپتالوں میں بہت وقت گزرا لیکن جدھر کچھ غیر ذمہ دار اشخاص کو ڈاکٹرز کی تذلیل کا موجب بنتے دیکھا تو وہیں اس سے زیادہ فرض شناس طبیبوں کو دیکھا جو کہ بشریت کے جذبے سے سر شار رہے۔ اگر آج ہم ڈاکٹرز کو گالیاں دیں گے یا مکمل میڈیکل پروفیشن کے خلاف ہرزہ سرائی کریں گے تو یقین جانئے مسئلے بڑھیں گے کم نہیں ہونگے ڈاکٹرز میں بے دلی کی فضاء ہموار ہوگی۔اگر ہم ڈاکٹرز پر انگلیاں اٹھائیں گے ان کو سہولیات نہیں دیں گے تو پرائیویٹ ہسپتالوں میں موت کا رقص جاری رہے گا اور اناڑی اور غیر ذمہ دار ایم بی بی ایس ڈگری ہولڈر بڑھیں گے ہمیں جونیئرز کو سینئرز کے احترام کا درس دینا ہوگا لیکن اس کی تطبیق بھی ضروری ہوگی کہ سینیرز اپنے سے جونیئرز کے ساتھ تحقیر والا رویہ رواں نہ رکھیں، ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں وگرنہ ایسے ہی ہزاروں لخت جگر اور ناجانے کتنی نشوائیں بے احتیاطی کے سبب موت کے گھاٹ اتاری جاتی رہیں گی اور کارروائی کے لئے آگے آنے والا کوئی نہ ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply