گاندھی کا خون۔۔اورنگزیب وٹو

موہن داس کرم چند گاندھی کا شمار دنیا کے عظیم سیاسی اور جمہوری رہنماٶں میں ہوتا ہے۔انہوں نے بلاشبہ بیسویں صدی میں کسی بھی دوسرے رہنما سے زیادہ دنیا کو متاثر کیا۔انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد میں انہوں نے اہنسا ستیہ گرہ اور برہمچاریہ کے اصول وضع کیے جن کی تعریف و توصیف تنقید و تشریح پر بہت کام ہوا۔بلا شبہ نوآبادیات کے خلاف ان کی عدم تشدد کے اصولوں پر مبنی جدوجہد مظلوم اقوام کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔گاندھی گجرات کے ایک غیر معروف ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔کم عمری میں ہی ان کی شادی کر دی گئی۔انگلستان سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران ان کا تعارف انگریزی سرکار کے جبر،نسل پرستی اور غلامی کی بدترین صورت سے ہوا۔گاندھی نے محسوس کیا کہ سیاہ فام افریقی جو اس ملک کے حقیقی مالک ہیں،انگریزی راج میں ان کی حالت جانوروں سے قطعاً بہتر نہیں۔

اسی دوران گاندھی کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے اندر غلامی سے نفرت اور آزادی سے عشق پیدا کیا۔7 جون 1893 گاندھی کی زندگی بدلنے والا دن تھا۔جنوبی افریقہ میں ایک ٹرین میں سفر کرتے ہوۓ انہیں ایک سفید فام کی شکایت پر ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔اس سلوک کا موجب وہ قانون تھا جس کی بنا پر جنوبی افریقہ میں پہلے درجے کے ڈبے میں صرف سفید فام ہی سفر کر سکتے تھے۔

اس واقعہ کے بعد گاندھی نے بہت قریب سے مقبوضہ افریقہ کے سماج اور اس پر لاگو استعماری ہتھکنڈوں کا مطالعہ کیا اور افریقہ اور ہندوستان کے حالات میں گہری مماثلت دیکھی اور انہیں مقبوضہ اقوام کے مشترکہ دکھ کا احساس ہوا۔گاندھی نے جنوبی افریقہ میں ہی سب سے پہلے انسانی اور سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کی بنیاد رکھی۔گاندھی کی جنوبی افریقہ میں شہری حقوق کی جدوجہد کو بھرپور پذیرائی ملی اور ان کے اہنسا اور ستیہ گرہ کے اصولوں پر مبنی مزاحمت کا طریقہ بے حد مقبول ہوا۔

گاندھی کی شہرت ان کے وطن بھی پہنچ چکی تھی اور جب 1915 میں وہ واپس ہندوستان پہنچے تو ان کا بے مثال استقبال کیا گیا۔گاندھی کی ہندوستان واپسی نے ملکی سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا۔گاندھی سے پہلے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت گوپال کرشن گوکھلے،فیروز شاہ مہتہ،سریندرناتھ بینرجی، اجمل خان،سروجنی نائیڈو اور مسٹر جناح جیسے اعلیٰ  تعلیم یافتہ، سیکولر، معتدل مزاج اور دستوری جدوجہد پر یقین رکھنے والے رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی۔گاندھی نے برطانوی دستوری نظام کے تحت جدوجہد کرنے کی بجاۓ سول نافرمانی،بھوک ہڑتال اور دھرنے کی احتجاجی اور عوامی سیاست متعارف کروائی۔گاندھی نے ملک کے چھوٹے اور کچلے ہوۓ طبقات کو سیاسی جدوجہد میں شامل کیا اور ان کے دیہی دوردراز علاقوں کے دوروں اور کسانوں،مزدوروں،عورتوں اور اچھوتوں کے حقوق کا پرچار کانگریس کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب بنا۔گاندھی نے کانگریس کو ڈرائنگ روم سے نکال کر ہندوستان کی سب سے بڑی اور طاقتور سیاسی جماعت بنا دیا۔

گاندھی کے سیاست میں ہندو مذہب کی اصطلاحوں اور روحانی طریقہ کے پرچار نے انہیں ہندو قوم کا سب سے بڑا رہنما تو بنا دیا لیکن گاندھی کی سیاسی سوچ سے اختلاف رکھنے والے سیکولر رہنما کانگریس سے دور ہوتے چلے گئے۔گاندھی کی زیر قیادت تحریک خلافت،سول نافرمانی، سودیشی تحریک اور ہندوستان چھوڑ دو جیسی زبردست تحریکوں نے ہندوستانی سیاست میں بھونچال مچاۓ رکھا۔گاندھی کی زیر قیادت ہی کانگریس 1937کے انتخابات بھاری اکثریت سے جیتنے میں کامیاب رہی۔گاندھی اپنی ذات میں ہندوستان کے طاقتور ترین انسان تھے۔گاندھی کی ایک آواز پر ہزاروں کا مجمع اکٹھا کیا جا سکتا تھا اور لاکھوں روپے جمع کیے جا سکتے تھے۔گاندھی کی مقبولیت صرف ہندوستان اور جنوبی افریقہ تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ دنیا بھر کے سیاسی مذہبی اور سماجی رہنما ان سے ملاقات کو اعزاز سمجھتے۔گاندھی جی ہندو مذہب سے ماخوز نظریات کے ساتھ ساتھ جدید مغربی فلسفیوں اور شاعروں سے بھی متاثر تھے۔عظیم روسی ناول نگار ٹالسٹائی سے ان کی مسلسل خط و کتابت رہی اور مشہور انگریز انقلابی شاعر پرسی شیلے کی نظمیں گاندھی جی کے عدم تشدد پر مبنی مزاحمتی جدوجہد کے لیے رہنمائی فراہم کرتی رہیں۔موہن داس کرم چند گاندھی اپنی ساری سیاسی جدوجہد کے دوران ہندوستانی اقوام کو ایک ہی تہذیب تاریخ اور سماج کا حصہ قرار دیتے رہے۔گاندھی پونا پیکٹ (1932) کے ذریعے اچھوتوں کو سیاسی طور پر ہندو قوم کا حصہ بنانے میں کامیاب رہے لیکن ان کی تمام تر مقبولیت اور کشش انہیں مسلمانوں کی حمایت دلوانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

گاندھی جی کے ساتھیوں میں قد آور مسلم رہنماؤں مولانا آزاد،غفار خان،ذاکر حسین،شیخ عبداللہ،حسین احمد مدنی،عبدالصمد اچکزئی کی کوششیں اور حمایت بھی مسلمانوں کو قائل کرنے میں ناکام رہیں۔گاندھی جی کا ہندو مذہبی خیالات کی طرف جھکاؤ،سیاست میں مذہبی اصطلاحات کا استعمال اور مسلمانوں کی الگ شناخت کا انکار ہی انہیں مسلمانوں سے دور کرتا رہا۔گاندھی جی کے خیالات سے ہندو قوم پرست بھی متنفر تھے۔تقسیم کے بعد ان کی نفرت دشمنی کا روپ دھار گئی اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کے ایک کارکن نتھورام گوڈسے نے 30 جنوری 1948 کو گاندھی جی کو گولی مار کر ان کا قتل کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گوڈسے کے خیال میں گاندھی جی مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش میں اپنا قومی فرض ادا کرنے میں ناکام رہے تھے۔گوڈسے نے دوران قید لکھے گئے خطوط میں بھی گاندھی کی سیاسی مصلحت اور فیصلہ سازی پر تنقید کرتے ہوۓ کہا کہ اگرچہ وہ گاندھی کو قوم کا باپ نہیں مانتا لیکن اگر گاندھی جی کو باباۓ قوم فرض کر بھی لیا جاۓ تو بھی انہوں نے اپنی اولاد کا حق ادا نہیں کیا اور جناح کے فولادی عزم کے سامنے جھک گئے جس کے نتیجے میں ہندو قوم اور وطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔موہن داس کرم چند گاندھی نےعدم تشدد،امن اور برداشت کا جو راستہ دکھایا اس کی سزا کے طور پر انہیں قتل کر دیا گیا مگر ان کے آدرش زندہ رہے۔گاندھی جی نے پوری دنیا کو سیاست میں عدم تشدد،امن پسندی اور انسانیت سے محبت کا سبق دیا مگر آج ایک بار پھر بھارت میں ہی گاندھی کے نظریات کو دفن کرنے کے لیے قبریں کھودی جا رہی ہیں۔ایک بار پھر نفرت کا کاروبار پھل پھول رہا ہے اور گاندھی کے اصولوں کو طاقت کے نشے میں پاٶں تلے روندا جا رہا ہے۔اگر گاندھی کے دشمن ان کے نظریات کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو شاید ان کا بنایا بھارت بھی کسی گوڈسے کے ہاتھوں دفن ہو جاۓ۔اس دفعہ گاندھی کا خون ہو گا یا نہیں،اس کا فیصلہ بہت جلد ہونے والا ہے

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply