جین سے جان تک ۔ جین (14) ۔۔وہاراامباکر

جنسی طور پر افزائشِ نسل میں پورا جاندار صرف ایک خلیے تک محدود رہ جاتا ہے اور پھر اس ایک خلیے سے ویسا ہی جاندار برآمد ہوتا ہے۔ انفارمیشن اگلی نسل تک پہنچانے کے غیرمعمولی مسئلے کا غیرمعمولی حل جین ہے جو جاندار کی تمام انفارمیشن کو ایک خلیے میں سمو دیتی ہے۔ تمام انفارمیشن جو اس جاندار کی ازسرِ نو تعمیر کر دیتی ہے۔ لیکن اس ایک خلیے سے جاندار کیسے برآمد ہو جاتا ہے؟

ٹانگیں، بازو، پر، دم، اعضاء، سٹرکچر، دایاں، بایاں، آگے پیچھے ۔۔۔ اس باڈی پلان کی تعمیر کو سمجھنا ایمبریولوجی کا کام ہے۔ اس پر کام کرنے والے ایڈ لیوس تھے جنہوں نے مکھیوں پر اس کو سٹڈی کیا۔ “یہ ماسٹر ریگولیٹری ایفکٹر جینز ہیں جو آزاد یونٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ کسی مائیکروپروسسر کے سرکٹ جیسا ہے جو جینز کو خاص وقت میں آن یا آف کرتے ہیں۔ خاص موقع پر خاص ہدایات کے اگر اس دوران کچھ خرابی ہو جائے۔ تو غلط جگہوں پر غلط وقت میں اعضاء بھی اگ آتے ہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اس کمانڈر کو کمانڈ کون کرتا ہے؟ اگر یہ سب ماڈیول آزاد ہیں تو پھر ٹانگیں مکھی کے سر پر کیوں نہیں اُگ جاتیں یا انسانوں میں انگوٹھے ناک سے کیوں نہیں برآمد ہونے لگتے؟ اس پر 1979 میں کام کرنے والے دو ایمبریولوجسٹ تھے جو جرمنی میں مکھیوں پر کام کر رہے تھے۔ ان کی دلچسپی ایسی مکھیوں میں تھی جو نارمل نہ ہوں۔ ان کے کام سے نقشہ بنانے والی سیگمینٹیشن جینز دریافت کر لیں جو باڈی پلان کی انفارمیشن رکھتی تھیں۔

لیکن ان کا ماسٹر کون ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ سر ایک اندرونی جی پی ایس کی طرح کام کرتا ہے۔ اور مکھی میں ہر سیگمنٹ کا منفرد ایڈریس اس سر کے حوالے سے ہے۔ لیکن ایک ایمبریو سر اور دم میں فرق کیسے کرتا ہے؟

اس پر 1986 سے 1990 تک نیسلین وولہارڈ اور ان کے ساتھیوں کے شائع ہونے والے کام نے کئی فیکٹر شناکت کر لیے۔ 1986 میں ان کے ایک طالبعلم نے مکھی کے ایمبریو کے سر سے بہت ہی چھوٹی سی سوئی کی مدد سے ایک مائع کا ننھا سا قطرہ نکالا، ایک بغیر سر کی مکھی کے ایمبریو میں اس کو داخل کر دیا۔ یہ خلیاتی سرجری کام کر گئی۔ ایک ننھے سے قطرے کی وجہ سے دم کی جگہ پر اس کا سر بننے لگا۔

اب ہمیں معلوم ہے کہ ایمبیریو میں آٹھ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں (زیادہ تر پروٹین ہیں۹ جو یہ طے کرتے ہیں)۔ کیسے؟ انڈے میں ایک گریڈینٹ کی مدد سے۔ ایک طرف ان کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ سوپ ایک تھری ڈی پیٹرن بناتا ہے۔ زیادہ کثافت والی جگہ پر الگ جین ایکٹیویٹ ہوتے ہیں جبکہ کم والی پر الگ اور یوں سر اور دم کا ایکسز ڈیفائن ہو جاتا ہے۔

یہ عمل لامحدود ریکرژن والا ہے۔ مرغی اور انڈے والے مسئلے کی انت۔ سر اور دم والی مکھیوں سے انڈے پیدا ہوتے ہیں جن کے سر اور دم ہوتے ہیں جن سے ایمبریو بنتا ہے جس کی سر اور دم ہوتے ہیں جس سے مکھی بنتی ہے جس کا سر اور دم ہوتی ہے اور یونہی سلسلہ چلتا ہے۔ مالیکیولر سطح پر ۔۔ ابتدائی ایمبریو میں پروٹین ایک جگہ پر زیادہ جمع ہوتی ہے۔ یہ جینز کو خاموش کرواتے ہیں یا فعال کرتے ہیں۔ اس سے سر اور دم کا ایکسز بنتا ہے۔ یہ جینز نقشہ ساز جینز کو ایکٹیویٹ کرتی ہیں جو کہ سیگمنٹ بناتی ہیں اور جسم کو بڑے حصوں میں تقسیم کرتی ہیں جن میں اعضاء اور سٹرکچر بنتا ہے۔ اعضاء اور حصوں والی جینز فعال ہوتی ہیں جو اپنی روٹین چلاتی ہیں اور اعضاء، سٹرکچر اور حصے بنتے ہیں۔

اندازہ ہے کہ انسانی ایمبریو بھی تنظیم کے یہ تین لیول رکھتا ہے۔ مکھی کی طرح جینز ابتدائی ایمبریو کو منظم کرتی ہیں۔ سر اور دم، دایاں اور بایاں، آگے اور پیچھے۔ یہ کیمیائی گریڈی انٹ سے طے ہوتا ہے۔ اس کے بعد جین کی ایک سیریز ایمبریو کو بڑے سٹرکچرل پارٹ میں تقسیم کر دیتی ہے۔ دماغ، ریڑھ کی ہڈی، ڈھانچہ، جلد، آنت وغیرہ۔ پھر اعضاء بنانے والی جینز کی طرف سے حکم اعضاء بنانے کا آتا ہے۔ انگلیاں، آنکھ، گردہ، جگر، پھیپھڑے۔

کیڑے سے لاروا، لاورے سے تتلی، تتلی مٹی میں۔ کیا یہ گناہ ہے یا قسمت؟ میکس میولر نے 1885 میں یہ سوال کیا تھا۔ ایک صدی کے بعد بائیولوجسٹ اس کے جواب اس طریقے سے دینے کے قابل ہوئے کہ جین سے جان تک، جان سے جین تک۔ یہ جین کی فائرنگ ہے، یہ جین کے کھیل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایکسز (axis)، سیگمنٹ (segment)، عضو (organ) کی یہ تعمیر جینز کے ایکشن کے ایک تال میل سے ہونے والے سلسلے پر منحصر ہے۔ لیکن ماہرینِ جینات ایمبریولوجی کی ڈویلپمنٹ کو اس سے زیادہ گہرائی میں جاننا چاہتے تھے۔ جین کیسے انفرادی خلیے کی قسمت طے کرتی ہیں؟ ٹائم اور سپیس میں ہر خلیے کو کیسے ہدایتیں ملتی ہیں کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ اس کے لئے سڈنی بریمر کو ایسا جاندار چاہیے تھا جس کا ایک ایک خلیہ گنا جا سکے۔

انسان کے جسم میں 37 ٹریلین خلیے ہیں اور اس کی قسمت کا نقشہ دنیا کے طاقتور ترین کمپیوٹر کے قابو نہ آئے۔ برینر کو سادہ جاندار کی ضرورت تھی۔ انہوں نے زولوجی کی کتابیں کنگھال کر مٹی میں رہنے والے ایک سادہ ترین جاندار کا انتخاب کیا۔ سی ایلیگیانز کی نوع کا کیچوا نئی دنیا کو سمجھنے کی چابی تھا۔

یہ دو قسم کا تھا۔ ایک نر جس میں 959 خلیے تھے، دوسرا وہ جو نر اور مادہ دونوں تھا (ہرمافروڈائٹ) جس میں 1031 خلیے تھے۔ اس پر برینر اور سلسٹن نے اس کو بڑھتے وقت ایک ایک خلیہ گن کر کئی برسوں تک تھکا دینے والے کام کی مدد سے ایک نقشہ تعمیر کیا۔ ایسا نقشہ جو سائنس کی تاریخ میں پہلے نہیں تھا۔ یہ قسمت کا نقشہ تھا۔ اس جاندار کے پہلے خلیے سے آخری جسم تک کے سفر کا نقشہ تھا۔ اب خلیے کی شناخت اور لائنیج پر تجربات شروع ہو سکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خلیاتی نقشے میں کئی چیزیں نمایاں تھیں۔ 959 میں سے ہر خلیہ بہت پریسائز طریقے سے سامنے آتا تھا۔ بارہ گھنٹے بعد فلاں خلیہ تقسیم ہو گا۔ اڑتالیس گھنٹے بعد یہ خلیہ نیورون بنے گا۔ ساٹھ گھنٹے بعد یہ نروس سسٹم سے منسلک ہو جائے گا اور تمام عمر یہیں رہے گا۔ عین اسی وقت خلیہ یہی کرتا تھا۔جینز بتاتی تھیں کہ کب تقسیم ہونا ہے، کس پوزیشن پر جانا ہے، کیا شکل اختیار کرنی ہے، کیا کردار ادا کرنا ہے۔

ایمرسن لکھتے ہیں۔ “اس میں کوئی ہسٹری نہیں تھی، صرف بائیوگرافی تھی”۔ ایک کیچوے کے لئے اس کی تمامتر تاریخ ایک خلیے میں آ گئی تھی جو ایک خلیاتی آپ بیتی تھی۔ تاریخ بھی اور مستقبل بھی۔ ہر خلیہ جانتا تھا کہ اس نے کیا بننا ہے کیونکہ جینز اس کو بتاتی تھیں۔ اس کیچوے کی اناٹومی جینیاتی کلاک ورک تھی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی اسرار نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی قسمت نہیں۔ ایک ایک خلیہ کر کے، جاندار جینیاتی ہدایات کے مطابق بن جاتا تھا۔

جان جین سے تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر پیدائش، پوزیشن، شکل، سائز اور شناخت حیران کن تھیں تو اس سیریز میں بہت کچھ اور حیران کن تھا۔ موت کا پروگرام بھی۔ 1980 کی دہائی میں ہونے والے تجربات بہت کچھ اور بتا رہے تھے۔ 959 خلیوں والے کیچوے میں 1090 خلیے پیدا ہوتے تھے۔ 131 اضافی خلیے غائب ہو گئے تھے۔ یہ ڈویلمپمنٹ کے دوران پیدا ہوتے تھے لیکن کیچوے کے میچور ہوتے ہوتے مر جاتے تھے۔ سلسٹن اور ہوروٹز نے جب ان کا نقشہ بنایا تو معلوم ہوا کہ یہ خلیے بھی خاص وقت میں پیدا ہوتے تھے اور خاص وقت میں مر جاتے تھے۔ یہ سلیکٹو صفائی تھی۔ بس ایسے ہی چانس پر نہیں تھا۔ ان کی اپنی پلاننگ کے مطابق موت یا خودکشی بھی جینیاتی پروگرامنگ کا نتیجہ تھی۔

موت کی روٹین؟ اس سے پہلے موت کسی زخم، کسی ٹراما یا انفیکشن کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان مرنے والوں میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا۔ اس سے پہلے آسٹریلین پیتھالوجسٹ نے خلیاتی موت کی یہ قسم دریافت کی تھی۔ کنٹرولڈ طریقے سے حذف ہو جانا۔ اس کے لئے اپوپٹوسس کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ یونانی لفظ جو پتوں کے جھڑنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

لیکن یہ جینیاتی موت کیا تھی؟ اس کو روکا جا سکتا تھا؟ ہوروٹز نے اس پر تجربات جاری رکھے۔ اور اس کی جینز دریافت کر لیں۔ کیا ان کو بند کیا جا سکتا ہے؟ کیا موت روکی جا سکتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی جینز جو خلیاتی موت کو ریگولیٹ کرتے تھے، جلد ہی ان میں سے کئی کی شناخت انسانی کینسر کے قصورواروں میں ہو گئی۔ انسانی خلیے بھی وہ جین رکھتے ہیں جو اپوپٹوسس کے عمل سے خلیے کو موت تک لے جاتے ہیں۔ زیادہ تر جین قدیم ہیں۔ ان کا سٹرکچر اور فنکشن مکھیوں اور کیچووں کی جینز جیسا ہے۔ 1985 میں کینسر بائیولوجسٹ سٹینلے کورسمائیر نے BCL2 نامی جین دریافت کی جس کی خرابی خون کے سرطان کا باعث بنتی تھی۔ یہ وہی جین تھی جس کو ہوروٹز نے سی ایلیگان کیچوے میں موت کی ریگولیشن کے طور پر دریافت کیا تھا اور اس کو ced9 کہا تھا۔ یہ مار دینے والے پروٹین پیدا کر کے خلیے کو ختم کرتی ہے۔

انسانی خلیے میں اس کی ایکٹیویشن موت کے راستے کو بلاک کر دیتی ہے اور یوں ایسا خلیہ وجود میں آتا ہے جو مر نہیں پاتا۔ یہ کینسر کا خلیہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

EmbryoIntroFIG3lr

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply